اتر پردیش کے بجٹ میں گائے اور مذہبی سیاحت کو ترجیح

اتر پردیش کے بجٹ میں گائے اور مذہبی سیاحت کو ترجیح دی گئی۔ 2000 کروڑ روپے چھوٹے گائے کے لیے اور 900 کروڑ مذہبی سیاحت پر خرچ ہوں گے، جبکہ اقلیتی بجٹ میں کمی کی گئی۔ کھیلوں کو کم فنڈ دیا گیا

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر</p></div>
i
user

ہرجندر

نریندر مودی کی معیشتی پالیسی نے ایک اور ’کمال‘ کر دکھایا ہے— سالانہ بجٹ کو ایک مذہبی دستاویز میں تبدیل کر دیا ہے، جس میں سب سے زیادہ ذکر مندروں اور مذہبی سیاحت کا ہوتا ہے۔ جب جنوبی ہندوستان کی غیر بی جے پی حکومتیں ٹیکس کی غیر مساوی تقسیم پر تشویش ظاہر کر رہی تھیں، بی جے پی نے مہا کمبھ کو اپنے لیے ایک موقع کے طور پر دیکھ لیا۔

اسی وقت جب اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ مہا کمبھ کے لیے ریاستی خزانے سے 7,500 کروڑ روپے خرچ کرکے تین لاکھ کروڑ روپے کی معیشت بنانے کا دعویٰ کر رہے تھے، تو ریاست کے وزیر خزانہ سریش کمار کھنہ کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔

20 فروری کو جب وزیر خزانہ سریش کمار کھنہ نے اتر پردیش اسمبلی میں سالانہ بجٹ پیش کیا، تو ان کی تقریر کا پہلا حصہ مکمل طور پر مہا کمبھ کے لیے مختص تھا۔ 144 سال بعد آنے والے اس موقع کی اہمیت کا ذکر انہوں نے اپنے بجٹ خطاب کے آغاز میں ہی کر دیا۔

یہی نہیں، راجستھان کے بجٹ کا بھی یہی حال تھا۔ 19 فروری کو راجستھان اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے نائب وزیر اعلیٰ دیا کماری نے کہا کہ وزیر اعلیٰ بھجن لال شرما نے پریاگ راج میں مقدس اشنان کے دوران جو اعلانات کیے تھے، انہیں بجٹ میں پورا کیا جا رہا ہے۔ ان اعلانات میں مندروں کے لیے خصوصی انتظامات اور پجاریوں کے وظیفے میں اضافہ بھی شامل ہے۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ راجستھان کے وزیر اعلیٰ نے پورے کابینہ کے ساتھ 19 جنوری کو پریاگ راج کے لیے پرواز بھری اور وہاں اشنان کے بعد کابینہ میٹنگ کی، شاید بجٹ کے اہم فیصلے بھی وہیں ہوئے۔ اتر پردیش کے مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں دو نمایاں موضوعات نظر آتے ہیں— گائے اور مذہبی سیاحت۔

ریاست میں آوارہ گائے کی دیکھ بھال کے لیے 2,000 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس رقم کی اہمیت کو اس بات سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ریاست بھر میں کھیلوں کی ترقی کے لیے صرف 400 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں، یعنی آوارہ گائے کو کھیلوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ فنڈ ملا ہے۔ گو سرکشا مراکز کے لیے 140 کروڑ روپے اور جانوروں کے اسپتالوں کے لیے 123 کروڑ روپے الگ رکھے گئے ہیں۔

یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ بجٹ میں ’گئو ونش‘ یعنی گائے کا ذکر کیا گیا ہے، نہ کہ مویشی یا ’پشو دھن‘کا۔ پورے بجٹ میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ دیگر کاروباری یا زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے جانوروں جیسے بکری، گھوڑا، خچر وغیرہ کے لیے حکومت کی کوئی پالیسی ہے یا نہیں۔

ریاست میں اس وقت آوارہ گائیوں کی تعداد کا کوئی مصدقہ ڈیٹا دستیاب نہیں۔ 2019 کی مویشی مردم شماری کے مطابق، ریاست میں 12 لاکھ کے قریب آوارہ جانور موجود تھے، جن میں 10 لاکھ کے قریب گائے ہو سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت نے ہر آوارہ گائے، بھینس یا بیل کے لیے سالانہ 20 ہزار روپے کا انتظام کر دیا ہے، جبکہ کسانوں کو ’پردھان منتری کسان سمان ندھی‘ کے تحت سالانہ صرف 6000 روپے دیے جاتے ہیں۔


گائے کے بعد بجٹ میں جس چیز کو اہمیت دی گئی، وہ مذہبی سیاحت ہے۔ یہاں ’تیرتھ یاترا‘ نہیں بلکہ ’مذہبی سیاحت‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، یعنی حکومت جو رقم مندروں اور مذہبی مقامات پر خرچ کر رہی ہے، وہ درحقیقت سیاحت کے بجٹ میں شامل ہے۔ اس مقصد کے لیے 900 کروڑ روپے سے زیادہ کا بجٹ رکھا گیا ہے۔

ورنداون کے بانکے بہاری مندر کا کاریڈور بنانے میں 200 کروڑ روپے خرچ ہوں گے، مرزا پور میں وندھیا واسنی مندر کا پریکرما پاتھ کے لیے 200 کروڑ، ایودھیا کی ترقی کے لیے 150 کروڑ، متھرا کے لیے 125 کروڑ، چترکوٹ کے لیے 50 کروڑ، نیمشارنّیہ تیرتھ کی ترقی کے لیے 100 کروڑ، نیمشارنّیہ میں ہی وید وگیان سینٹر کے لیے 100 کروڑ خرچ ہوں گے، جبکہ وزیر اعلیٰ سیاحت ترقیاتی منصوبہ کے لیے 400 کروڑ علیحدہ سے مختص کیے گئے ہیں۔

اس کے برعکس، بودھ سرکٹ کے لیے صرف 60 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جو پچھلے سال بھی اتنے ہی تھے، لیکن نظرثانی شدہ تخمینے میں اسے 92.66 کروڑ کیا گیا تھا، یعنی رواں سال بودھ سرکٹ کے بجٹ میں کمی کی گئی ہے۔ ایک اور قابل ذکر منصوبہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس سٹی‘ کا ہے، جس کے لیے لکھنؤ کو منتخب کیا گیا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس منصوبے کے لیے حکومت صرف 5 کروڑ روپے خرچ کرے گی۔ ’سناتن بجٹنگ‘ کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ اس میں اقلیتوں کے حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔

اتر پردیش کے 2024-25 کے بجٹ میں اقلیتوں کے لیے 2,000 کروڑ روپے کا فنڈ تھا، جو اب گھٹ کر 1,998 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ یعنی ریاست میں 20 فیصد مسلم آبادی کو آوارہ گائے کے بجٹ سے بھی کم اہمیت دی گئی۔


2016-17 میں اقلیتی بجٹ 3,055 کروڑ روپے تھا، جس میں مسلسل کمی کی جا رہی ہے۔ مدارس کا بجٹ ختم کر دیا گیا ہے، جو غریب مسلمانوں کی تعلیم کا واحد ذریعہ ہیں۔ مسلم طلبہ کے وظائف میں اضافہ نہیں کیا گیا، جبکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مسلم لڑکیوں کا ڈراپ آؤٹ ریٹ 80 فیصد ہے۔

بجٹ پیش ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ یہ ’سناتن‘ کو وقف ہے۔ اگر سناتن بجٹ کا مطلب یہ ہے کہ کھیلوں کی ترقی، اقلیتوں کی فلاح و بہبود اور دیگر شعبوں کو نظر انداز کر کے سارا زور گائے اور مذہبی سیاحت پر دیا جائے، تو یہ بجٹ واقعی اپنے مقصد میں کامیاب رہا۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ یہ سب کس قیمت پر ہو رہا ہے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔