مسجد میں نمازِ تراویح کے دوران ختم قرآن اور پیش آنے والی بدنظمی، کیا ہم اصل پیغام بھول گئے؟

رمضان میں قرآن کریم مکمل ہونے کے بعد مساجد میں بدنظمی افسوسناک ہے۔ دم شدہ پانی یا تیل کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن قرآن کی تعلیمات پر عمل اور مسجد کا احترام سب سے ضروری ہے

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / اے آئی</p></div>

علامتی تصویر / اے آئی

user

عمران اے ایم خان

رمضان المبارک کی بابرکت راتیں عبادات، توبہ و استغفار اور دعاؤں کے لیے مخصوص ہیں۔ ان راتوں میں مسلمان زیادہ سے زیادہ نیکیوں کے حصول میں مصروف ہوتے ہیں۔ قرآن کریم کی تلاوت، نماز تراویح اور دعائیں ان مبارک ساعتوں کو مزید نورانی بنا دیتی ہیں۔ خاص طور پر 27ویں شب کو مساجد میں ایک خاص روحانی ماحول ہوتا ہے، کیونکہ بیشتر مساجد میں اسی شب میں دورانِ نماز تراویح قرآن کریم مکمل ہوتا ہے۔ یہ لمحہ نہ صرف خوشی کا ہوتا ہے بلکہ قرآن کریم کی عظمت کو یاد کرنے کا بھی موقع ہوتا ہے۔ مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ بعض مقامات پر یہ مبارک اجتماع روحانیت اور سکون کے بجائے بدنظمی اور ہنگامے کا منظر پیش کرتا ہے۔

گزشتہ کل، یعنی رمضان کی 27ویں شب میرا مشاہدہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ جامع مسجد میں نماز تراویح کے بعد دعا سے قبل اچانک مجمع میں ایک عجیب سا ہنگامہ برپا ہو گیا۔ ہر طرف لوگ امام صاحب کی طرف دوڑ پڑے۔ کسی کے ہاتھ میں پانی کی بوتل تھی، کوئی تیل کی شیشی لے کر بھاگ رہا تھا اور کچھ لوگوں کے ہاتھ میں لوبان تھا۔ سب کی خواہش تھی کہ امام صاحب سب سے پہلے ان کی چیزوں پر پھونک مار دیں۔ مسجد کا تقدس اور ماحول اس وقت پوری طرح نظر انداز ہو چکا تھا۔ لوگ بے قابو ہو کر ایک دوسرے کو دھکیلتے ہوئے امام صاحب تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر میں الجھن میں پڑ گیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ مسجد میں بدنظمی اور شور و غل؟ بچوں سے لے کر بزرگوں تک سبھی پھونک لگوانے کے لیے دوڑ رہے تھے۔ امام صاحب بھی بھاری بھیڑ کے پیش نظر جلدی جلدی پھونک مار رہے تھے۔

تھوڑی ہی دیر بعد مفتی صاحب نے قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی فضیلت پر تقریر شروع کی۔ وہ لوگوں کو رمضان کی برکتیں اور قرآن سے جڑنے کے فضائل بیان کر رہے تھے، مگر کسی بھی لمحے انہوں نے اس بدنظمی یا مسجد میں ہونے والے شور و غل پر کوئی بات نہ کی۔ حالانکہ مسجد کے ادب و احترام کے حوالے سے انہیں ضرور توجہ دلانی چاہیے تھی۔ دعا کے بعد تبرک تقسیم ہونے لگا اور ایک بار پھر افرا تفری کا عالم تھا۔ لوگ سیڑھیوں پر دھکم پیل کرتے ہوئے نیچے اتر رہے تھے تاکہ تبرک حاصل کر سکیں۔ یوں لگا جیسے مسجد کوئی عبادت گاہ نہیں بلکہ بازار کا کوئی اسٹال ہو، جہاں لوگ چیزیں لوٹنے کے لیے بے قابو ہو رہے ہوں۔ میرے لیے حیرت کی بات یہ تھی کہ لوگ پھونک مارے ہوئے پانی یا تیل کی اہمیت کو سمجھ رہے ہیں، لیکن قرآن کریم کی حقیقی تعلیمات اور مسجد کے احترام کی نہیں۔

پھونک یا دم سے قرآن کریم کی برکت حاصل کرنا اپنی جگہ ہے، لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ قرآن کریم کی اصل برکت اسے سمجھ کر زندگی میں نافذ کرنا ہے۔ قرآن انسان کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے اور اسے پڑھنا، سمجھنا اور اس پر عمل کرنا سب سے بہتر عمل ہے۔ میرے چچازاد بھائی نے مسجد میں مجھ سے کہا کہ تم بھی تیل یا پانی لے آؤ، مگر میں نے بدبدا کر کہا کہ مجھے اس بھیڑ کا حصہ نہیں بننا۔ میرے دل میں یہی احساس تھا کہ قرآن کی تعلیمات ہمیں عمل کی دعوت دیتی ہیں، محض رسومات کی نہیں۔


دعائیہ دم یا پھونک کرنا جائز ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بعض مواقع پر پانی یا مریضوں پر دعا کی برکت سے دم فرمایا۔ تاہم دم شدہ پانی یا تیل کو ضرورت سے زیادہ عقیدت کے ساتھ مقدس سمجھ کر رکھنا مناسب نہیں ہے۔ یہ چیزیں شفا یا برکت کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں، لیکن یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ دین ہمیں عمل کی ترغیب دیتا ہے، محض رسموں میں الجھنے کی نہیں۔

مسجد میں جو بدنظمی کا منظر میں نے دیکھا، وہ دراصل اس بات کی علامت تھی کہ ہم نے عبادت گاہوں کا احترام نظرانداز کر دیا ہے۔ مسجد میں شور و غل مچانا، بھاگ دوڑ کرنا اور بدنظمی دین کی روح کے خلاف ہے۔ مسجد میں داخل ہونے، بیٹھنے اور نکلنے کے آداب ہیں، جنہیں اکثر لوگ فراموش کر دیتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ اس بدنظمی کے خلاف نہ امام صاحب نے کوئی بات کی اور نہ ہی انتظامیہ نے لوگوں کو نظم و ضبط کا درس دیا۔

میرا مشاہدہ یہ ہے کہ مسجد میں ہونے والے اس طرح کے مظاہر ہمارے رویے میں موجود خامی کی علامت ہیں۔ قرآن کو ضابطۂ حیات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مسجد میں جانا محض دعا لینے یا تبرک لینے کے لیے نہیں، بلکہ تربیت حاصل کرنے اور خود کو بہتر بنانے کے لیے ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ قرآن ہماری زندگی کا منشور ہے، نہ کہ صرف کسی رسم یا ظاہری برکت کا ذریعہ۔ جب تک ہم اس حقیقت کو نہیں سمجھیں گے، تب تک مساجد میں بدنظمی، شور اور ہنگامہ برقرار رہے گا اور ہم قرآن کی اصل برکات سے محروم رہیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔