یکساں سول کوڈ: کیا کسی کو عورتوں کی بھی فکر ہے؟… شاہ رخ عالم

موجودہ حکومت خواتین کی آزادی کے نام پر جو کچھ بھی کر رہی ہے، اس کا اصل مقصد اس کے ٹھیک برعکس ہے، چاہے بات پرسنل لاء کی ہو یا پھر یکساں سول کوڈ کی۔

خواتین / تصویر آس محمد
خواتین / تصویر آس محمد
user

قومی آوازبیورو

جان لے کیر نام سے برطانوی مصنف ڈیوڈ جان مور کارنویل نے کئی مشہور جاسوسی ناول لکھے ہیں۔ ان پر فلمیں بھی بنی ہیں۔ جس طرح میں انھیں پسند کرتا ہوں، جو بھی انھیں پڑھنا پسند کرتا ہے وہ اس بات سے ضرور متفق ہوگا کہ سرد جنگ نہ صرف آزادی کے لبھاؤنے اصولوں کو زمین پر اتارنے بلکہ برابری لانے کی کسوٹی پر بھی کھرا نہیں اترتا۔ ان کے اہم کردار اسمائلی بریٹین تو کارلا سوویت یونین کے زبردست جاسوس تھے اور وہ لوگ مبینہ طور پر انہی اصولوں کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ افسوس، آخر میں یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ تو 'دی گریٹ گیم' کا حصہ بھر تھے جس میں سیاست، موت اور دھوکہ سب شامل تھے۔ اس میں جوڑ توڑ اور دانشمندی کی جدوجہد اس حد تک شامل تھی کہ یہی آگے چل کر سوچ کو آگے بڑھانے کا اہم اوزار بنا۔

بہرحال، مجھے لے کیر اس لیے اچھے لگتے ہیں کہ وہ قومی زندگی میں کیے گئے بے پناہ مظالم اور تمام حادثات کی تصویر باریکی سے سامنے لاتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ دیگر نیشنلسٹ منصوبے، چاہے وہ اصلاح پسندی ہو یا موجودہ وقت میں سب کچھ کو یک رنگی کر دینے کی کوشش، کے بارے میں بھی یہی بات نافذ ہوتی ہے۔ جوڑ توڑ اور روزانہ کے مظالم ترغیبی قوت بن گئی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ سوچ 'مذہب تبدیلی' سے خواتین کی خود مختاری پر بہت غیر واضح بات کرتا ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ یہی سوچ خواتین کی خود مختاری کو کو ہر طریقے سے ہتھیار لیے جانے کی اجازت دے دیتا ہے۔ بے شک وہ مظالم کی بات ہو یا پھر حکومت اور بین مذہبی شادیوں پر گہری نگاہ رکھنے والے اس کے حامیوں کی۔ آپ کو یہ جاننے کے لیے موجودہ سماجی تانے بانے میں کوئی محنت نہیں کرنی ہوگی کہ خواتین شادی کے لیے ہر طرح کا سمجھوتہ کر لیتی ہیں۔ چاہے شہر جا کر بسنے کی بات ہو، اپنا کام چھوڑنے، کب بچے کی پیدائش ہو سے لے کر مذہب تبدیلی کرنے یا پھر ویسی فضول خرچی والی شادی کی بات ہو جس کی صلاحیت عام طور پر والدین کی نہیں ہوتی۔ اس ماحول میں شادی کے لے مذہب تبدیلی کے معاملے میں پورا فوکس مذہب تبدیلی کو مسئلہ کے طور پر پیش کرنے پر ہوتا ہے جبکہ خواتین کی خود مختاری کے موضوع کو ہوا میں اڑا دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے، اس عمل میں ایک عورت کی ذاتی پسند یا ناپسند کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔


اب عدالت کا رخ کرتے ہیں۔ امیرالدین بنام مصمت خاتون بی بی (1917، الٰہ آباد ہائی کورٹ) ہندوستان کے ان شروعاتی عدالتی معاملوں میں سے ایک تھا جس نے طلاق ثلاثہ کو یکطرفہ طلاق کی جائز شکل کے طور پر منظور کیا تھا۔ امیرالدین اچھا انسان نہیں تھا اور اس پر غصے کا دورہ چڑھتا تھا۔ اس نے خاتون بی بی کو کئی بار بول کر طلاق دیا۔ لیکن چونکہ یہ طلاق کی جائز شکل نہیں تھی، اس لیے وہ بار بار معافی مانگ لیتا اور شوہر و بیوی ایسے ہی رہ رہے تھے۔ ایک بار جب کہا سنی میں مصمت خاتون کا صبر جاتا رہا تو اس نے مہوبا سے اپنے والدین کو بلایا اور اسے اپنے ساتھ لے چلنے کو کہا۔ امیرالدین نے اسے روکا لیکن جب مصمت نہیں مانی تو اسٹیشن پر ہی اس نے پھر غصے میں اسے طلاق طلاق طلاق کہہ دیا۔

ہمیشہ کی طرح کچھ دنوں کے بعد اس کا غصہ ختم ہوا تو اس نے معافی مانگی اور مصمت کو لوٹ آنے کے لیے کہا۔ لیکن مصمت نے یہ کہتے ہوئے منع کر دیا کہ اس نے طلاق منظور کر لیا ہے۔ معاملہ عدالت میں گیا جہاں شوہر کا دعویٰ تھا کہ تین طلاق مذہب کے خلاف ہے جبکہ بیوی کا دعویٰ تھا کہ یہ واجب ہے۔ عدالت نے بیوی کے حق میں فیصلہ سنایا اور اس طرح طلاق ثلاثہ کو ہندوستانی عدالتوں میں رسمی طور سے منظوری مل گئی۔


سپریم کورٹ میں تین طلاق معاملے کی سماعت کے دوران دہلی ہائی کورٹ کے کچھ ہی وقت پہلے کے ایک فیصلے کو پیش کیا گیا تھا کہ طلاق کے اس شکل کو اب قانون میں ناجائز مانا گیا ہے۔ مسرور احمد بنام اسٹیٹ آف این سی ٹی آف دہلی (2008) کے معاملے میں مسرور نے تین بار طلاق کہہ کر بیوی کو اس کی ماں کے گھر بھیج دیا تھا۔ کچھ دن بعد وہ اس سے ملنے گیا اور تب اس کے ساتھ زبردستی جسمانی رشتہ بنایا۔ اس پر اس کی بیوی نے اس کے خلاف عصمت دری کا معاملہ درج کرا دیا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ طلاق طلاق طلاق کہنے کے ساتھ ہی ان کا نکاح ختم ہو گیا تھا جبکہ شوہر کا کہنا تھا کہ وہ شادی شدہ تھے۔ عدالت نے فیصلہ سنایا کہ تین طلاق دراصل طلاق کی جائز شکل نہیں تھی اس لیے ان کی شادی برقرار تھی اور اس لیے عصمت دری کے جرم کا معاملہ نہیں بنتا۔

سپریم کورٹ کے ذریعہ طلاق ثلاثہ کو ناجائز یعنی غیر قانونی قرار دیے جانے کے بعد مرکزی حکومت اسے مجرمانہ بنانے والا قانون لے کر آئی۔ اس کے بعد تو لگ رہا تھا کہ جیل مسلم مردوں سے بھر جائیں گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ میرا تجربہ یہی ہے کہ پولیس اس قانون کے تحت معاملے درج کرنے یا تفتیش کرنے سے بچتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جس سیاسی جلدبازی کے ساتھ تین طلاق کو ایک بڑے مسئلہ کی شکل میں پیش کیا گیا اور پھر سب کرنے کے بعد جس طرح اس کی طرف سے آنکھیں موند لی گئیں، اس کی وجہ یہ ہو کہ زمینی حقیقت وہ نہیں تھی جو بتائی گئی؟ ویسے بھی طلاق ثلاثہ گھریلو تشدد کی سب سے بڑی مثال پیش نہیں کرتا۔ خواتین کے ساتھ بڑے پیمانے پر تشدد ہوتا ہے، انھیں چھوڑ دیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ طرح طرح کا برا سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ پولیس اور فریق استغاثہ چھوٹے موٹے جرائم کے لیے شوہروں کو ان کی بیویوں سے الگ کرنے میں ہمیشہ جھجکتے ہیں۔


طلاق ثلاثہ سے متعلق قوانین کو لے کر مثبت سماجی رد عمل تو دیکھنے کو نہیں ملا، لیکن مسلم خواتین میں طلاق ایکٹ میں حقوق تحفظ (1986) کو لے کر کافی خوشی رہی۔ یہ قانون کہتا ہے کہ کسی بھی طلاق کی حالت میں عورت کو اتنی رقم کی یکمشت ادائیگی کی جائے گی جس سے وہ شادی شدہ زندگی والی سطح کے مطابق تاعمر گزارہ کر سکے۔

کسی بھی اصلاح کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ شناخت کرنا کہ کس کی زندگی میں تبدیلی کی منشا ہے، اس عمل میں ان کی سرگرم شراکت داری اور پھر کچھ حد تک جمہوری عام اتفاق۔ لیکن یکساں سول کوڈ کے معاملے ایسا کچھ بھی ہوتا نہیں نظر آتا۔ ایک دلیل ہے کہ یکساں سول کوڈ کے آنے سے الگ الگ ذاتی قانونی رسوم غیر آئینی ہو جائیں گے۔ اس عمل میں اس بات پر کوئی بحث نہیں ہوتی ہے کہ کس طرح ہمارا نظام انصاف ایک طرف تو یکطرفہ طلاق کو فروغ دے رہا ہے، وہیں لیو-اِن جیسی روایت کو بھی فروغ دے رہا ہے جنھیں اسٹیٹ منظوری نہیں دیتا۔


ایک اصلاحی قدم کے طور پر بھی یکساں سول کوڈ کے مقاصد میں ابہام ہے۔ ایک طرف تو یہ قانونی کثرت پسندی کے ساتھ موافق نہیں، وہیں ذاتی پسند و ناپسند کے معاملے میں بھی غیر واضح ہے۔ یکساں سول کوڈ اور کچھ نہیں بلکہ سب کچھ یکرنگ کر دینے کی چاہت کا ایک حصہ بھر ہے اور اس چاہت کا آخری مقصد اس ملک کو ایک ہندو راشٹر بنانا ہے۔

(مضمون نگار شاہ رخ عالم سپریم کورٹ میں وکیل ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔