کلاؤڈ سیڈنگ فیل: وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں...سہیل انجم
آلودگی پر قابو پانے کے لیے انسانوں نے کئی طریقے اپنائے ہیں، انہی میں ایک مصنوعی بارش بھی ہے۔ دہلی کی بی جے پی حکومت نے اس مقصد سے ’کلاؤڈ سیڈنگ‘ کرائی مگر تجربہ ناکام رہا اور بارش نہ ہو سکی

قدرت نے اس کارخانہ عالم کو چلانے کے لیے ایک نظام بنایا ہے۔ انسانی آبادی کے ذریعے اپنی ضرورتوں اور مفادات کے پیش نظر اس نظام سے چھیڑ چھاڑ کا تباہ کن نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ لیکن قدرت نے بنی نوع انسان کو ایک ایسا دماغ دیا ہے جس کا اگر وہ مثبت استعمال کرے تو اس سے انسانیت کی بھلائی ہوتی ہے لیکن اگر منفی استعمال کرے تو اس کے نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں۔ دماغ کے مثبت استعمال سے قدرتی نظام میں تبدیلی سے پیدا ہونے والے نامساعد حالات سے کامیابی کے ساتھ نمٹا بھی جا سکتا ہے۔ قدرت کے نظام میں موسموں کا بڑا عمل دخل ہے۔ اس نے سردی، گرمی اور برسات کے موسم بنائے ہیں۔ لیکن حالیہ کچھ عشروں سے موسم میں ناقابل یقین حد تک تبدیلی رونما ہونے لگی ہے۔ موسم آگے پیچھے ہو رہا ہے اور اس کے روایتی اوقات تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔
دنیا میں تیزی سے بڑھتی آبادی، انسانی ضرورتوں کے پیش نظر آمد و رفت کے لیے گاڑیوں کی ایجاد اور ان میں استعمال ہونے والے ایندھن سے بھی موسم متاثر ہو رہا ہے۔ سب سے واضح تبدیلی بارشوں کے اپنے وقت پر نہ ہونے اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں سے پیدا ہونے والی کثافت یا آلودگی کی شکل میں نظر آتی ہے۔ فضائی آلودگی کے صحت پر بہت مضر اثرات پڑتے ہیں اور شیر خوار بچوں سے لے کر معمر افراد تک میں مختلف قسم کے امراض جنم لینے لگتے ہیں۔ آلودگی کے خاتمے کے لیے انسانوں نے جہاں بہت سے طریقے اختیار کیے ہیں وہیں ایک طریقہ مصنوعی بارش کا بھی ہے۔ بارش ہونے سے آلودگی ختم یا کم ہو جاتی ہے جس کا صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔
ہندوستان کا دارالحکومت دہلی آلودگی کے نقطہ نظر سے سب سے خراب شہر ہے۔ اس کی بڑی وجہ گاڑیوں کی بہت زیادہ تعداد اور ان سے خارج ہونے والی زہریلی گیس ہے۔ حالانکہ اسی ملک میں کئی شہر ایسے بھی ہیں جہاں کی آبادی کم نہیں ہے لیکن وہاں آلودگی نہیں ہے۔ یا پھر آپ دیہی علاقوں میں چلے جائیں تو وہاں بھی آب و ہوا صاف ملے گی۔ دہلی میں سردیوں کی آمد پر آلودگی میں خاصا اضافہ ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر ہمسایہ ریاستوں ہریانہ اور پنجاب میں فصلوں کی باقیات نذر آتش کرنے سے دہلی کی طرف آنے والے دھوئیں اور دیوالی کے موقع پر پٹاخے پھوڑنا آلودگی میں اضافے کے بڑے اسباب ہیں۔ دہلی میں گزشتہ کئی برسوں سے پٹاخوں پر پابندی عاید تھی جسے سیاسی ایشو بنایا جاتا رہا ہے۔ امسال حکومت نے اس پابندی کو ہٹانے کی کوشش کی اور عدالت کا رخ کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے اس پابندی کو تو نہیں ہٹایا البتہ اس نے گرین پٹاخوں کی اجازت دے دی۔ لیکن ثابت ہوا کہ گرین پٹاخوں نے بھی اسی طرح آب و ہوا کو خراب کیا جیسے دوسرے پٹاخے کرتے ہیں۔ لہٰذا امسال دیوالی کے بعد دہلی میں آلودگی اس قدر بڑھ گئی کہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی والا شہر بن گیا۔
سابقہ حکومتوں کی جانب سے بھی آلودگی پر قابو پانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور موجودہ حکومت بھی کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم قدم ’کلاوڈ سیڈنگ‘ یا مصنوعی بارش ہے۔ عام آدمی پارٹی کی سابقہ حکومت نے مصنوعی بارش کا منصوبہ بنایا تھا لیکن اس پر عمل نہیں ہوا۔ موجودہ بی جے پی حکومت نے بھی منصوبہ بنایا اور اس نے مصنوعی بارش کرانے کی کوشش کی جو کہ ناکام ثابت ہوئی اور بارش نہیں ہوئی۔ اس کام میں آئی آئی ٹی کانپور اور دہلی حکومت کی کوششیں شامل رہی ہیں۔
کلاوڈ سیڈنگ ایک مہنگا تجربہ ہے۔ دہلی حکومت نے اسی سال جولائی میں اس کا پلان بنایا تھا جس پر تین کروڑ 21 لاکھ روپے کے اخراجات کا تخمینہ تھا لیکن یہ تجربہ اکتوبر کے اواخر میں کیا گیا۔ آئی آئی ٹی کے ایک بیان میں کہا گیا کہ اگر چہ بارش نہیں ہوئی لیکن آلودگی میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے۔ جبکہ آئی آئی ٹی کے ڈائرکٹر منندر اگروال کا کہنا ہے کہ اس سے دہلی میں آلودگی کی سطح کو زیادہ دنوں تک ٹھیک نہیں رکھا جا سکتا۔
کلاوڈ سیڈنگ ایک ایسی تکنیک ہے جس کے ذریعے طیارے اڑا کر فضا میں موجود رطوبت میں سلور آیوڈائڈ، پوٹیشیم آیوڈائڈ اور راک سالٹ کے اجزا کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔ اس سے بادلوں میں باریک قطرے یا برف کے باریک اجزا بنتے ہیں۔ جب ان کا وزن زیادہ ہو جاتا ہے تو وہ بارش کی شکل میں نیچے گرنے لگتے ہیں، وہی مصنوعی بارش ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سے فضا میں بادل موجود ہوں اور ان بادلوں میں ضروری رطوبت بھی ہو۔ دہلی میں جو تجربہ کیا گیا وہ اس لیے ناکام ہو گیا کہ بادلوں میں رطوبت کی کمی تھی۔ یہ تجربہ خشک موسم میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس تکنیک سے تین سے پانچ فیصد تک اور بعض اوقات دس سے پندرہ فیصد تک بارش ہو سکتی ہے۔
دہلی میں سب سے پہلے 1957 میں اور اس کے بعد 1972 میں یہ تجربہ کیا گیا تھا۔ اس بار دہلی میں جو تجربہ کیا گیا وہ بالکل دیسی یا گھریلو تکنیک تھی۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی بارش سے آلودگی میں خاطر خواہ کمی کا کوئی معتبر ثبوت نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ قدرتی نظام میں تبدیلی چاہ رہے ہیں۔ لہٰذا اس کے جو بھی مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ محدود ہوتے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی یہ تجربہ کیا گیا ہے۔ چین کا دعویٰ ہے کہ اس نے بیجنگ اولمپک سے قبل بارش کو منظم کرنے کے لیے کامیاب تجربہ کیا تھا۔ اس کے لیے اس نے راکٹ، کینن اور ڈرونز کا استعمال کیا تھا لیکن گزشتہ سال دبئی میں سیلاب آنے کی وجہ سے متحدہ عرب امارات نے اس تکنیک پر سوال اٹھایا ہے، حالانکہ اس نے بھی کلاوڈ سیڈنگ کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔
رپورٹوں کے مطابق متحدہ عرب امارات مصنوعی بارش کے سلسلے میں سب سے زیادہ سرگرم ملک ہے۔ وہ موسم کو منظم کرنے اور خشک سالی سے نمٹنے کے لیے سالانہ سیکڑوں سیڈنگ فلائٹ کرتا ہے۔ جبکہ چین اس معاملے میں پوری دنیا سے آگے ہے۔ اس کا مصنوعی بارش کا پروگرام سب سے بڑا ہے۔ وہ اس تکنیک کی مدد سے بارش میں اضافہ کرتا ہے۔ اس نے 1950 ہی میں اس کا آغاز کر دیا تھا۔ اس کے بعد وہ سال در سال اس کو وسعت دے رہا ہے۔ وہ مختلف شہروں میں اس کا کامیاب تجربہ کر چکا ہے۔ اس نے 2008 میں بیجنگ اولمپک کے موقع پر آلودگی پر قابو پانے کے لیے اس کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔
امریکہ دہائیوں سے اس تکنیک کا استعمال کر رہا ہے۔ اس کا مقصد برفباری اور بارش میں اضافہ اور خشک سالی کی صورت حال سے نمٹنا ہے۔ اس نے کئی ریاستوں اور پہاڑی خطوں میں اس تکنیک سے بارش کی ہے۔ سعودی عرب، اسرائیل، انڈونیشیا، آسٹریلیا اور متعدد یوروپی ملکوں سمیت پچاس سے زائد ممالک اس تکنیک کی مدد سے مصنوعی بارش کا تجربہ کر چکے ہیں۔ جن میں سے کچھ ملک کامیاب ہوئے ہیں اور کچھ ناکام۔
لیکن بہرحال یہ کوشش قدرتی نظام میں آنے والی تبدیلی سے نبردآزما ہونا ہے اور انسان قدرت سے نہ کبھی لڑ سکا ہے او رنہ لڑ سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پچاس سے زائد ملکوں نے یہ تجربہ کیا لیکن وہ بات پیدا نہ ہو سکی جو قدرتی نظام میں ہے۔ لہٰذا بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے بہتر ہے کہ وہ اس نظام سے چھیڑ چھاڑ نہ کرے اور اپنی حرکتوں سے موسم میں تبدیلی کا باعث نہ بنے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔