اتر پردیش میں قدیم درگاہوں کے عرس کی اجازت نہ دینا ’میمنا کو شکار بنانے سے قبل بھیڑیے کی دلیل‘ جیسا

یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کے ذریعہ ’نظامِ قانون‘ کی آڑ میں ایودھیا اور اس کے پڑوسی بارابنکی ضلع میں 2 روایتی سالانہ عرس تقاریب کی اجازت نہ دینا ایک مشہور کہانی میں بھیڑیے کی ’دلیل‘ یاد دلاتا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

کرشن پرتاپ سنگھ

اتر پردیش میں بی جے پی کی یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ ’نظامِ قانون سے جڑی فکروں‘ کی آڑ میں ایودھیا اور اس کے پڑوسی بارابنکی ضلع میں 2 روایتی سالانہ عرس تقاریب میں ایک کی اجازت نہ دینا اور دوسرے کی اجازت دے کر رد کر دینا ایک مشہور کہانی کے بھیڑیے کی ’دلیل‘ یاد دلاتا ہے، جو بھیڑیے نے ایک معصوم میمنے کو اپنا شکار بنانے کا بہانہ تلاش کرتے ہوئے پیش کی تھی۔

کہانی کچھ اس طرح ہے کہ: ایک صبح پیاسا میمنا جنگل میں ندی کے نچلے بہاؤ والے ساحل پر پانی پی رہا تھا، تو دوسرے کنارے پر اپنا شکار تلاش کرتے بھوکے بھیڑیے کی نظر میں آ گیا۔ جنگل کے اصول و ضوابط کے مطابق یوں تو بھیڑیے کے لیے اپنی بھوک مٹانے کے لیے میمنوں کی جان لینا عام بات تھی، لیکن اس معاملے میں ایک تو بھیڑیا تھوڑا ’اخلاقی‘ نظر آنا چاہتا تھا، دوسرے میمنا اتنا بے بس اور معصوم تھا کہ بھیڑے کو اتنے سستے میں اس کی جان لے لینا ٹھیک نہیں لگا۔

ایسے میں فطری ہی تھا کہ اسے اپنے حق میں دلیل کی تلاش ہوتی۔ اسی تلاش میں اس نے ناراض ہوتے ہوئے میمنے کو ڈانٹتے ہوئے بولا ’تیری ہمت کیسے ہوئی کہ ندی کا میرے پینے کا پانی پی کر اسے جوٹھا کرے۔ اس کے لیے تو سخت سزا کا حقدار ہے، اور وہ سزا میں تجھے دے کر رہوں گا!‘


بے چارہ میمنا پہلے تو کانپ اٹھا، پھر اپنی صفائی میں بولا ’غصہ مت کیجیے، مہاراج! ندی کا پانی تو آپ کی طرف سے میری طرف آ رہا ہے، کیونکہ میں اس کے نچلے ساحل پر ہوں اور آپ اونچے پر۔ میں ایسے میں آپ کے پینے کا پانی جوٹھا کیسے کر سکتا ہوں۔‘

بات درست تھی، اس لیے بھیڑیے نے نئی ’دلیل‘ پیش کی۔ ’سزا کے حقدار تو تم پھر بھی ہو، کیونکہ میں نے سنا ہے کہ تم نے گزشتہ سال میرے بارے میں جھوٹ بولا اور مجھے گالیاں دی تھیں!‘

بے چارہ میمنا! وہ تو گزشتہ سال پیدا ہی نہیں ہوا تھا! اس نے یہ بات بھیڑیے کو بتائی تو اس نے کہا ’تب جس نے مجھے گالیاں دیں، وہ تیرا بھائی رہا ہوگا‘۔

اس پر میمنے کا کانپتا ہوا سا جواب تھا، ’لیکن حضور، میرا تو کوئی بھائی ہی نہیں ہے۔‘

لیکن اب تک بھیڑیے کا ’صبر‘ جواب دے چکا تھا۔ وہ غرایا ’کیا فرق پڑتا ہے اس سے! مجھے گالیاں دینے والا میمنا جو بھی رہا ہو، وہ تمھاری ہی فیملی کا تو رہا ہوگا۔‘ اور آگے بغیر کچھ کہے میمنے کو دبوچ لیا۔

بتانا یہ ہے کہ ایودھیا کے خان پور مسودھا علاقہ میں واقع دادا میاں کی درگاہ ہو (جس پر ہونے جا رہے عرس کی اجازت وی ایچ پی کے ذریعہ کی گئی ایک شکایت کے بعد رد کر دی گئی) یا بارابنکی میں پھول پور علاقے میں سید شکیل بابا کی درگاہ (جس کی عرس تقریب کی اجازت دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ کچھ ایسے تنازعات سامنے آئے ہیں، جن سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے)۔ یہ بات الگ ہے کہ ان دونوں مقامات پر عرس کے انعقاد میں بدامنی یا نظامِ قانون کا مسئلہ پیدا ہونے کی فی الحال ایک بھی پرانی نظیر نہیں ہے۔


یہ ایودھیا ہے...

ویسے بھی صوفی نظریات والے درگاہوں میں کسی بھی طرح کی مذہبی اور فرقہ وارنہ کٹر پسندی کی جگہ نہیں ہوتی، اور وہاں ’جو رب ہے، وہی رام ہے‘ کی تشہیر کی جاتی ہے۔ جہاں تک ایودھیا کی بات ہے، اس کے مزاج میں بھی کٹر پسندی نہیں ہے۔ ایودھیا میں کئی پرانی قبروں و مزاروں پر لگے پتھر پڑھیں، تو پتہ چلتا ہے کہ کوئی ایران سے آ کر یہاں کی مٹی کا ہو کر رہ گیا، تو کوئی کہیں اور سے آ کر اپنا صوفیانہ رنگ دیتے دیتے اسی کے رنگ میں رنگ گیا۔

اڑگڑا سورگ دوار میں جن ابراہیم شاہ کا مزار ہے، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایران سے بادشاہت چھوڑ کر ایودھیا آئے اور فقیری کو اختیار کر لیا۔ اور ایسے بادشاہ بھی وہ تنہا نہیں ہیں۔ شاہ مدار شاہ بھی ہیں، کھجنتی شاہ بھی، شاہ سمن فریاد رتھ اور شاہ فتح اللہ شاہ بھی۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ ان شاہوں کو کبھی ایودھیا سے کوئی مسئلہ ہوا، نہ ایودھیا کو ان سے۔ کسی بھی نگاہ میں وہ حملہ آور یا ویلن نہیں رہے۔ اسلام کے پاکیزہ مقامات میں سے ایک شیش پیغمبر ایودھیا کے مشہور منی پہاڑ (جہاں سے ساون کا جھولنوتسو شروع ہوتا ہے) کے بالکل پاس واقع ہے اور کوتوالی کے بغل واقع نوگجی قبر اپنے سائز کو لے کر کشش کا مرکز بنی رہتی ہے۔ کئی لوگ ایودھیا کو ’پیغمبروں کی نگری‘ یا ’خرد مکہ‘ بھی کہتے ہیں۔ ایسے میں ’سماجوادی وِچار منچ‘ کے ریاستی کنوینر اشوک شریواستو کی مانیں تو ایودھیا کا مسئلہ صرف فرقہ پرست انتظامیہ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایودھیا میں انتظامیہ کی بالواسطہ و بلاواسطہ دونوں فرقہ واریتیں جب بھی موقع پاتی ہیں، گل کھلانے سے باز نہیں آتیں۔ ان دنوں تو خیر ان کی من چاہی حکومت ہے، جس میں انھیں کھلے کھیل کی چھوٹ ملی ہوئی ہے، لیکن بی جے پی سے پہلے کی حکومتوں کے دور میں بھی فرقہ پرست انتظامیہ نے کچھ کم کارنامے نہیں کیے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ایودھیا میں حکومت جس کی بھی رہے، انتظامیہ ہمیشہ آر ایس ایس کنبہ کے اداروں، خصوصاً وی ایچ پی کا ہی رہتا آیا ہے۔


بلاشبہ جن دونوں عرس کا ذکر کیا گیا ہے، ان کی اجازت سے جڑے فیصلوں کے وقت یوگی حکومت اور اس کی ضلع انتظامیہ ان باتوں سے لاعلم نہیں رہے ہوں گے۔ وی ایچ پی بھی نہیں، جس نے اس مضبوط امید میں دادا میاں کی درگاہ کے عرس کو لے کر شکایت کی کہ اس کی خیر خواہ حکومت اس کی بات ٹال ہی نہیں سکتی۔ اس شکایت میں اس نے الزام عائد کیا کہ دادا میاں کا عرس ’غازی میاں‘ (سید سالار مسعود غازی، بہرائچ میں صدیوں سے لگتے آ رہے جن کے جیٹھ میلے کو اس بار ریاستی حکومت نے نہیں لگنے دیا) کے نام پر منعقد کیا جا رہا تھا۔ ’اپنوں‘ کی طرف سے کی گئی اس شکایت کو ریاستی حکومت کو آگے بڑھ کر لپکنا ہی تھا، کیونکہ اس سے پہلے وہ ’حملہ آور، لٹیرے اور قاتل‘ غازی میاں کو ویلن قرار دے کر ان کی یاد میں لگنے والے نیزہ میلہ (سنبھل) اور بہرائچ میں ان کی درگاہ کے تاریخی جیٹھ میلے پر روک لگا چکی تھی۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس روک کو لے کر اپنی گزارشات کے خلاف کچھ بھی سننا نہیں چاہتی۔ یہ بھی نہیں کہ سماج اور تاریخ کا بہاؤ ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے اور تاریخ کی اقتدار پر مبنی جنگوں کو مذہبی یا فرقہ وارانہ رنگ دے کر ان کا بدلہ حال سے لینے کی کوششیں کہیں نہیں پہنچاتیں۔ ایسے میں کیا پتہ کہ اسے اس بات کا علم بھی ہے یا نہیں کہ مذکورہ میلہ پر روک کا حکم دینے والی وہ کوئی پہلی حکومت نہیں ہے۔

جب سکندر لودی نے میلہ روکنا چاہا...

سولہویں صدی میں دہلی کے سلطان سکندر لودی (1517-1489) نے یہ میلہ روکنے کی کوشش کی تو اس کی ’دلیل‘ بالکل دوسری تھی، یوگی حکومت کی دلیلوں سے بالکل ہی برعکس۔ یونیورسٹی آف شکاگو پریس سے 2015 میں شائع ’کنکویسٹ اینڈ کمیونٹی: آفٹر لائف آف واریر سینٹ غازی میاں‘ عنوان اپنی تحقیقی کتاب میں مشہور سبارلٹن مورخ شاہد امین نے لکھا ہے کہ اس وقت کے کٹر پسند اشراف مسلموں کی طرح سکندر لودی کا بھی ماننا تھا کہ یہ میلہ غیر اسلامی ہے اور ہندوؤں کے ایک حصے سے مل کر اسلام کے ذیلی طبقات و ذاتوں سے آئے مریدوں کو ورغلا کر کے راستہ سے ہٹانے اور ’غیر مہذب‘ بنانے کے لیے لگایا جاتا ہے۔ لیکن، امین نے لکھا ہے کہ سکندر لودی اس میلے کو روکنے کے اپنے ارادے میں کامیاب نہیں ہو پایا تھا، کیونکہ آگرہ، بنارس اور نیپال تک پھیلے غازی میاں کے مریدوں کو روکنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوا تھا۔


دراصل ان دنوں پنجاب و بہار کے درمیان شمالی ہندوستان کے بڑے علاقہ میں غازی میاں کا اثر تھا، جہاں سے ان کے مرید ہر سال ان کے ’نشان‘ (پرچم) کو اونچا اٹھائے اس میلے میں آتے تھے۔ اتنا ہی نہیں، ان کے ہندو-مسلم مریدوں کے کئی ’گوئی‘ گروپ نشان اونچا اٹھائے ان کی تعریف میں گاتے رہتے تھے۔ غازی میاں کے ’چرت گایک‘ صوفی عبدالرحمن نے بھی اپنی ایک کتاب میں اس کا تذکرہ کیا ہے کہ اسلام کے کچھ تشریح کرنے والے اس کے مذہبی گروپ (غازی میاں) کو لے کر کس قدر بے چین ہیں۔

اکبر کے دور میں...

بعد میں مغلوں کا دور آیا تو ایک سال بادشاہ اکبر (1605-1556) اپنی راجدھانی اکبر آباد (آگرہ) کے پاس جیٹھ کی لو اور تپش کے درمیان رنگ برنگے نشان لیے بہرائچ جاتے عقیدتمندوں کے دلکش جماؤڑے کو اس کے بیچ جا کر دیکھنے کی لالچ روک نہیں پائے تھے۔ وہ شکل بدل کر اس میں شامل ہو گئے اور دیر تک اس کی وہ نفسیات پڑھتے رہے تھے، جس کے تحت وہ جمنا، گنگا اور گھاگھرا جیسی 3 ندیوں کو پار کر غازی میاں کے در بہرائچ پہنچنے کو لے کر پُرجوش تھا۔


ابوالفضل نے ’اکبر نامہ‘ میں لکھا ہے کہ اس جماؤڑے میں ہندوستان کی روایت کے کئی اچھے برے رنگ دیکھ کر وہ محو سے ہو گئے تھے۔ ایک بار جب ایک شخص کے استقبال سے لگا کہ وہ پہچان لیے جائیں گے، تو انھوں نے اپنی آنکھیں بھینگی کر لی تھیں اور فوراً واپس لوٹ پڑے تھے۔ بعد میں انھوں نے غازی میاں کی درگاہ کے لیے زمین بھی دی تھی، جسے اودھ کے نواب شجاع الدولہ نے ’ری انفورس‘ کیا تھا۔ ان کے بیٹے آصف الدولہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہر سال غازی میاں کے در پر حاضری دیتے تھے۔

آخر میں ایک اور پہلو کا ذکر۔ ایسا کبھی نہیں تھا کہ غازی میاں سب کے روحانی پیشوا یا سب کے لیے غیر ملکی حملہ آور ہی رہے ہوں۔ البتہ، ان کے ناقدین بھی ان کی مذمت کی حد تک جانے سے پرہیز کرتے رہے ہیں۔

ڈفالی سے پوچھیے...

مشہور شاعر اکبر الٰہ آبادی تو یہاں تک لکھ گئے ہیں:

سید کی سرگزشت کو حالی سے پوچھیے

غازی میاں کا حال ڈفالی سے پوچھیے

(اپنے وقت کے مشہور ماہر تعلیم سر سید کی زندگی کے تجربات جاننے ہوں تو ان کی سوانح تحریر کرنے والے حالی سے پوچھیے، اور غازی میاں کی بابت جاننا ہو تو ان کی نظمیہ تعریف کرنے والے ڈفالی سے پوچھیے۔)


ڈفالی یعنی ڈفلی بجا بجا کر غازی میاں کی داستان سنانے والے، جو ڈفلی بجانے کے سبب ہی ڈفالی کہلانے لگے۔ دوسری طرف اودھ میں ایک کہاوت ہے کہ:

مزہ ماریں غازی میاں،

دھکا سہیں مجاور

یہاں جان لینا چاہیے کہ درگاہ کا چڑھاوا لینے والے فقیر کو مجاور کہتے ہیں۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔ بشکریہ ’دی وائر‘ ہندی)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔