الوداع: سرداروں کے سردار

ڈاکٹر منموہن سنگھ کی ایمانداری اور قیادت نے ہندوستان کو دنیا میں الگ مقام دیا۔ انہوں نے اقتصادی بحران کے وقت ملک کو مستحکم رکھا اور ترقی کی نئی راہیں ہموار کیں

<div class="paragraphs"><p>ڈاکٹر منموہن سنگھ / Getty Images</p></div>

ڈاکٹر منموہن سنگھ / Getty Images

user

سید خرم رضا

ڈاکٹر منموہن سنگھ ایک ایسی شخصیت تھے جن کی وداعی نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا ہے، ایک ایسی شخصیت جس نے زیادہ تر انسانوں کو کسی نہ کسی طرح چھوا ہے۔ سردار منموہن سنگھ کی ذہانت کی جہاں سب سے طاقتور ملک کے سربراہ براک اوباما قدر کرتے نہیں تھکتے وہیں ہندوستان کا عام آدمی بھی ان سے خود کو جڑا محسوس کرتا تھا۔ براک اوباما نے کہا تھا کہ جب ’ڈاکٹر سنگھ بولتے ہیں تو پوری دنیا سنتی ہے۔‘ ان کی یہ آواز، جس کو پوری دنیا سنتی تھی، اس کی بنیادی وجہ ان کی ایمانداری تھی۔

مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ ہندوستان میں ویسے تو متعدد وزرائے اعظم ہوئے ہیں مگر ان میں سے دو وزرائے اعظم ایسے رہے ہیں جو سیاست داں ضرور تھے لیکن انہوں نے کبھی اپنے عہدے کے سیاسی تقاضوں سے سمجھوتا نہیں کیا۔ وہ دو وزرائے اعظم ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور ڈاکٹر منموہن سنگھ ہیں۔ ظاہر ہے دونوں کو حالات بالکل مختلف قسم کے ملے لیکن دونوں نے ملک کے مفاد کو مقدم رکھا۔ نہرو کے دور کو پڑھا ہے لیکن منموہن سنگھ کے دور کو نہ صرف دیکھا ہے بلکہ مجھے ان سے ملنے کا شرف بھی حاصل ہوا ہے۔


نہرو کو وہ دور ملا جب انگریز سمیت کئی لوگوں نے ہندوستان کی ترقی اور ہندوستان کو ہندوستان بنانے پر کئی طرح کے سوال کھڑے کیے ہوئے تھے۔ اکثر کا یہ کہنا تھا کہ انگریز کے علاوہ ہندوستان کو کوئی نہیں چلا سکتا۔ نہرو نے اپنی سائنسی سوچ اور دور اندیشی کی وجہ سے ہندوستان کو اس بھنور سے ایسے باہر نکالا کہ ہندوستان نے دنیا کے نقشے پر اپنا مقام بنایا۔ نہرو نے نہ صرف ہندوستان کے اندر ترقی کرنے کے لیے کئی نئے مراکز بنائے بلکہ دنیا میں بھی اپنا لوہا منوانے اور اپنی شناخت بنانے کے لیے ناوابستہ تحریک کی داغ بیل ڈالی۔ یہ ان ممالک کا گروپ تھا جو نہ تو سوویت یونین اور نہ امریکی بلاک میں شامل تھے۔ اس تحریک میں نہرو، ناصر اور ٹیٹو پیش پیش تھے۔ اس تحریک سے خود اعتمادی کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ ناوابستہ تحریک کے وقت ہندوستان کو آزاد ہوئے صرف 24 سال ہوئے تھے اور 24 سال کسی بھی نئے ملک کے لیے ایسے فیصلے لینے کا وقت نہیں ہوتا، مگر اس سے نہرو کی دور اندیشی کی عکاسی ہوتی ہے۔ یعنی یوں کہیے کہ نہرو نے ملک کی قیادت کرتے ہوئے اسے اس مقام پر پہنچا دیا تھا جہاں ہندوستان کو نہ صرف پہچان ملی بلکہ ان کی قیادت نے ملک بھر میں اعتماد کی ندی بھی بہا دی۔

جب ہندوستان کھڑا ہو گیا اور اس نے چلنا شروع کر دیا تو اس کو دنیا کے نقشے پر دوڑانے کی ذمہ داری سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے سنبھالی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ منموہن سنگھ کو تبدیل شدہ دنیا ملی اور جب انہوں نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو اس وقت دنیا کے نقشے سے سوویت یونین کا بلاک ختم ہو چکا تھا اور ہندوستان کے پاس بھی اپنی ضرورتیں پوری کرنے کی وافر تعداد میں اشیاء موجود تھیں۔ اس لیے منموہن سنگھ کے پاس تھوڑی بہت پریشانیوں کے علاوہ ہندوستان کو دوڑانے کے لیے راہ ہموار ملی۔ منموہن سنگھ نے اپنی ایمانداری کے بل بوتے جب دنیا کے نقشے پر ملک کو دوڑانا شروع کیا تو پوری دنیا نے ان کا لوہا مان لیا۔ 2007-2008 میں جب پوری دنیا کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی تھی تو معاشی بحران ہندوستان کو چھو بھی نہیں سکا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ منموہن سنگھ نے دنیا کے کئی ممالک کو اس بحران سے بچایا، جس کی وجہ سے ان کی اور ہندوستان کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہندوستان کو دنیا کے موجودہ نقشے پر پہنچانے میں منموہن سنگھ نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔


ہندوستان میں اگر یہ دو وزرائے اعظم نہ ہوتے تو ہندوستان کی تصویر کچھ اور ہی ہوتی۔ نہرو نے ہندوستان کو اپنی سائنسی سوچ اور دور اندیشی کی وجہ سے کھڑا کیا اور اسے چلنا سکھایا اور منموہن سنگھ نے اقتصادی اصلاحات کی بنیاد پر ہندوستان کو دنیا کے نقشے پر ایسے دوڑایا کہ آج ہندوستان کا الگ ہی مقام ہے۔ وہ سکھ یعنی سردار ضرور تھے لیکن ملک کے لیے وہ سرداروں کے سردار تھے، جس نے ملک کو اعلیٰ مقام پر پہنچایا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔