گنگا کی آلودگی، ڈاکٹر جی ڈی اگروال کی بھوک ہڑتال اور مودی حکومت کی جملے بازی

ڈاکٹر جی ڈی اگروال نے اپنے خط میں وزیر اعظم کو لکھا ہے کہ چار سالوں میں گنگا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا، صرف کارپوریٹ سیکٹر اور کاروباری گھرانوں کو ہی فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

مہیندر پانڈے

17 ستمبر کو گنگا کے لیے بھوک ہڑتال کرتے سوامی گیان سوروپ سانند کو 88 دن ہو گئے۔ لیکن جن کا دعویٰ تھا کہ انھیں گنگا نے وارانسی میں بلایا تھا، انھیں اتنی بھی فرصت نہیں ملی کہ وہ سوامی جی کے کسی خط کا جواب بھیج سکیں یا ان سے بات کر سکیں۔ 2011 میں ریٹائرمنٹ لینے سے پہلے سوامی گیان سوروپ سانند کا نام ڈاکٹر جی ڈی اگروال تھا اور حال میں ندیوں کے مسائل اور ان کے حل کا ان سے بڑا ماہر ملک میں شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ ڈاکٹر اگروال نے 9 ستمبر کو وزیر اعظم کو لکھے خط میں اعلان کیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات نہیں پورے کیے گئے تو وہ 10 اکتوبر سے پانی بھی چھوڑ دیں گے۔

ڈاکٹر اگروال آئی آئی ٹی کانپور میں پروفیسر تھے، پھر مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ کے شروعاتی دنوں میں طویل مدت تک اس کے رکن سکریٹری رہے۔ اس کے بعد گرامودے یونیورسٹی میں پروفیسر رہے۔ اس حکومت کے پہلے تک ڈاکٹر اگروال ندیوں سے اور ماحولیات سے متعلق تقریباً ہر اعلیٰ سطحی کمیٹی کا حصہ رہے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے، خاص طور پر ریٹائرمنٹ لینے کے بعد انھوں نے اپنی پوری زندگی گنگا کے لیے وقف کر دی۔

گنگا کے بارے میں جملے کو چھوڑ کر کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے، یہ ڈاکٹر اگروال کے خطوط سے واضح ہوتا ہے۔ 6 اگست کو وزیر اعظم نریندر مودی کو لکھے گئے خط میں انھوں نے کہا کہ ’’ان چار سالوں میں آپ کی حکومت کے ذریعہ جو کچھ بھی ہوا اس سے گنگا جی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس کی جگہ کارپوریٹ سیکٹر اور کاروباری گھرانوں کو ہی فائدہ دکھائی دے رہے ہیں۔ ابھی تک آپ نے گنگا سے منافع کمانے کی ہی بات سوچی ہے۔‘‘ اس خط کے پہلے حصے میں انھوں نے لکھا ہے ’’مجھے یہ یقین تھا کہ آپ وزیر اعظم بننے کے بعد گنگا جی کی فکر کریں گے، کیونکہ آپ نے خود بنارس میں 2014 کے انتخابات میں یہ کہا تھا کہ مجھے ماں گنگا نے بنارس بلایا ہے۔ اس وقت مجھے یقین ہو گیا تھا کہ آپ شاید گنگا جی کے لیے کچھ کریں گے۔‘‘

گنگا کی آلودگی، ڈاکٹر جی ڈی اگروال کی بھوک ہڑتال اور مودی حکومت کی جملے بازی

ڈاکٹر اگروال نے اپنے خط میں گنگا کے تعلق سے منموہن سنگھ حکومت کی تعریف بھی کی ہے۔ انھوں نے خط میں لکھا ہے ’’میری گزارش کو قبول کرتے ہوئے منموہن سنگھ جی نے لوہاری-ناگپال جیسے بڑے پروجیکٹ منسوخ کر دیے تھے، جو کہ 90 فیصد بن چکے تھے اور جس میں حکومت کو ہزاروں کروڑ کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ لیکن گنگا جی کے لیے منموہن سنگھ جی کی حکومت نے یہ قدم اٹھایا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے بھاگیرتھ جی کے گنگوتری سے اُتر کاشی تک کا علاقہ ’ایکو سنسیٹیو زون‘ قرار دیا تھا تاکہ گنگا جی کو نقصان پہنچانے والے کام نہیں ہوں۔‘‘

4 جولائی کو نتن گڈکری کو بھیجے خط میں ڈاکٹر اگروال نے کہا ہے ’’آپ لوگوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے یہ حالت ہوئی ہے۔‘‘ اسی خط میں انھوں نے گنگا کی آزادی سے پہلے اور بعد کی حالت کا بھی تجزیہ لیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’گنگا جی خاص ہیں۔ صرف شاستروں میں تذکرہ ہونے اور ہماری ثقافت میں پوجنے یا جدید فکر میں ماں کی طرحپرورش کرنے اور اس کی گندگی دھونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ گنگا کا پانی معیار میں خاص ہے، بہت خاص، شفاف۔ آزادی سے قبل تک کی ہماری نسلیں اس شفاف اور خاص گنگا کے پانی کے نہ سڑنے اور اس کی مرض کو ختم کرنے کی صلاحیت کو صرف روایتوں سے مانتی ہی نہیں تھی بلکہ اپنے تجربات سے جانتی تھی۔ آزادی کے بعد ہم نے اس پر سائنسی تحقیق کر سمجھانے اور پھر فیصلہ لینے کی جگہ اسے محض اندھی تقلید کہہ کر فراموش کر دیا اور دیگر آبی ذرائع، ندیوں کی طرح منصوبہ بنانے، تعمیر کرنے اور اس کا استعمال کرنے میں مصروف ہو گئے۔‘‘

واضح ہے کہ ’نمامی گنگے‘ اور ’گنگا نے مجھے بلایا ہے‘ محض انتخابی جملے تھے۔ اس حکومت کو نہ تو گنگا کی فکر ہے اور نہ ہی اسے صاف کرنے والے ماہرین کی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */