دہلی کی اقلیتوں کو ڈر اور جذبات سے اوپر اٹھ کر ووٹ دینا چاہئے
دہلی کی اقلیتی طبقے کو بی جے پی کے خوف اور جذبات سے اوپر اٹھ کر دانشمندی سے فیصلہ کرنا چاہئے۔ کانگریس ہی ان کے لئے ایک مضبوط متبادل ہے، جو دلتوں اور اقلیتوں کو سر اٹھا کر جینے کا موقع دیتی ہے

دہلی میں ووٹنگ کی فائل تصویر / Getty Images
دہلی میں انتخابی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ امیدوار لوگوں کے گھر گھر جا کر ان کو منانے اور سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ادھر انتخابی دوڑ میں تینوں سیاسی پارٹیاں یعنی عام آدمی پارٹی، بی جے پی اور کانگریس رائے دہندگان کو راغب کرنے کے لئے نئے نئے اعلانات کر رہی ہیں۔ عام آدمی پارٹی تیسری مرتبہ اقتدار میں واپس آنے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے، جبکہ بی جے پی کی کوشش یہ ہے کہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی کی لڑائی میں اس کی قسمت چمک جائے اور کانگریس شیلا دکشت اور اپنی ریاستوں کی حکومت کی حصولیابیوں کو لے کر میدان میں اتری ہے، جس سے اسے امید ہے کہ دہلی کے عوام اس کے حق میں ووٹ ڈالیں گے۔
عام آدمی پارٹی کے رائے دہندگان جن میں اقلیتوں کا اہم حصہ ہے ان کے ذہن کافی الجھن میں ہے۔ ایک طرف وہ بی جے پی کو ہرانا چاہتے ہیں اور اسے اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ دوسری طرف اگر وہ عام آدمی پارٹی کے کردار کو دیکھتے ہیں تو ان کے سامنے کووڈ وبا کے دوران دہلی حکومت کے بیانات، جس میں کووڈ وبا کو پھیلانے کے لئے تبلیغی جماعت کے مرکز کو ذمہ دار ٹھہرانا، سی اے اے/این آر سی کے احتجاجی مظاہروں میں عام آدمی پارٹی کی عدم موجودگی، شمال مشرقی دہلی فسادات میں عام آدمی پارٹی کی خاموشی اور اب بھاگوت کو خط لکھ کر شکایت کرنے کی ان کے سامنے تصویر آ جاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جن کو انہوں نے ووٹ دیا تھا وہ تو بی جے پی کا دوسرا روپ ہی ہیں۔ اقلیتوں کے ایک بڑے طبقہ کے ذہن میں کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کی شبیہ بھی بہت خراب ہے اور ان کا ماننا ہے کہ ان کو ووٹ دینے کا مطلب بی جے پی کو مضبوط کرنے کے مترادف ہی ہے۔
اقلیتوں کے ایک بڑے طبقے میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ کانگریس ہی وہ واحد پارٹی ہے جو نہ تو بی جے پی کے ساتھ جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کے نظریے سے سمجھوتہ کر سکتی ہے۔ یہ طبقہ اس بات سے پریشان ہے کہ اگر ووٹ تقسیم ہو گئے تو بی جے پی اقتدار میں نہ آ جائے۔ بی جے پی کی مرکزی حکومت نے اقلیتوں کو اس قدر خود سے دور کر لیا ہے کہ اب اقلیتی طبقہ بھی انہیں اقتدار سے دور رکھنے کے لئے زہر کا گھونٹ پی لیتا ہے۔ تاہم، اگر اقلیتی طبقہ اپنے ذہن سے خوف نکالے اور شیلا دکشت کے دور کی کامیاب حکمرانی کو یاد کرتے ہوئے ووٹ دینے کا ارادہ کرے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ ایسا ہونے پر انہیں کبھی بھی پشیمانی کا سامنا نہیں ہوگا۔ اور اگر اس کے بعد بی جے پی اقتدار میں آ بھی جائے تو اقلیتی طبقہ کے پاس عام آدمی پارٹی سے یہ کہنے کا موقع ہوگا کہ اس نے ان کو ناراض کیا تھا، اس وجہ سے اسے ہار کا منہ دیکھنا پڑا۔
بی جے پی کو شکست دینے کے لئے اقلیتی طبقے کے سامنے کانگریس ہی واحد متبادل نظر آتی ہے، کیونکہ اس کے نظریے کی بدولت ہی دلتوں اور اقلیتوں کو سر اٹھا کر جینے کا موقع ملا ہے۔ ملک کا اقلیتی طبقہ کب تک اس خوف میں مبتلا رہے گا کہ اگر وہ کانگریس کے حق میں ووٹ دیں گے تو بی جے پی اقتدار میں آ جائے گی؟ دہلی کی اقلیتی برادری کو دانشمندی سے فیصلہ کرنا چاہئے، نہ کہ بی جے پی کے خوف میں مبتلا ہو کر یا جذبات میں بہہ کر اپنے ووٹ کا فیصلہ کرنا چاہئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔