ذوالحجہ: حج والا مہینہ، ہجری سال کا آخری اور حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے

ذوالحجہ یعنی حج والا مہینہ، ہجری سال کا آخری اور حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے۔ عازمین حج اللہ کے گھر جا چکے ہیں اور وہ خطہ ارض اس وقت اللہ اکبر، اللہ اکبر کی صداؤں سے گونج رہا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>سوشل میڈیا</p></div>

سوشل میڈیا

user

مدیحہ فصیح

اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کے نازل ہونے کی جگہ میں حاضری دینا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح اللہ کی دعوت پر لبیک کہنا اور اس عظیم الشان قربانی کی روح کو زندہ کرنا، ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام کی پیروی کرتے ہوئے اللہ کے حکم کے سامنے تسلیم ورضا، فرمانبرداری اور اطاعت کے ساتھ اپنی گردن جھکا دینا حج کہلاتا ہے۔ 

ذوالحجہ یعنی حج والا مہینہ، ہجری سال کا آخری اور حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے۔ عازمین حج اللہ کے گھر کو جا چکے ہیں اور وہ خطہ ارض اس وقت اللہ اکبر اللہ اکبر کی صداوں سے گونج رہا ہے۔ جو نہ جا سکے وہ اللہ کے گھر کو دیکھنے کے آرزومند ہیں۔ اللہ سبحان وتعالی کا اپنے بندوں پر خاص کرم ہے اسی لیے جو لوگ بیت اللہ کی زیارت نہ کرسکے ان کے لیے بھی یہ مہینہ نیکیاں کمانے اور اپنے رب کی نظر میں محبوب بننے کا وسیلہ ہے۔ 


ہمارا رب بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے جو بار بار ہمیں آخرت کو سنوارنے کے موقع فراہم کرتا ہے، قرآن مجید میں ارشاد خدا وندی ہے (والفجر ولیال عشر) ”قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی“۔ دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں، اللہ عزوجل کا کسی شے کی قسم کھانا اس کی عظمت و فضیلت کی واضح دلیل ہے۔ لہٰذہ یہ عشرہ امت مسلمہ کے لئے انعامات ربی کا خزانہ لوٹنے کا بہترین وقت ہے اس کی فضیلت کئی جگہ اللہ رب العزت کے ارشادات اور اس کے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے واضح ہے۔ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں کو سب سے اعلیٰ و افضل قرار دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ”اور دنوں میں بندے کا عبادت کرنا اللہ تعالیٰ کو اتنا محبوب نہیں جتنا ذوالحجہ کے عشرہ میں محبوب ہے، اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر اور اس کی ہر رات کے نوافل شب قدر کے نوافل کے برابر ہیں“ ( ترمذی) 


ایک اور حدیث میں آپؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ ”دنیا کے افضل ترین دن ایام العشر (یعنی ذوالحجہ کے دس دن) ہیں“۔ صحابہ کرام نے عرض کیا ”کیا اللہ کے راستے میں جہاد بھی (ان دنوں کے عمل سے بڑھ کر نہیں؟) فرمایا ”نہیں، جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں۔ سوائے اس شخص کے جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہ لوٹا (یعنی شہید ہوگیا)“۔

حج کا رکن اعظم یومِ عرفہ بھی انہی ایام میں ہے اسی مناسبت سے اس مہینے کا نام ذوالحجہ ہے یعنی حج والا مہینہ۔ یوم عرفہ انتہائی شرف و فضیلت کا حامل ہے یہ گناہوں کی بخشش اور دوزخ سے آزادی کا دن ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ جس قدر عرفہ کے دن لوگوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہے اس سے زیادہ کسی اور دن آزاد نہیں کرتا“ (صحیح مسلم)


حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”عرفہ کے دن کے روزے کے متعلق میں اللہ تعالیٰ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اس کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کو معاف فرمادیں گے“ (صحیح مسلم)۔ واضح رہے کہ عشرہ ذوالحجہ میں روزے 9 ذوالحجہ تک ہی رکھے جاسکتے ہیں، 10 ذوالحجہ کو عید ہوتی ہے جس کا روزہ رکھنا جائز نہیں۔ عشرہ ذو الحجہ میں تکبیر و تسبیح اور ورد کی تلقین فرمائی گئی ہے، اور بطور خاص ایام تشریق میں تکبیرات تشریق پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

تکبیر تشریق ( اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ. وَاَللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ) 9 ذوالحجہ کی فجر سے 13 ذوالحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ بلند آواز سے پڑھنا مرد و عورت دونوں پر واجب ہے، البتہ عورت بلند آواز سے نہ کہے۔ لہٰذہ ہمیں چاہیے کہ اس عشرہ میں مالک دو جہاں کی حمد وثنا سے سربسجود ہوکر اس کی بارگاہ میں اپنا زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں۔


حج کیا ہے؟

اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کے نازل ہونے کی جگہ میں حاضری دینا،حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح اللہ کی دعوت پر لبیک کہنا اور اس عظیم الشان قربانی کی روح کو زندہ کرنا، ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام کی پیروی کرتے ہوئے اللہ کے حکم کے سامنے تسلیم ورضا، فرمانبرداری اور اطاعت کے ساتھ اپنی گردن جھکا دینا حج کہلاتا ہے۔ اور اس بندگی کے طریقے کو اسی طرح بجا لانا جس طرح وہ ہزاروں برس پہلے بجالائے اور خدائی نوازشوں اور بخششوں سے مالا مال ہوئے یہی ملت ابراہیمی اور یہی حقیقی اسلام ہے یہی روح اور یہی باطنی احساس ہے جس کو حاجی حضرات ان برگزیدہ بندوں کے مقدس اعمال کو اپنے جسم پر سجا کر ظاہر کرتے ہیں۔ اسی ابتدائی دور کی طرح بغیر سلے ہوئے کپڑے پہنتے ہیں، اپنے بدن اور سر کے بال نہ منڈواتے ہیں نہ کٹواتے ہیں، نہ خوشبو لگاتے ہیں، نہ سر ڈھانپتے ہیں۔

صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ میں حاضر ہو کر پکارا۔ ”میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ سب خوبیاں اور سب نعمتیں تیری ہی ہیں اور سلطنت تیری ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔“ ان تمام حاجیوں کے زبانوں پر وہی ہزاروں سال پہلے کے کلمات جاری ہو جاتے ہیں۔ یہ توحید کی صدا ان تمام مقامات اور بلند گھاٹیوں میں بلند کرتے ہیں، جہاں ان دونوں نیک بندوں کے نقش قدم زمین پر پڑے۔


پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ محترمہ ہاجرہ علیہ السلام نے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کے درمیان چکر لگائے آج حاجی وہاں سعی کرتے ہیں، چلتے ہیں، مخصوص جگہ میں دوڑتے ہیں، دعا کرتے ہیں، گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں۔ عرفات کے بڑے میدان میں جمع ہو کر اپنی گزشتہ عمر کے گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی چاہتے ہیں، خدا کے حضور گڑگڑاتے روتے ہیں، اپنے قصور معاف کرواتے ہیں، اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کاعہد کرتے ہیں۔ اسی وقوف عرفات کو حج کا بنیادی رکن کہتے ہیں، جس میں لاکھوں بند گان خدا ایک وحدت کے رنگ میں ایک لباس، ایک ہی جذبہ میں سرشار، ایک بے آب وگیاہ، خشک میدان، پہاڑوں کے درمیان دعا و مغفرت کی پکار لگاتے ہیں۔

یہی وہ مقام ہے جہا ں ابراہیم علیہ السلام سے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک بہت سے انبیاء اسی حالت اور اسی صورت میں اسی جگہ کھڑے ہوئے تھے۔ ایسا روحانی منظر، ایسا کیف، ایسا اثر، ایسا گداز، ایسی تاثیر پیدا کرتا ہے جس کی مٹھاس روح اور جسم کی تار تار میں رچ بس جاتی ہے۔ پھر حاجی قربانی کرتے ہیں۔ ارشاد نبوی کے مطابق اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔اور پھر یہ کہتے ہیں”میں نے موحد بن کر ہر طرف سے منہ موڑ کر اس کی طرف منہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں۔ (الانعام آیت 79 “)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ”جس شخص نے اللہ کے گھرکا حج کیا اور بیہودگی و فسق سے بچا رہا تو اس حالت میں لوٹے گا جیسے آج ہی ماں کے بطن سے پیدا ہوا ہو“۔ (صحیح بخاری) اللہ کریم نے ہر عبادت میں ہمارے لیے کوئی نہ کوئی حکمت ضرور رکھی ہے جیسے نماز ہمیں متحد ہونا اور وقت کا پابند بناتی ہے۔ حج ایک ایسی عبادت ہے، جو ہمیں اجتماعیت، اتحادیت کا درس دیتی ہے، رنگ و نسل کا امتیاز ہو، چاہے ذات پات کا اختلاف ہو، سب کو ختم کر دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حج بیت اللہ کرنے کی سعادت اور پھر اس کی برکات سے مستفیض فرمائے آمین۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔