چین پر انحصار، امریکہ سے نرمی، غزہ پر خاموشی؛ ہندوستانی کی خارجہ پالیسی کی بےبسی
چین پر نازک انحصار، ٹرمپ کی دھمکیوں کے باوجود نرم رویہ، غزہ پر خاموشی اور روس سے دوری نے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کو عالمی سطح پر بے اثر کر دیا ہے

علامتی تصویر / اے آئی
ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ کے صدر بننے کے پہلے دورِ حکومت میں ہی کئی ممالک کو اندازہ ہو گیا تھا کہ امریکی منڈی پر ضرورت سے زیادہ انحصار خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، اس لیے انہوں نے اپنی تجارتی حکمت عملی کو متنوع بنانا شروع کر دیا تھا۔ مگر ہندوستان کی نریندر مودی حکومت اس معاملے میں غافل رہی۔ انہیں یقین تھا کہ وہ اس کاروباری صدر کو اپنے سحر میں جکڑ چکے ہیں۔
مودی اور ہندوستانی خارجہ پالیسی کے ماہرین نے ٹرمپ کی شخصیت کو غلط سمجھا اور یہ نہیں جان پائے کہ ٹرمپ صرف اپنے فائدے کے بارے میں سوچتے ہیں، وہ کسی کے مستقل دوست نہیں۔ جیسا کہ انہوں نے 15 جولائی 2025 کو بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا، ’میں کسی پر یقین نہیں کرتا۔‘ حیرت کی بات نہیں کہ اب ہندوستان امریکی ٹیکس پالیسی کا نشانہ بنتا جا رہا ہے اور امریکہ کو ہندوستانی برآمدات پر زیادہ محصولات عائد ہونا طے سا ہو چکا ہے۔
ٹرمپ کی طرف سے 9 جولائی تک تجارتی معاہدہ طے کرنے کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی تھی، جس تک پہنچنے کی پوری کوشش ہندوستان نے کی لیکن ناکام رہا۔ اس سے پہلے فروری 2025 میں مودی کے دورہ واشنگٹن سے قبل ہندوستان نے کئی مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹی کم کرنے کا اعلان کیا تھا، جیسا کہ موٹرسائیکلوں پر لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔
اگر ہندوستان ٹرمپ کی تمام شرائط مان لیتا تو زرعی اور ڈیری سیکٹر کو ایسا نقصان ہوتا جس کی تلافی ممکن نہ ہوتی۔ آٹو انڈسٹری بھی متاثر ہوتی۔ اب حکومت جلد بازی میں ابتدائی معاہدے کی طرف بڑھ رہی ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ ہے کہ طویل مدتی مفاہمت پس منظر میں چلی گئی ہے۔
ٹرمپ نے حال ہی میں کہا، ’ہمیں ہندوستان میں داخلہ ملے گا۔‘ انہوں نے انڈونیشیا کے صدر پرابوو سوبیانتو کی تعریف کرتے ہوئے کہا، ’مجھے لگتا ہے ہندوستان کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوگا...‘ یاد رہے، پرابوو نے امریکی تجارت کے لیے اپنے ملک کے دروازے کھول دیے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان ٹرمپ کے انتقامی فیصلوں سے بچ پائے گا؟ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ برکس ممالک پر 50 فیصد اور روس سے تیل یا گیس لینے والے ممالک پر 100 فیصد ٹیرف لگائیں گے۔ ہندوستان دونوں زمرے میں آتا ہے۔ ٹرمپ کے دور میں امریکی صدر کا فیصلہ ہی حرفِ آخر ہوتا ہے لیکن ان کی غیر مستقل مزاجی کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ان کا آخری فیصلہ کیا ہوگا۔
تاہم امید یہی کی جا سکتی ہے کہ ان کے فیصلے امریکہ کی داخلی معیشت کو مزید نقصان پہنچانے سے پہلے روک دیے جائیں گے، کیونکہ اگر درآمدات میں رکاوٹ آئی تو مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور امریکی عوام اس کو زیادہ دیر برداشت نہیں کر پائیں گے۔ جون میں امریکہ کا کنزیومر پرائس انڈیکس 2.7 فیصد بڑھا، جبکہ گزشتہ سال مئی میں یہ 2.4 فیصد تھا۔ ’پولیٹیکو‘ کے مطابق تجارتی غیر یقینی صورتحال نے امریکہ کی معیشت پر منفی اثر ڈالنا شروع کر دیا ہے۔
مودی نے ایک آزاد، کثیر قطبی اتحاد بنانے کی بجائے واشنگٹن کے ساتھ خاموش مفاہمت کو ترجیح دی، جو اب ہندوستان پر الٹا پڑ رہا ہے۔ کبھی ہندوستان کا قابلِ اعتماد دوست رہا روس اب صرف کاروباری مفادات دیکھتا ہے۔ اس نے چین کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کر لیے ہیں اور حتیٰ کہ پاکستان سے بھی روابط بنائے ہیں۔
چین پر انحصار: ہندوستان کی مجبوری؟
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق جون میں ہندوستان کی برآمدات سات ماہ کی کم ترین سطح پر پہنچ گئیں اور تجارتی خسارہ 18.78 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ تجارتی سکریٹری سنیل برتھوال نے اس کی وجہ تیل کی قیمتوں میں کمی کو بتایا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان کی برآمدی معیشت کا انحصار صرف ریفائن کیے گئے تیل پر ہے؟ تو پھر آئی ٹی، دوا سازی، آٹو اور مشینری کہاں گئیں؟
موجودہ مالی سال میں چین کے ساتھ ہندوستان کا تجارتی خسارہ 100 ارب ڈالر سے تجاوز کرے گا اور اس کے باوجود کار سازی، گھریلو آلات، صاف توانائی اور کھاد کے لیے ضروری قیمتی معدنیات کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اس طرح ہندوستان ایک دشمن ملک کے سامنے اقتصادی طور پر جھک گیا ہے، جو خارجہ پالیسی کی بےبسی کا نیا ریکارڈ ہے۔
جون 2020 سے چین مشرقی لداخ کے کم از کم 2,000 مربع کلومیٹر پر قابض ہے، جو ماضی میں ہندوستان کا علاقہ سمجھا جاتا تھا۔ 2024 کے آخر میں، دونوں ممالک نے بغیر کسی ٹھوس پیش رفت کے سرحدی تنازع کو سرد خانے میں ڈال دیا۔ امریکہ کی طرف جھکاؤ کے باوجود ہندوستان کو چین کے خلاف کوئی خاص امریکی حمایت نہیں ملی۔
چین اب اروناچل پردیش پر بھی زیادہ جارحانہ دعوے کر رہا ہے، جسے وہ جنوبی تبت کہتا ہے۔ دالائی لاما، جو 1959 سے ہندوستان میں مقیم ہیں، کے خلاف بھی چین کا رویہ سخت تر ہوتا جا رہا ہے اور ہندوستان کی نرم پالیسی چین کو مزید جارحیت کی ترغیب دے رہی ہے۔
ہندوستانی فوج کے ڈپٹی چیف کے مطابق چین پاکستان کی دفاعی ضروریات کا 81 فیصد پورا کر رہا ہے۔ اور مئی میں پاکستان کے ساتھ محدود جنگ کے دوران ہندوستان کو دو اور شاید تین محاذوں (ترکی سمیت) پر نمٹنا پڑا۔ مگر وہ شاید بھول گئے کہ ہندوستان دنیا میں سب سے زیادہ فوجی ساز و سامان خریدنے والا ملک ہے اور ہندوستانی فضائیہ کے جنگی طیارے زیادہ تر روس یا فرانس کے بنے ہوئے ہیں یا پھر لائسنس کے تحت ہندوستان میں۔
صورتحال اس حد تک نازک ہو چکی ہے کہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس سے پہلے بیجنگ جا پہنچے تاکہ چینی قیادت سے دوطرفہ بات چیت کی جا سکے۔ جارحانہ موقف اپنانے کی بجائے ہندوستان گھٹنے ٹیک چکا ہے، ایک ایسے ملک کے سامنے جو ہندوستان کی سلامتی اور خودمختاری کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
ہندوستانی وزارت خارجہ کے مطابق، جے شنکر نے چینی وزیر خارجہ وانگ یی سے ملاقات میں سرحد پر امن و استحکام کی بحالی، آبی اعداد و شمار کی فراہمی اور چین کی طرف سے قیمتی معدنیات کی برآمدات پر عائد پابندیوں جیسے معاملات اٹھائے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ امریکہ سے ہندوستان کی درآمدات بڑھ رہی ہیں، مگر چین کو برآمدات کا کوئی خاص امکان نہیں۔ اس سے بھی بدتر یہ ہے کہ ٹرمپ کے تجارتی دباؤ میں بیجنگ ہندوستان پر اپنا سامان تھوپنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ڈوکلام اور لداخ کے باوجود مودی حکومت چین کے سامنے جھک گئی ہے۔
غزہ پر ہندوستان کا رویہ: خاموشی کیوں؟
15 اور 16 جولائی کو جنوبی افریقہ اور کولمبیا کی قیادت میں قائم ترقی پذیر ممالک کے ’دی ہیگ گروپ‘ نے بگوٹا میں اجلاس منعقد کیا تاکہ غزہ میں اسرائیلی مظالم پر قانونی و سفارتی اقدامات کے لیے عالمی حمایت حاصل کی جا سکے۔ چین، اسپین، ناروے، پرتگال، بنگلہ دیش اور پاکستان نے اس کی حمایت کی۔ مگر ہندوستان غیر حاضر رہا۔ اسرائیل کے خلاف یہ عالمی اقدام ہندوستان کی روایت سے ہم آہنگ ہوتا مگر نئی دہلی کی خاموشی ایک داغ بن گئی ہے۔
دی ہیگ گروپ کا قیام اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی فرانسیسکا البانیز کی کاوش ہے، جنہوں نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی مظالم کو بے نقاب کیا ہے۔ امریکہ نے ان پر پابندی لگا دی ہے، جیسا کہ اس نے ان بین الاقوامی ججوں کے خلاف بھی کیا جنہوں نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دینے کی بات کی تھی۔
کانفرنس میں البانیز نے کہا، ’’اسرائیل جدید تاریخ کی سب سے سنگدل نسل کشیوں میں سے ایک کا ذمہ دار ہے۔ طویل عرصے سے بین الاقوامی قوانین کو محض اختیاری سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہ قوانین صرف ان پر لاگو کیے جاتے ہیں جنہیں کمزور تصور کیا جاتا ہے، جب کہ طاقتور ان قوانین کو نظرانداز کرتے رہے ہیں۔‘‘
کولمبیا کے صدر گوستاو پیٹرو نے برطانوی اخبار ’گارڈین‘ میں لکھا، ’’عالمی جنوب کے ان اربوں افراد کے لیے، جو اپنی سلامتی کے لیے بین الاقوامی قانون پر انحصار کرتے ہیں، اس وقت داؤ اس سے زیادہ بڑا نہیں ہو سکتا۔‘‘
ہندوستان، جو کبھی ترقی پسند دنیا کا اصولی رہنما ہوا کرتا تھا، آج نہ کہیں نظر آتا ہے اور نہ ہی اس کی آواز سنائی دیتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔