ابھینندن کی رہائی کو پائلٹ پروجیکٹ کہنا! ’مودی ہے تو ممکن ہے‘... وشنو ناگر

حزب اختلاف خواہ اپنی ریلیاں روک دے، کانگریس اپنی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ملتوی کر دے، لیکن وزیر اعظم مودی کا ووٹ کا سفر رکنا ناممکن ہے، مودی کو ملک کی نہیں اپنی گدی کی فکر ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وشنو ناگر

سرکاری تقریبات کے بہانے مودی جی انتخابی ریلیاں کرتے ہیں اور کانگریس یا ٹی ایم سی یا مارکسیوں یا کسی اور پارٹی کو ناکارا بتاتے ہیں اور اس کا خرچ عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اس لئے حضور آپ نے بالکل صحیح کہا کہ ناممکن اب ممکن ہے اور ’مودی ہے تو ممکن ہے‘!

پلوامہ میں سی آر پی ایف کے جوانوں پر دہشت گرد حملہ ہو، 44 جوان مرے اور ملک کا وزیر اعظم ’ڈسکوری چینل‘ کے لئے فلم کی شوٹنگ میں مصروف ہے یہ پہلے ممکن نہیں تھا لیکن اب ہے۔ فضائیہ کے جوان پاکستان کے بالاکوٹ میں گھس کر عسکری کارروائی کریں اور اس کے کچھ گھنٹوں بعد ملک کا وزیر اعظم اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے پلوامہ کے شہیدوں کی فوٹو اسٹیج پر چسپاں کروائے اور پھر اپنی پارٹی کی انتخابی ریلی کرے یہ ’مودی ہے تو ممکن ہے‘!

حزب اختلاف خواہ اپنی ریلیاں روک دے، کانگریس اپنی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ملتوی کر دے لیکن وزیر اعظم مودی ہیں کہ ان کا ووٹ کا سفر رکنا ناممکن ہے۔ مودی کو ملک کی نہیں بلکہ اپنی گدی کی فکر ہو، یہ مودی ہے تو ممکن ہے۔ وزیر اعظم کے پاس دہشت گردانہ حملہ کے بارے میں حزب اختلاف کے رہنماؤں کو اعتماد میں لینے کے لئے اجلاس کی صدارت کرنے کا بھلے وقت نہ ہو لیکن ایک دن میں چار چار ریلیاں کرنے کا وقت ضرور ہے، یہ ناممکن کام اب ممکن ہے!

حزب اختلاف کی چھوڑو، ملک کے باشندگان کو اعتماد میں لینے کے لئے جس وزیر اعظم کے پاس قوم کے نام پیغام نشر کرنے کی فرصت نہ ملے، یہ پہلے ممکن نہیں تھا لیکن اب ممکن ہے۔ جس ملک کے جوانوں پر دہشت گردانہ حملہ ہوا ہو، اس کے وزیر اعظم کے پاس میٹرو میں سواری کرنے، 800 کلو کی ’گیتا‘ کا اجرا کرنے، ’کھیلو انڈیا ایپ‘ لانچ کرنے، 15000 مقامات پر مبینہ طور پر ایک کروڑ بی جے پی کارکنان سے ’مہا سمواد‘ (مکالمہ) کرنے، ’میرا بوتھ، سب سے مضبوط‘ کرنے کی فرصت ہو، یہ ’مودی ہے تو ممکن ہے!‘

ہماری فضائیہ کے ایک ونگ کمانڈر کو پاکستان نے پکڑ لیا ہو، ملک بھر میں تشویش کا عالم ہو لیکن ہمارا پی ایم بے فکر رہے، اس کی رہائی کی فکر نہ کرے، وہ رہا ہونے والا ہو تو اس کو ’پائلٹ پروجیکٹ‘ کہہ کر مذاق اڑائے، یہ پہلے ناممکن رہا ہوگا لیکن اب یہ ممکن ہے۔ بالاکوٹ پر فضائی کارروائی کا سیاسی فائدہ اٹھائے لیکن خارجہ امور پر پارلیمنٹ کی مستقل کمیٹی کو یہ نہ بتائے کہ کتنے دہشت گرد ہلاک ہوئے، جبکہ دنیا سوال اٹھا رہی ہے، یہ مودی ہے تو ممکن ہے!

چین اور پاکستان کو ناکو چنے چبوانا اور 15-15 لاکھ ہر شہری کی جیب میں ڈالنا خواہ ناممکن ہو مگر امت شاہ اور سنگھ کے لئے یہ کہنا ممکن ہے کہ رام مندر کو نہیں، فوجی کارروائی کو ایشو بناؤ۔ مودی کے دور میں ہی یہ کہنا یدی یورپا کے لئے ممکن ہے کہ پلوامہ کے بعد اب تو ہم کرناٹک کی 22 لوک سبھا سیٹیں جیت جائیں گے۔

مودی ہیں تو ممکن ہے کہ ٹی وی چینلوں کے اینکر فوجی بندوقوں سے زیادہ منہ سے آگ اگل کر دشمن کو زمین دوز کرنے کے لئے فوجی وردی میں اینکرنگ کریں۔ مودی ہیں تو ممکن ہے کہ اینکر بغیر کسی ثبوت کے شاید ایک کے مرنے کو 300-500-600 پاکستانی فوجیوں کے مرنے کا دعوی بے دھڑک کریں اور سوشل میڈیا پر اپنے ان خدمت گاروں کو ہندوستان کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ’لشکر میڈیا‘ کا خطاب دلوائیں!

کوئی اور وزیر اعظم ہوتا تو اس کے لئے یہ سب کرنا، کروانا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے لئے ایسے وقت میں اس کا میدان جنگ ’چناؤ‘ کا میدان نہیں، ملک کی سلامتی ہوتی لیکن وزیر اعظم مودی ہیں تو سب کچھ ممکن ہے، تو یہ بھی ممکن ہے۔

کوئی اور وزیر اعظم ملک کا چوکیدار ہوتا تو انتخابات کے اعلان سے عین قبل اڈانی کے ہاتھوں 50 سال کے لئے 6-6 ہوائی اڈے نہ لٹوا دیتا۔ لٹاتا تو اس کا سر شرم سے جھک جاتا، اس کا سینہ 56 انچ سے 6 انچ رہ جاتا لیکن مودی ہیں تو ممکن ہے کہ اس کے بعد بھی ان کا سینہ 58-60 انچ ہو گیا ہے اور 70 انچ بھی ہونے کو تیار ہے۔

’مودی ہے تو ممکن ہے‘ یہ وزیر اعظم کے عہدے کا وقار مٹی میں مل جائے۔ سرکاری تقریب اور انتخابی ریلی کا فرق ختم ہو جائے۔ ہندی کے زیادہ تر اینکر جنگ کے لئے للکار نے والے بن جائیں، کراچی بیکری میں سے لفظ کراچی کو پوت دیا جائے۔ ویسے انتہا پسندوں! ہندوستان میں کراچی حلوہ بنتا بھی ہے اور ملتا بھی ہے۔ ممکن ہے اس کا بننا، بکنا بھی اب بند ہو جائے یا پھر دشمن کو مٹانے کے نام پر بازار میں دستیاب سارا کراچی حلوہ سنگھی چاٹ جائیں اور ایک ایک کلو وزیر اعظم مودی اور امت شاہ کے لئے بطور تحفہ لیتے جائیں۔

محض اتنا ہی نہیں ’امن ایوارڈ‘ کے لئے بد امنی پھیلانے کے ارادے سے چنگاری بھڑکانا یہ صرف ’مودی ہیں تو ممکن ہے۔‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 03 Mar 2019, 8:09 PM