سی پی ایم کا یو ٹرن: مرکز سے مفاہمت پر کیرالہ میں بایاں اتحاد تقسیم کا شکار

کیرالہ حکومت نے خفیہ طور پر ’پی ایم-شری‘ اسکیم کے لیے مرکز سے معاہدہ کیا تو بایاں اتحاد میں پھوٹ پڑ گئی۔ سی پی آئی نے اسے نظریاتی انحراف قرار دیا جبکہ اپوزیشن نے اسے مرکز کے آگے سرنڈر بتایا

<div class="paragraphs"><p>وزیر اعلیٰ کیرالہ پنرائی وجین / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

امل چندرا

تحریر: امل چندرا

پردھان منتری-اسکولز فار رائزنگ انڈیا (پی ایم شری) اسکیم کے نفاذ کے لیے کیرالہ حکومت نے مرکز کے ساتھ خفیہ طور پر مفاہمتی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کر دیے۔ یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب برسوں سے سی پی آئی (ایم) کی قیادت والی حکومت اور اس کے اتحادی مرکز کی تعلیمی پالیسیوں، خاص طور پر قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی)-2020 کی شدید ناقد رہی ہے۔ تاہم جب یہ معاہدہ منظرِ عام پر آیا تو بایاں محاذ میں اختلافات پھوٹ پڑے اور سی پی آئی نے اسے ’نظریاتی سرحدوں کی خلاف ورزی‘ قرار دیا۔

یہ معاہدہ اس وقت ہوا جب کیرالہ میں 2026 کے اسمبلی انتخابات کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔ اس لیے یہ فیصلہ صرف تعلیمی پالیسی سے زیادہ سیاسی اہمیت رکھتا ہے۔ سی پی آئی (ایم) کی قیادت والا ایل ڈی ایف ہمیشہ سے یہ مؤقف رکھتا آیا ہے کہ این ای پی تعلیم کی بھگواکاری، تجارتی مفادات اور مرکز کے غلبہ کو فروغ دینے کا ذریعہ ہے۔

تعلیم ہندوستان میں ریاستی و ہم وقتی فہرست میں شامل ہے۔ ماضی میں جامع تعلیم کی تحریک (ایس ایس اے) جیسے مرکزی منصوبوں کے تحت مالی تعاون دیا جاتا رہا ہے۔ مگر پی ایم-شری اسکیم کا مقصد ملک بھر میں 14,500 ماڈل اسکول قائم کرنا ہے، جنہیں این ای پی کے نمونے کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ منصوبے کی کل لاگت 27,360 کروڑ روپے ہے جس میں مرکز کا حصہ 18,128 کروڑ روپے ہے۔

گزشتہ برس جب مرکز نے کیرالہ کے لیے 1,158 کروڑ روپے کے تعلیمی فنڈ پر روک لگا دی اور اسے پی ایم-شری اسکیم کے ساتھ مشروط کیا، تو ریاست نے اسے وفاقی اصولوں کے خلاف قرار دیا تھا۔ اسی موقف کی بنا پر تمل ناڈو اور مغربی بنگال نے معاہدے سے انکار کر دیا تھا۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ کیرالہ کابینہ کو اس معاہدے کی اطلاع ہی نہیں دی گئی۔ نہ ہی سی پی آئی کے رہنماؤں کو علم تھا۔ جب معاملہ سامنے آیا تو سی پی آئی کے ریاستی سکریٹری بنوئے وِشوم نے اسے ’محاذ کے اصولوں سے غداری‘ اور ’نئی تعلیمی پالیسی کو پچھلے دروازے سے نافذ کرنے کی سازش‘ قرار دیا۔

اطلاعات کے مطابق 10 اکتوبر کو وزیرِ اعلیٰ پینارائی وجین نے دہلی میں وزیرِ اعظم نریندر مودی سے 30 منٹ کی خفیہ ملاقات کی تھی۔ اگرچہ بتایا گیا کہ گفتگو ریاست کے مالی بحران اور وجھانجام بندرگاہ منصوبے پر مرکوز تھی مگر بعد میں مفاہمت پر دستخط سے سیاسی قیاس آرائیاں بڑھ گئیں۔

وجین کی بیٹی ٹی وی وینا اور ان کی آئی ٹی کمپنی ایکسالاجیک سالیوشنز پر ریاستی ادارے کوچین منرلز اینڈ روٹائل لمیٹڈ (سی ایم آر ایل) سے 1.72 کروڑ روپے کی مشکوک ادائیگی کا الزام ہے۔ مرکز کی ایس ایف آئی او نے اس کیس میں کارروائی کی اجازت دی، جو غیر معمولی اقدام تھا۔ اسی طرح وزیرِ اعلیٰ کے بیٹے ویویک پر شراب ٹھیکوں میں مفاد رکھنے کے الزامات ہیں۔ ان تمام الزامات نے یہ تاثر مضبوط کیا کہ وزیرِ اعلیٰ نے سیاسی دباؤ کم کرنے کے لیے مرکز کے ساتھ سمجھوتہ کیا۔

کیرالہ میں این ای پی 2020 کے خلاف احتجاج طویل عرصے سے جاری ہے۔ اسمبلی میں وجین نے اسے ’وفاقی ڈھانچے اور مذہبی رواداری کے لیے خطرہ‘ بتایا تھا اور اعلان کیا تھا کہ ’’ریاست اسے کبھی قبول نہیں کرے گی۔‘‘ طلبہ تنظیم ایس ایف آئی نے اسے ’ہندی تھوپنے اور تاریخ مسخ کرنے کی کوشش‘ قرار دیا تھا۔


اسی دوران مرکز نے 2023–24 کے دوران کیرالہ کے ایس ایس اے فنڈ روک دیے تھے، جس کی سخت مخالفت ہوئی۔ سی پی ایم رہنما ایم اے بیبی نے اسے ’ریاستی خودمختاری پر حملہ‘ کہا تھا۔

وزیر تعلیم وی شیون کٹی نے اس اقدام کو ’اپنے حق کے فنڈز حاصل کرنے کی حکمتِ عملی‘ قرار دیا لیکن سی پی آئی اور طلبہ تنظیموں نے اسے ’مرکز کے آگے جھکنے‘ سے تعبیر کیا۔ سی پی آئی کی طلبہ شاخ اے آٗی ایس ایف نے تریشور میں احتجاج کیا، جبکہ ایس ایف آئی کے بعض رہنما خاموش رہے۔ اپوزیشن نے ایل ڈی ایف پر ’پوشیدہ بھگوا کاری‘ کا الزام لگایا۔ کانگریس کے رہنما کے سی وینوگوپال نے کہا، ’’کیرالہ میں اب ہر سیاسی تنازع میں بی جے پی-سی پی ایم گٹھ جوڑ کی بو آ رہی ہے۔‘‘

مشہور ملیالم شاعر کے سچّدانند نے بھی اس اقدام پر ناراضی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’این ای پی کی ثقافتی یکسانیت کو قبول کرنا کیرالہ کی کثیرالثقافتی تعلیمی اقدار سے غداری ہے۔‘‘

(مضمون نگار امل چندرا سیاسی تجزیہ نگار اور کالم نویس ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔