ڈاکٹر سید محمود: تحریک آزادی کا مرد مجاہد اور گنگا جمنی تہذیب کا پاسدار
ڈاکٹر سید محمود آزادی کے عظیم مجاہد اور ہند و مسلم اتحاد کے علمبردار تھے، جنہوں نے سیاست، تعلیم، سفارت اور اردو کے تحفظ میں نمایاں کردار ادا کیا لیکن افسوس تاریخ نے انہیں فراموش کر دیا

ڈاکٹر سید محمود تحریک آزادی ہند کے ان عظیم رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد کے ساتھ ساتھ آزاد ہندوستان کی تعمیر و ترقی میں بھی بے مثال خدمات انجام دیں۔ وہ زندگی کے ہر موڑ پر سرفروشانہ کردار ادا کرتے رہے۔ ان کی سیاسی و سماجی خدمات ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا روشن باب ہیں۔ انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس کے پرچم تلے سیاسی میدان میں قدم رکھا اور آخری سانس تک کانگریس کے سیکولر نظریے کی پاسداری کرتے رہے۔
سید محمود 1889ء میں ضلع غازی پور کے موضع سیدپور بھیتری میں قاضی سید محمد عمر کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جونپور میں حاصل کی اور پھر علی گڑھ کالج پہنچے۔ وہاں سر راس مسعود، تصدق حسین شیروانی اور عبدالرحمن بجنوری جیسے باکمال ہم جماعت ملے۔ علی گڑھ کے دنوں میں ہی ان کے دل میں برطانوی استعمار کے خلاف بغاوت کا جذبہ بیدار ہوا۔ 1905ء میں انڈین نیشنل کانگریس کے بنارس اجلاس میں شریک ہوئے اور طلبہ تحریکوں میں بھی پیش پیش رہے۔ برطانوی انتظامیہ کے دباؤ کے بعد انہیں علی گڑھ سے نکالا گیا تو وہ بیرسٹری کی تعلیم کے لیے لندن روانہ ہوئے۔
لندن میں قیام کے دوران ان کے روابط مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو سے استوار ہوئے۔ 1912ء میں جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور 1913ء میں وطن واپس آ کر پٹنہ میں وکالت شروع کی۔ لیکن جلد ہی سیاست اور قومی خدمت نے انہیں عملی وکالت سے دور کر دیا۔
1914ء میں انہوں نے باقاعدہ کانگریس کی رکنیت اختیار کی۔ ہوم رول لیگ، تحریک خلافت اور عدم تعاون میں سرگرم رہے اور 1922ء میں پہلی بار قید کیے گئے۔ 1923ء میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے نائب جنرل سکریٹری اور 1930ء میں جنرل سکریٹری منتخب ہوئے۔ سات برس تک اس منصب پر فائز رہتے ہوئے انہوں نے کانگریس کو تنظیمی طور پر مضبوط کیا۔
1930ء میں موتی لال نہرو اور جواہر لال نہرو کے ساتھ سول نافرمانی تحریک میں شریک ہوئے اور الہ آباد کی نینی جیل میں قید کاٹی۔ 1937ء کے انتخابات میں جنوبی چمپارن سے کامیاب ہوکر بہار حکومت میں وزیر تعلیم، ترقی اور منصوبہ بندی بنے۔ بعدازاں 1942ء کی ’بھارت چھوڑو تحریک‘ کے دوران احمد نگر قلعہ میں دو سال قید رہے۔
1946ء میں دوبارہ بہار اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور ٹرانسپورٹ، صنعت اور زراعت کے وزیر رہے۔ آزادی کے بعد بھی ان کی سیاسی جدوجہد جاری رہی۔ 1952ء میں مشرقی چمپارن اور 1957ء میں گوپال پور سے لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے۔ 1954ء تا 1957ء وزارت خارجہ میں وزیر مملکت رہے اور خلیجی ممالک، ایران اور مصر سے ہندوستان کے تعلقات کو نئی جہت دی۔ وہ ایک مدت تک راجیہ سبھا کے بھی رکن رہے۔
ڈاکٹر سید محمود نہ صرف سیاست بلکہ تہذیبی و لسانی سطح پر بھی متحرک رہے اور اردو زبان کے زوال پر ہمیشہ فکر مند رہے۔ ان کے نزدیک اردو کو دانستہ نظرانداز کر کے ایک پوری نسل کو اپنی زبان سے محروم کیا گیا۔
ہندی۔اردو کشیدگی کے پس منظر میں انہوں نے ’روشنی‘ نامی دو لسانی اخبار جاری کیا تاکہ دونوں زبانوں کے بولنے والوں میں قربت پیدا ہو۔ علاوہ ازیں ان کی تصنیف A Plan of Provincial Reconstruction بھی خاصی مقبول ہوئی۔
سید محمود دو قومی نظریے کے سخت مخالف تھے۔ ان کے نزدیک ہندوستان کی اصل طاقت ہندو مسلم اتحاد ہے۔ وہ گنگا جمنی تہذیب کے سچے پاسدار تھے اور فرقہ واریت کے بڑھتے خطرات پر ہمیشہ خبردار کرتے رہے۔ ان کا ماننا تھا کہ آزادی کے بعد سب سے بڑی ذمہ داری ملی یکجہتی کو قائم رکھنا ہے۔
28 ستمبر 1971ء کو وہ دہلی میں انتقال کر گئے لیکن افسوس کہ جس رہنما نے تحریک آزادی سے لے کر آزاد ہندوستان کی سیاست، تعلیم اور سفارتکاری تک ہر میدان میں خدمات انجام دیں، انہیں تاریخ میں وہ مقام نہ مل سکا جس کے وہ مستحق تھے۔
ڈاکٹر سید محمود کی پوری زندگی قربانی، جدوجہد اور اصول پسندی کا استعارہ ہے۔ وہ آزادی کے سچے سپاہی، اتحاد کے داعی اور اردو کے مخلص علمبردار تھے۔ آج جب ہم قومی یکجہتی اور گنگا جمنی تہذیب کی بات کرتے ہیں تو ڈاکٹر سید محمود کی یاد خودبخود تازہ ہوجاتی ہے۔ ان کی جدوجہد اور افکار ہمیں بتاتے ہیں کہ قومیں محض سیاست سے نہیں بلکہ مشترکہ تہذیبی ورثے کی حفاظت سے بھی زندہ رہتی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔