یومِ آزادی پر مجاہدینِ آزادی کی روح کو تکلیف پہنچائی گئی... عبید اللہ ناصر
یومِ آزادی پر وزارتِ پٹرولیم کی تصویر میں ساورکر کو گاندھی، بھگت سنگھ اور نیتاجی سے اوپر دکھایا گیا اور وزیرِ اعظم مودی نے آر ایس ایس کی تعریف کی، جس سے تاریخ مسخ کرنے کا تاثر ابھرا

شیطان دو منٹ میں رحمان بن گئے
جتنے نمک حرام تھے کپتان بن گئے
شاعرِ انقلاب جوش ملیح آبادی کے اس حقیقت سے بھرپور شعر کی مکمل تفسیر اس بار یومِ آزادی پر دکھائی دی جب وزارتِ پٹرولیم سے جاری ایک فوٹوگراف میں ساورکر کو مہاتما گاندھی، نیتا جی سبھاش چندر بوس اور شہیدِ اعظم بھگت سنگھ سے بھی اوپر دکھایا گیا۔ ادھر ستم بالائے ستم وزیرِ اعظم نریندر مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے قوم کے نام روایتی خطاب میں آر ایس ایس کی تعریف میں قصیدے پڑھے۔ آر ایس ایس کے نظریات کے حامی لوگوں کو چھوڑ کر پورا ملک انگشت بدنداں تھا کہ ملک کا وزیرِ اعظم ایک ایسی تنظیم کو یومِ آزادی پر خراجِ تحسین پیش کر رہا ہے جس نے جنگِ آزادی میں ذرہ برابر بھی شرکت نہیں کی، ناخن تک نہیں کٹوایا، الٹے انگریزوں کی حمایت ہی کرتے رہے۔ ایک نہیں ہزاروں مثالیں دی جا سکتی ہیں، تاریخی شواہد پیش کیے جا سکتے ہیں کہ کس کس طرح آر ایس ایس انگریزوں کی حمایت کرتی رہی۔
آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا دونوں کا رویہ کھل کر جنگِ آزادی کی مخالفت، مجاہدینِ آزادی کی مخبری اور انگریزوں کی حکومت کو استحکام دینے کا رہا ہے۔ اسی جذبہ کے تحت ساورکر نے ہندوتوا کا نظریہ پیش کر کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو الگ قوم بتایا تھا۔ یہی نہیں، انہوں نے مسلمانوں، عیسائیوں اور کمیونسٹوں کی حب الوطنی کو بھی مشکوک بنانے کے لیے فادر لینڈ اور مدر لینڈ کا شوشہ چھوڑا اور بتایا کہ چونکہ یہ تینوں ہندوستان کی سرزمین پر نہیں پیدا ہوئے اس لیے وہ اس ملک کے وفادار نہیں ہو سکتے۔ سنگھی آج تک اسی زہریلے نظریہ پر کاربند ہیں۔
1942 میں جب کانگریس نے ’انگریزو بھارت چھوڑو‘ کا نعرہ دیا تو ہندو مہاسبھا کے لیڈر اور جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی نے گورنر کو خط لکھ کر اس تحریک کو آہنی ہاتھوں سے کچل دینے کا مشورہ دیا تھا اور جب کانگریس نے انگریزی فوج میں ہندوستانیوں کی بھرتی کی مخالفت کی تو سنگھی بھرتی کیمپ چلا کر فوج میں نوجوانوں کو بھرتی کروا رہے تھے۔ جب نیتا جی سبھاش چندر بوس نے ’تم مجھے خون دو، میں تمہیں آزادی دوں گا‘ کا نعرہ دے کر اپنی آزاد ہند فوج میں ہندوستانیوں کو بھرتی کر رہے تھے تو سنگھی اس کی کھل کر مخالفت کر رہے تھے۔
شہیدِ اعظم بھگت سنگھ کو ایک ہندو مہاسبھائی شادی لال اور سردار شوبھا سنگھ کی گواہی پر پھانسی کی سزا ملی تھی، بعد میں دونوں کو انگریزوں نے خوب انعام و اکرام سے نوازا تھا، جبکہ کانگریس کے صدر رہ چکے آصف علی بھگت سنگھ کے وکیل تھے اور جسٹس آغا حیدر نے انگریزی حکومت کا دباؤ قبول نہ کرتے ہوئے بھگت سنگھ کو پھانسی کی سزا نہیں سنائی اور اپنے عہدہ سے استعفا دے دیا تھا۔ ایک مہاسبھائی دیودت ترپاٹھی جو انقلابیوں کی صف میں شامل ہو گیا تھا، اس ہی کی مخبری پر الفرڈ پارک الہ آباد میں چندر شیکھر آزاد کو برطانوی پولیس نے گھیر لیا تھا، جہاں انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جب آخری گولی بچی تو اسے اپنی کنپٹی میں پیوست کر کے حبِ الوطنی کی ایک نئی تاریخ مرتب کر دی۔
ایسے ہی گھناؤنے سیاہ کارناموں سے سنگھیوں کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ سردار پٹیل نے انہیں مبینہ طور پر شیطانوں کا جھنڈ یونہی نہیں کہا تھا۔ جنگِ آزادی کی مخالفت، مجاہدینِ آزادی کی مخبری اور بابائے قوم مہاتما گاندھی کا قتل—ایسے گناہ ہیں جن کی پاداش میں سنگھ پریوار پر مستقل پابندی لگا دینی چاہیے تھی۔ یہ پنڈت نہرو کی جمہوریت نوازی تھی کہ ان کی حکومت نے ان پر پہلی بار لگی پابندی ان کے کچھ شرائط مان لینے پر اٹھا لی تھی، حالانکہ انہوں نے بعد میں ان شرطوں کو ہوا میں اڑا دیا تھا۔ دوسری بار ایمرجنسی میں اندرا گاندھی کی حکومت نے پابندی لگائی تھی جو انہوں نے معافی مانگ کر واپس کروائی۔ تیسری بار پابندی نرسمہا راؤ کی سرکار نے لگائی تھی جو عدالت کی مداخلت سے ختم ہوئی۔
جنگِ آزادی میں ہی نہیں، آزادی کے بعد بھی یہ اپنی منفی حرکتوں پر کاربند رہے۔ سب سے پہلے انہوں نے نئے آئین کی مخالفت شروع کی؛ وہ چاہتے تھے کہ نیا آئین نہ بنے بلکہ منوسمرتی ہی کو ہندوستان کا آئین بنا دیا جائے جو ذات پات کی تفریق اور برہمن واد پر مبنی نظام نافذ کرتا ہے۔ جب ترنگے کو ہندوستان کا جھنڈا بنایا گیا تو اس کی بھی مخالفت کی اور بھگوا جھنڈا ملک کا پرچم بنوانا چاہا۔ گرو گولوالکر کا کہنا تھا کہ تین کا ہندسہ اشبھ ہے۔ اس پر سردار پٹیل نے کہا تھا کہ جنہیں یہ نہیں معلوم کہ ہندوؤں کے تین بڑے دیوتا برہما، وِشنو، مہیش ہیں، ان کے بارے میں کیا کہیں؟ آج بھی ان کی آئین سے مخالفت اور ترنگے سے ناپسندیدگی ظاہر ہے، پھر بھی وہ اس کی رٹ لگا کر عوام کو بے وقوف بناتے رہتے ہیں اور اندر ہی اندر آئین کے الفاظ ہی نہیں، اس کی روح بھی مجروح کرتے ہیں۔
آر ایس ایس نے اپنے قیام سے لے کر آج تک ہمیشہ ملک پر صرف ہندو بالادستی کی جدوجہد کے علاوہ، ملک اور قوم کے مفاد—خاص کر اس کی جذباتی اور ذہنی ہم آہنگی برقرار رکھ کر ملک کو ایک دھاگے میں پروئے رکھنے—کے لیے نہ صرف یہ کہ کچھ نہیں کیا بلکہ اس کو تار تار کرنے ہی کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ انہی ملک دشمن، انسانیت دشمن نظریات کی وجہ سے وہ ہندوستانی عوام کے ایک بڑے طبقے کے دلوں میں کوئی جگہ نہیں بنا سکے۔ سوچیے کہ جس ملک میں ہندوؤں کی آبادی 80 فیصدی سے بھی زیادہ ہو، وہاں وہ آج بھی یعنی 100 سال کی محنت، لگن اور یکسوئی کے بعد محض 30 تا 35 فیصدی لوگوں کی حمایت حاصل کر سکے ہیں۔ اس میں سے بھی اگر سنگھی نظریات کے اصل حامیوں کو الگ کر دیا جائے تو ان کی مقبولیت پندرہ بیس فیصدی سے آگے نہیں جا سکتی۔
آزادی کے بیس بائیس برسوں تک تو حالت یہ تھی کہ لوگ سنگھیوں کو چمٹی سے چھونا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ 1987 میں کانگریس مخالف دور شروع ہوا اور آر ایس ایس کی سیاسی شاخ جن سنگھ اپوزیشن کے اتحاد کا حصہ بن کر نہ صرف اقتدار اور قبولیت حاصل کی بلکہ اس موقع سے بہترین فائدہ اٹھاتے ہوئے سسٹم کے ہر شعبے میں اپنے آدمیوں کو بٹھانا شروع کر دیا۔ اپنی اس کھیتی کی لہلہاتی ہوئی فصل وہ آج کاٹ رہی ہے اور حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ جنگِ آزادی میں اس کے سیاہ کارناموں—غداری، مخبری—کو بھلا کر لال قلعہ کی فصیل سے تحسین پیش کی جا رہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔