عوام کی توجہ معاشی بحران سے ہٹا کر مذہبی منافرت کی طرف موڑنے کی منظم کوشش...عبیداللہ ناصر
حکومت کے مضبوط پبلسٹی نیٹ ورک نے معاشی زوال، بڑھتے بیرونی قرض اور برآمدات میں گراوٹ جیسے سنگین مسائل سے عوام کی توجہ ہٹا کر مذہبی تقسیم اور سیاسی تماشوں کی طرف موڑ دی ہے

بہار اسمبلی انتخابات کے شور و غوغا میں ملک کے اصل مسائل ایک بار پھر دب کر رہ گئے ہیں۔ ووٹر لسٹ کے تنازعے سے لے کر انتخابی وعدوں تک ہر معاملہ میڈیا کے لئے مرکزی موضوع بن گیا ہے مگر معیشت کی بگڑتی ہوئی تصویر پس منظر میں چلی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان اس وقت ایک سنگین معاشی بحران سے دوچار ہے لیکن حکومت کا پبلسٹی نظام اس قدر طاقتور اور چاق و چوبند ہے کہ بحث کا رخ ہمیشہ اسی سمت موڑ دیا جاتا ہے جو حکومت یا اس کے کارپوریٹ حامیوں کے مفاد میں ہو۔
گزشتہ چند برسوں میں مذہبی منافرت اور کارپوریٹ مفادات کے گٹھ جوڑ نے سیاست کا رنگ بدل دیا ہے۔ عوام کے سامنے ایک نیا بیانیہ تراشا گیا ہے جس میں روزگار، مہنگائی، برآمدات اور قرض جیسے موضوعات کی جگہ ہندو مسلم بحثوں نے لے لی ہے۔ یہ صورت حال اس مثل کی طرح ہے کہ ’آنکھ جھپکی اور پوٹلی غائب‘— جہاں حقیقی مسائل کو پسِ منظر میں دھکیل کر سیاسی جادوگری سے فریب بیچا جا رہا ہے۔
حال ہی میں حکومت کی طرف سے تقریباً 35 ہزار کلو سونا فروخت کیے جانے کی خبر نے کئی سوالات کو جنم دیا مگر حیرت انگیز طور پر یہ خبر مین اسٹریم میڈیا سے غائب رہی اور صرف چند آزاد یوٹیوبرز نے یہ انکشاف عوام تک پہنچانے کی جرأت کی۔ سوال یہ ہے کہ یہ سونا کیوں فروخت کیا گیا؟ اطلاعات کے مطابق ریزرو بینک نے تقریباً 60 ہزار کروڑ روپے خرچ کیے ہیں مگر اس کی تفصیلات نہ پارلیمنٹ کے سامنے رکھی گئیں نہ عوام کے سامنے۔ ماہرین معیشت کے مطابق یہ فیصلہ دراصل زرمبادلہ کے ذخیرے میں خطرناک کمی کے باعث کیا گیا، جس میں سات ارب ڈالر تک کی گراوٹ ریکارڈ ہوئی ہے۔
اس گراوٹ کی ایک بڑی وجہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ہندوستانی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کرنا ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں ہندوستانی برآمدات میں زبردست کمی آئی ہے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مسلسل گرتی جا رہی ہے۔ حکومت کو توازنِ ادائی برقرار رکھنے کے لئے مجبوراً سونا بیچنا پڑا۔ یہ وقتی سہارا شاید وقتی سکون دے مگر معیشت کی بنیادیں مزید کمزور ہو رہی ہیں۔
ادھر بہار میں توانائی کے شعبے میں 62 ہزار کروڑ روپے کے گھپلے کا انکشاف بی جے پی کے اپنے لیڈر اور سابق مرکزی وزیر آر کے سنگھ نے کیا ہے۔ مودی کی پہلی کابینہ میں توانائی کے وزیر رہ چکے آر کے سنگھ کا الزام کسی معمولی بنیاد پر نہیں ہو سکتا۔ ان کے مطابق اڈانی پاور پروجیکٹ کو ایک روپے فی ایکڑ سالانہ کے حساب سے ہزاروں ایکڑ زمین لیز پر دے کر کارپوریٹ لوٹ کا نیا باب رقم کیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں یہی پروجیکٹ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) ماڈل پر منظور ہوا تھا جس سے بہار کو سالانہ تقریباً تین لاکھ کروڑ روپے کا ریونیو حاصل ہونا تھا مگر موجودہ پالیسی میں فائدہ صرف کارپوریٹس کے کھاتے میں گیا، عوام کے نہیں۔ ملک کی معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ بڑھتا ہوا بیرونی قرض ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں یہ قرض چھ گنا بڑھ چکا ہے۔ 2014 میں جب منموہن سنگھ حکومت ختم ہوئی تو بیرونی قرض 55 لاکھ کروڑ تھا، جو اب تقریباً 325 لاکھ کروڑ تک پہنچ چکا ہے۔ اس قرض کا سالانہ سود ہی ہندوستان کے بیشتر ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں کو نگل رہا ہے۔
معاشی اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق بھی خوفناک ہیں۔ بھکمری انڈیکس میں ہندوستان بنگلہ دیش اور پاکستان سے بھی نیچے جا چکا ہے۔ اس کے باوجود سرکاری ادارے، بینک اور صنعتیں اونے پونے داموں پر بیچی جا رہی ہیں۔ ریزرو بینک کے محفوظ ذخیرے سے دو سو لاکھ کروڑ روپے کی نکاسی کی گئی مگر اس کا حساب آج تک سامنے نہیں آیا۔
جو انفرااسٹرکچر تعمیر ہو رہا ہے وہ عوامی ضرورت کے بجائے چند مخصوص کارپوریٹ گھرانوں کی کمائی کا ذریعہ بن گیا ہے۔ سرکاری وسائل کو نجی مفادات کے لئے وقف کر دینا کسی بھی جمہوری معیشت کی بقا کے لئے خطرناک علامت ہے۔ حکومت نے مذہب اور قوم پرستی کے نعروں کے ذریعے ان تمام سلگتے سوالوں پر مٹی ڈال دی ہے۔ عوام کو مذہبی جوش اور قومی فخر کی افیون پلا کر حقیقی مسائل سے دور رکھا جا رہا ہے۔ مگر یہ لاوا زیادہ دیر دب کر نہیں رہ سکتا۔ جب عام آدمی کی جیب خالی، پیٹ بھوکا اور روزگار ختم ہو جاتا ہے تو نعرے اور نعمتیں دونوں بے اثر ہو جاتے ہیں۔
امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات میں تناؤ نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے عائد ٹیرف کے نتیجے میں ہندوستان کی ٹیکسٹائل، کیمیکل، زرعی آلات، جواہرات اور زیورات کی برآمدات بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ برآمدات کی آمدنی 4.8 بلین ڈالر سے گھٹ کر 3.2 بلین ڈالر رہ گئی ہے۔
مئی سے ستمبر کے درمیان صرف امریکہ کو ہونے والی برآمدات میں 38 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ ان اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہے کہ ہندوستانی مصنوعات کی جگہ اب تھائی لینڈ، ویتنام اور دیگر ایشیائی ممالک لے رہے ہیں۔
ٹرمپ کا غیر متوقع رویہ اور یکطرفہ فیصلے ہندوستانی معیشت کے لئے زہرِ قاتل ثابت ہو رہے ہیں۔ باوجود اس کے، حکومت نے امریکی دباؤ کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔ مودی نے ٹرمپ کی حمایت میں انتخابی مہم تک چلائی، ان کے کہنے سے آپریشن سندور بھی روک دیا تھا اور روس سے تیل خریدنا بند کیا لیکن اس کے باوجود امریکہ نے ہندوستان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیا۔
یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ہندوستان نے کسی عالمی طاقت کے سامنے اس طرح جھکنے کی روش اپنائی۔ سرد جنگ کے دور میں بھی ہندوستان نے اپنی خودمختاری کے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا تھا مگر آج خارجہ پالیسی مکمل طور پر سرمایہ دارانہ دباؤ کے تابع نظر آ رہی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں ہندوستانی تارکینِ وطن کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک کیا گیا، ہتھکڑیاں، زنجیریں اور جبراً ملک بدری، وہ قومی وقار پر بدنما داغ ہے مگر مودی حکومت نے اسے خاموشی سے برداشت کیا، جیسے بے بسی کا کوئی گونگا تماشائی۔
نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستانی معیشت کی جڑیں اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ کارپوریٹ لوٹ، بڑھتا قرض، گرتی برآمدات، اور مذہبی منافرت — یہ سب ایک ہی منصوبے کا حصہ ہیں: عوام کی توجہ اس جانب سے ہٹانا کہ معیشت خطرے میں ہے۔ جب قوم نعرے لگانے میں مصروف ہو اور اشرافیہ دولت سمیٹنے میں، تو سمجھ لیجئے کہ تباہی قریب ہے۔