دہلی کے 2 حکمراں، جنھوں نے عوام ہی نہیں اَپنوں کو بھی دیا دھوکہ

دہلی میں اقتدار پر 2 ایسے لیڈروں کا قبضہ ہے جوگنجوں کو بھی کنگھا بیچنے کا فن معلوم ہے۔لیکن ان دونوں میں ایک اور یکسانیت ہے، وہ یہ کہ ان دونوں کا ایسا کوئی قریبی نہیں جنھیں ان حکمرانوں نے دھوکہ نہ دیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

دہلی میں ملک کا اقتدار سنبھالنے والے وزیر اعظم نریندر مودی اور دہلی حکومت کی کمان سنبھالنے والے اروندر کیجریوال کے بارے میں یہ بات عام ہے کہ دونوں ہی عوام کو خوش فہمی میں مبتلا کرنے والے طریقے اپنا کر انھیں بے وقوف بناتے ہیں۔ دونوں ہی اپنے آپ میں مگن رہتے ہیں۔

ابھی ایک دن پہلے ہی دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے اپنی پارٹی کا انتخابی منشور جاری کیا۔ اس منشور میں کیے گئے وعدوں کی بات سے پہلے اس کے صفحہ اول کی بات کریں گے۔ اس کے صفحہ اول پر کیجریوال کی بڑی سی تصویر ہے اور لکھا ہے ’لے کر رہیں گے مکمل ریاست‘۔ یعنی طے ہے کہ انتخابی منشور دہلی کے لیے ہے اور پارٹی باقی ملک کے لیے کوئی منشور نہیں لانے والی۔


عآپ کا منشور دیکھ کر اچانک ہی گزشتہ دنوں جاری بی جے پی کا منشور یاد آ جاتا ہے۔ بی جے پی کے انتخابی منشور کے صفحہ اول پر بھی وزیر اعظم نریندر مودی کی بڑی سی تصویر لگی تھی۔ اس سے ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ دونوں پارٹیوں میں لیڈر کا قد پارٹی اور اہم ایشوز سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔

ایک اور یکسانیت دونوں میں ہے، وہ یہ کہ دونوں چیزوں کو اپنے تک ہی محدود رکھنا چاہتے ہیں اور کسی کے ساتھ کچھ بھی شیئر نہیں کرنا چاہتے۔ یاد کیجیے 2014 میں جب نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا تھا تو بی جے پی کا نعرہ تھا ’اب کی بار، مودی سرکار‘۔ اسی طرح جب 2015 میں دہلی اسمبلی انتخاب ہوا تو نعرہ تھا ’پانچ سال کیجریوال‘۔ ان دونوں ہی نعروں میں پارٹی نہیں، شخص کا نام ہے۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی اور کیجریوال دونوں ہی بے حد عام آدمی کی شبیہ لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ مودی خود کو ایک غریب چائے والا بتاتے ہیں تو آئی آر ایس کیجریوال نے تو اپنی پارٹی کا نام ہی عام آدمی پارٹی رکھ دیا۔ دونوں کو عوامی جذبات کا فائدہ اٹھانے کا فن خوب آتا ہے۔ نصف بازو کی باہر نکلی قمیض اور پیروں میں سینڈل پہنے کیجریوال کا مشہور ڈائیلاگ ایک ہی تھا ’’سب ملے ہوئے ہیں جی...‘‘۔ اور اس نعرے نے لوگوں پر جادو سا کیا۔

مودی نے نعرہ دیا تھا ’نہ کھاؤں گا، نہ کھانے دوں گا‘ تو کیجریوال کا اعلان تھا کہ ’وی آئی پی کلچر ختم کرنا ہے‘۔ مودی کے نعرے کی حقیقت بھی سامنے آ گئی اور وی آئی پی سہولیات کو خیر باد کہنے کا ڈھکوسلہ کرنے والے کیجریوال بھی ایک ایسے بنگلے میں رہتے ہیں جو اپنے پہلے ٹرم میں دہلی کی وزیر اعلیٰ شیلا دیکشت کو ملے بنگلے سے بھی بڑا ہے۔


لیکن سب سے بڑی خوبی جو دونوں کو ایک ہی پائیدان پر کھڑا کرتی ہے، وہ اپنوں کو دھوکہ دینا ہے۔ جن کی انگلی پکڑ کر یا کندھوں پر چڑھ کر ان دونوں نے آگے بڑھنا سیکھا، انھیں ہی دونوں نے ٹھکانے لگا دیا۔ مودی کو سیاسی زندگی میں کئی چمکانے والے اور پی ایم عہدہ تک کے سفر کو سنوارنے و تراشنے والا اگر کوئی شخص ہے تو اس کا نام ہے لال کرشن اڈوانی۔ مودی تو اڈوانی کے اس ’رتھ کے سارتھی‘ رہے جس کے ذریعہ بی جے پی اور خود مودی اقتدار کی کرسی تک پہنچے۔ گودھرا اور گجرات فسادات میں اگر کوئی مودی اور اٹل بہاری واجپئی کے درمیان ڈھال بن کر کھڑا ہوا تھا تو وہ تھے اڈوانی۔ لیکن اقتدار پر قابض ہوتے ہی مودی نے اڈوانی کے ساتھ جو کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ پہلے انھیں ’مارگ درشک منڈل‘ میں بھیجنے سے لے کر لوک سبھا الیکشن کا ٹکٹ تک نہ دینا واضح کرتا ہے کہ کس طرح مودی نے ان کی بے عزتی کی۔

کیجریوال کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ کیجریوال نے اپنے سیاسی کیریر کی شروعات انا ہزارے کی عوامی تحریک کی بیساکھی پکڑ کر کی۔ سب سے پہلے کیجریوال نے انھیں ہی پرایا بنا دیا۔ اس کے بعد پہلے دن سے ان کے ساتھ جڑے رہے پرشانت بھوشن، یوگیندر یادو کے ساتھ ہی باقی کئی اہم لوگوں کو بھی کیجریوال نے کنارے لگا دیا۔ کمار وشواش اور آشوتوش جیسے ساتھیوں کو تو پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔


دونوں لیڈروں کی ایک اور خوبی ہے کہ دونوں ایک یا دو پورٹ فولیو سے خوش ہونے والے نہیں ہیں بلکہ پوری کی پوری سرکاری مشینری پر کنٹرول رکھنے میں یقین کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دونوں اپنے وزراء اور کابینہ کے ساتھیوں پر بھروسہ نہیں کرتے۔ سب کو معلوم ہے کہ دونوں ہی اپنے وزیروں پر کس طرح نظر رکھتے ہیں اور کس طرح دونوں کے وزیر ربر اسٹامپ سے زیادہ کچھ نہیں۔

افسرشاہی پر بھی دونوں ہی قبضہ چاہتے ہیں، اور پسندیدہ افسروں کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک ورما کو چننے اور پھر ہٹانے میں مودی کی مداخلت پوری دنیا جانتی ہے۔ اسی طرح کیجریوال بھی چیف سکریٹری کے لیے جس طرح بضد تھے، اس وجہ سے تو ایسا وقت بھی آیا کہ دہلی کی پوری افسرشاہی بغاوت پر اتر آئی تھی۔


دونوں کی ہی شخصیت کچھ ایسی ہے جو نااتفاقی کی آوازیں برداشت نہیں کرتی۔ مودی اگر رگھو رام راجن اور ارجت پٹیل کو برداشت نہیں کر پائے تو کیجریوال بھی کئی افسروں سے ناراضگی اور دہلی کے دو لیفٹیننٹ گورنروں نجیب جنگ اور انل بیجل سے ٹکراؤ بھی کافی مشہور ہوا۔

دونوں ہی لیڈروں کی تقریر کی بھی خوب تعریف ہوتی ہے۔ الفاظ سے کھیلنا دونوں کو آتا ہے، اور اسی لفظوں کے جال میں حقیقت کو توڑنا مروڑنا اورجھوٹے وعدے کرنا بھی۔ 2014 میں نریندر مودی نے وعدہ کیا کہ کالا دھن آ گیا تو سب کو 15 لاکھ روپے ملیں گے، ہر سال دو کروڑ ملازمتیں ملیں گی، کسانوں کی آمدنی دوگنی ہو جائے گی۔ کیجریوال نے وعدہ کیا لوک پال آئے گا، مفت وائی فائی ملے گی، سی سی ٹی وی لگیں گے اور خاتون مارشل تعینات ہوں گے۔ لوک پال کے لیے تو 2013 میں کیجریوال نے حکومت کی قربانی تک دے دی تھی۔


لیکن لفظوں کے جال میں ڈوبے جملوں کی حقیقت سب کے سامنے ہے۔ دونوں اپنی مارکیٹنگ کرتے ہیں اور جوکھم اٹھانے سے بھی نہیں جھجکتے۔ مودی نے 2016 میں نوٹ بندی کا جوکھم اٹھایا، تو کیجریوال نے حکومت ہی چھوڑ دی تھی۔


دونوں ہی لیڈر انا تحریک سے پیدا ہوئی اقتدار مخالف لہر پر سوار ہو کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مودی اسٹریٹ اسمارٹ ہیں، جو دوسروں کے لفظوں کو اپنا بنا کر توڑتے مروڑتے ہیں، اور اپنی اصلی شبیہ کے برعکس مہنگے برانڈیڈ کپڑے پہنتے ہیں۔ اسی طرح آئی آئی ٹی سے پڑھے ائی آر ایس افسر رہے کیجریوال حقیقت کے برعکس بالکل عام اور غریب آدمی کی طرح دکھاوا کرتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Apr 2019, 10:14 AM