ڈاکٹر منموہن سنگھ اور ان کی دیانت داری... حمرا قریشی

’’شروع میں ان کی خواہش صرف کالج کا پروفیسر بننے، ایک چھوٹا سا فلیٹ تلاش کرنے اور چنڈی گڑھ میں مقیم ہونے کی تھی۔ پھر کچھ اتفاقات نے ان کی زندگی کی سمت ہی بدل دی‘‘

<div class="paragraphs"><p>ڈاکٹر منموہن سنگھ / Getty Images</p></div>

ڈاکٹر منموہن سنگھ / Getty Images

user

حمرا قریشی

مشہور تصنیف ’ایبسولیوٹ خشونت‘ (پینگوئن، 2010) میں خشونت سنگھ نے ان شخصیات اور سیاست دانوں کے بارے میں بہت تفصیل سے بات کی ہے، جن سے ان کی ملاقات ہوئی۔ یہ تصنیف ان کے ساتھ ساتھ میری کاوشوں کا بھی نتیجہ ہے۔ انھوں نے اپنی بات تفصیل سے رکھی، اور میں نے اسے قلمبند کیا۔ اس کتاب میں انھوں نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کے بارے میں بھی بات کی ہے۔ اس تذکرہ میں یقینی طور پر ماہر معیشت کے طور پر ڈاکٹر منموہن سنگھ کی صلاحیت، ان کے بے مثال تعاون، ملک کی معیشت کو معاشی ترقی کے راستے پر لانے سے متعلق عناصر شامل تھے۔ خشونت نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی سادگی اور دیانت داری پر بھی روشنی ڈالی تھی۔ میں اس کتاب سے ڈاکٹر منموہن سنگھ کے متعلق کچھ اہم اقتباسات پیش کرنا چاہوں گی۔

ڈاکٹر منموہن سنگھ سے متعلق خشونت کہتے ہیں کہ ’’وہ بہت نرم مزاج ہیں اور اور سادگی پسند بھی۔ انھوں نے ایک چھوٹے سے گاؤں میں بہت ہی معمولی وسائل والے خاندان میں پرورش پائی اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے بے انتہا جدوجہد کی۔ شروع میں ان کی خواہش صرف کالج کا پروفیسر بننے، ایک چھوٹا سا فلیٹ تلاش کرنے اور چنڈی گڑھ میں مقیم ہونے کی تھی۔ پھر کچھ اتفاقات نے ان کی زندگی کی سمت ہی بدل دی۔ وہ کیمبرج اور آکسفورڈ، اقوام متحدہ و ہندوستان کے مالیاتی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر تک پہنچ گئے، اور اب وہ وزیر اعظم ہیں۔ لیکن وہ ہمیشہ زمین سے جڑے رہے۔‘‘


خشونت مزید بتاتے ہیں کہ ’’واقعتاً میں ان کو اس وقت سے جانتا تھا جب وہ جنوبی دہلی سے انتخاب میں شکست کھا گئے تھے۔ یہ 1999 کی بات ہے۔ میں حیران اور بے حد متاثر ہوا، کیونکہ ان کے داماد (جنھیں میرا کنبہ جانتا تھا) انتخابی تشہیر کے لیے ضروری ٹیکسیوں کو کرایہ پر لینے کے مقصد سے کچھ رقم قرض لینے آئے تھے۔ صرف 2 لاکھ روپے قرض کا مطالبہ انھوں نے کیا۔ ظاہر ہے ان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے۔ میں نے انھیں نقد پیسے دے دیے۔ انتخاب میں شکست کے چند روز بعد منموہن سنگھ نے خود مجھے فون کیا اور ملاقات کا وقت مانگا۔ وہ ایک پیکٹ لے کر مجھ سے ملنے آئے۔ پیکٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے انھوں نے کہا ’میں نے پیسے استعمال نہیں کیے‘۔ نقدی سے بھرا وہ پیکٹ میرے حوالے کر دیا جو میں نے ان کے داماد کو دیا تھا۔ یہ عمل کسی سیاستداں کا نہیں ہے! جب لوگ دیانتداری و ایمانداری کی بات کرتے ہیں، تو میں کہتا ہوں کہ بہترین مثال وہ شخص ہے جو اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہو۔ (یہاں یہ بتانا اہم ہے کہ جب یہ کتاب 2010 میں شائع ہوئی، تو ڈاکٹر منموہن سنگھ ہندوستان کے وزیر اعظم تھے۔)

--

کہاں ہیں وہ بالی ووڈ اداکار جنھوں نے شہرت کے لیے کسانوں کا کردار ادا کیا!

وہ بالی ووڈ اداکار کہاں گئے جنھوں نے فلموں میں کسانوں کے کردار ادا کیے! مجھے معلوم ہے کہ وہ مصنوعی کردار تھے، بیشتر پریوں کی داستان کے مانند۔ انھیں کیا ہوا جو جو سر سبز و شاداب کھیتوں اور گھاس کے میدانوں و جنگلوں میں گاتے اور رقص کرتے تھے۔ چونکہ ان لاتعداد فلمی کرداروں نے اپنے کسان کردار کے سبب مقبولیت حاصل کی، اس لیے ان کرداروں کو نبھانے والے اداکاروں کو چاہیے کہ آج چل رہی کسانوں کی تحریک اور ان کی بدحالی پر چند ایک لفظ کہیں۔ ہاں، اگر کچھ خاص بالی ووڈ ستارے گاؤں اور دیہی علاقوں میں کسان کے کردار کو نبھا کر گراف میں اوپر آ سکتے ہیں، تو یہ وقت ہے کہ وہ ملکی کسانوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔


آج کئی اداکار اور اداکارائیں کھیتوں اور زرعی زمین کے مالک ہیں، پھر بھی وہ کسانوں کو درپیش مسائل سے متعلق نہیں بولتے۔ یہ عجیب ہے کہ وہ اپنے کھیتوں کا مظاہرہ تو کرتے ہیں، لیکن طویل مدت سے چل رہی کسان تحریک، ان کے مطالبات اور بقایہ رقم کے لیے آواز نہیں اٹھاتے۔ کسانوں کی زندگی جدوجہد سے بھری ہے، جس کی وجہ سے وہ موت کا شکار ہوتے ہیں، خودکشی جیسا راستہ اختیار کرتے ہیں... لیکن یہ اداکار اس بارے میں خاموش ہیں۔ کسانوں کی زندگی چیلنجز اور مالی تنگیوں سے بھری ہوئی ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمیں کھانا دینے والا کسان خود شدید مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ وہ دو وقت کی روٹی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، قرض کے بوجھ سے دبا ہوا ہے، سرکاری حملوں سے نبرد آزما ہے۔

ہاں، یہ مایوس کن ہے کہ بالی ووڈ کے کسی بھی ستارے نے آگے آکر اپنی بات نہیں رکھی۔ کیوں؟ کیا ایسا اس لیے کیونکہ ان کے پاس وقت کم ہے یا ضروری عزائم کی کمی ہے، یا پھر وہ اس وقت کے سیاسی حکمرانوں اور ان کے زیر تسلط مشینری کے ردعمل کی زیادہ فکر کرتے ہیں! میں یہ اس لیے کہہ رہی ہوں کیونکہ ملک کے کئی اہم شعرا، ماہر تعلیم اور دانشوروں نے 2002 کے گجرات قتل عام کے خلاف آواز اٹھائی تھی، لیکن بالی ووڈ نے تب بھی مایوس کیا تھا۔ فرقہ وارانہ قتل اور نسل کشی کے خلاف بولنے کی ہمت بہت کم لوگوں نے کی تھی۔ بالی ووڈ کے بڑے نام و کنیت اور بڑے بینر گجرات کے سیاسی حاکموں سے کیوں نہیں جھگڑے؟ ان کا سخت جواب تھا: اگر ہم نسل کشی میں ہلاک یا متاثرہ کنبہ تک پہنچتے تو ہم حکومت کی ’خراب کتابوں‘ میں شامل ہو جاتے اور ہماری فلموں کو نشانہ بنایا جاتا، اور ہم برباد ہو جاتے!


تلخ حقیقت یہ ہے کہ بالی ووڈ کے سرکردہ اداکار، ہدایت کار اور فلمساز شاید ہی کبھی ملک میں ہو رہی کسی بھی اتھل پتھل، چاہے وہ بڑی ہو یا چھوٹی، کی تنقید کرتے ہیں۔ شاید وہ اپنے کیریئر کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ ملک میں پھیل رہے فرقہ واریت پر مبنی واقعات کو بڑے پیمانہ پر رقم کیا گیا ہے، لیکن بالی ووڈ کی ملائی دار اوپری سطح بہت خاموش بیٹھی!

شکر ہے کہ حساس و جذباتی شعرا موجود تھے جنھوں نے سیاسی لیڈران اور سیاسی نتائج سے بے پروا ہو کر اپنے دل اور روح سے اپنی بات لکھی۔ آپ ذرا ساحر لدھیانوی کے ان سطور پر غور کریں...

مرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے تو اتنی ہے

کہ جب میں دیکھتا ہوں بھوک کے مارے کسانوں کو

غریبوں مفلسوں کو، بے کسوں کو، بے سہاروں کو

حکومت کے تشدد کو امارت کے تکبر کو

تو دل تابِ نشاطِ بزم عشرت لا نہیں سکتا

میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا'

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔