پنجاب میں سیلاب سے فصلوں کو پہنچے نقصان کا معاوضہ اور انتخاب کی تیاریاں... ہرجندر
حکومت پہلے بھی بہت کم ہی سرگرم نظر آ رہی تھی، اب بھی حال وہی ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ جو حالات ہیں، اس سے انھیں خود ہی نمٹنا ہے۔

پنجاب کے جن کھیتوں میں کھڑی فصلیں سیلاب نے برباد کر دیں، وہاں اب سیاست کی فصل لہلہا رہی ہے۔ گاؤں اور کھیتوں میں جمع پانی اتر رہا ہے۔ راحت میں لگے زیادہ تر رضاکار بھی لوٹ گئے ہیں۔ حکومت پہلے بھی بہت کم ہی نظر آ رہی تھی، اب بھی حال وہی ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ جو حالات ہیں، ان سے انہیں خود ہی نمٹنا ہے۔
مسائل بڑے ہیں۔ لوگوں کے لیے گاؤں لوٹنا آسان نہیں ہے، کیونکہ سینکڑوں کی تعداد میں سڑکیں ٹوٹی پڑی ہیں۔ جو لوٹے بھی ہیں، ان میں بیشتر کے گھر منہدم ہو چکے ہیں۔ بچ گئے گھروں کو پھر سے رہنے لائق بنانے کے لیے کافی محنت کرنی ہوگی۔ جمع پانی سڑنے لگ گیا ہے، یعنی بدبو ابھی کئی دنوں تک ان کی زندگی کا حصہ بنی رہنے والی ہے۔ بڑا خطرہ گندے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا بھی ہے، جن کے پھیلنے کی خبریں بھی کچھ جگہوں سے آنے لگی ہیں۔ لوگ گھر تو صاف کر لیں گے، ان اسکولوں اور کالجوں کا کیا ہوگا جو ہفتوں سے بند ہیں۔ بہت سے اسکولوں میں اب بھی پانی جمع ہے۔
اس سے بھی بڑی مشکل ہے کھیتوں کی صفائی۔ خریف کی فصل تو برباد ہو گئی، ربیع کی بوائی ہو پائے گی یا نہیں، کہنا مشکل ہے۔ ریاستی حکومت نے نقصان کے لیے پہلے 6,800 روپے فی ایکڑ معاوضے کا ہی اعلان کیا تھا، بعد میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کے پنجاب دورے سے پہلے اسے بڑھا کر 20 ہزار روپے فی ایکڑ کر دیا گیا۔ شاید اس لیے کہ اس سے وزیرِ اعظم کے سامنے پنجاب کی اقتصادی ضرورت کا بِل بڑھا ہوا پیش کیا جا سکے۔ کسان تنظیمیں اس معاوضے سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نقصان کے مقابلے یہ بہت کم ہے۔ کسان تنظیموں نے 50 سے 70 ہزار روپے فی ایکڑ معاوضے کا مطالبہ کیا ہے۔ باقی غیر بی جے پی ریاستوں کی طرح ہی پنجاب نے بھی وزیرِ اعظم فصل بیمہ یوجنا نافذ نہیں کی ہے۔ اس لیے کسانوں کو کسی بیمے کی کوئی رقم بھی نہیں ملنی۔
سرکاری کام اپنی رفتار سے چلتا ہے۔ ریاستی حکومت کی پریس ریلیز بتاتی ہے کہ ’گرِداوری‘ یعنی نقصان کے جائزہ کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد نقصان کے حساب سے مدد ملنے لگ جائے گی۔ لوگ جانتے ہیں کہ اس میں مہینوں لگ سکتے ہیں، پھر بھی مدد مل ہی جائے گی، اس کی گارنٹی نہیں ہے۔
اسمبلی انتخاب میں اب ڈیڑھ سال سے بھی کم وقت بچا ہے اور سیلاب نے اس کی تیاریوں کا اچھا موقع دے دیا ہے۔ عام آدمی پارٹی لگاتار کہہ رہی ہے کہ اس آفت کے بعد ریاست کو جتنی مدد چاہیے تھی، مرکزی حکومت اسے دینے سے انکار کر رہی ہے۔ جبکہ بی جے پی رہنما سنیل جاکھڑ کہہ رہے ہیں کہ پہلے ریاستی حکومت مرکز سے ملے 12 ہزار کروڑ روپے کا حساب دے۔ ان کا الزام ہے کہ یہ پوری رقم بدعنوانی کی نذر ہو گئی۔ اس سے الگ پنجاب پردیش کانگریس کے صدر امریندر سنگھ راجہ وڈنگ کا کہنا ہے کہ عام آدمی پارٹی کی حکومت کو ایکسپوز کرنے کے چکر میں وزیرِ اعظم کو راحت پیکیج کے معاملے میں سیاست نہیں کرنی چاہیے تھی۔ وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے ریاست کے سبھی اراکین اسمبلی اور اراکین پارلیمنٹ سے اپیل کی ہے کہ وہ ایم پی اور ایم ایل اے فنڈ سے ریاست کے لوگوں کی مدد کریں۔
’دی ٹربیون‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، کانگریس نے اپنے سبھی سینئر لیڈروں کی فوج آفت میں کام کرنے کے لیے اتار دی ہے۔ پارٹی نے ہر پارلیمانی حلقے میں اس کے لیے اپنے کارکنوں کو سرگرم کر دیا ہے۔ اس کے لیے پارلیمانی حلقہ کی سطح پر ہی وسائل جمع کرنے کی تیاریاں چل رہی ہیں۔ انتخاب کا قریب ہونا ہی بہت سے لوگوں کو امید بھی بندھا رہا ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ انتخاب کا دباؤ ہی لوگوں تک وقت رہتے راحت پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔
حکومت نے کسانوں کے حوالے کیا اپنا دردِ سر
سیلاب کے بعد کھیتوں میں ہر طرف ریت ہے۔ لاکھوں ایکڑ کھیتوں میں جمع سلٹ صاف کرنے کا چیلنج بہت بڑا ہے۔ پنجاب حکومت نے ایک طریقہ نکالا جسے انوویٹیو بتاتے ہوئے اس کی تعریفوں کے پُل باندھے جا رہے ہیں۔ 8 ستمبر کو کابینہ کی میٹنگ میں یہ صفائی کا کام کسانوں کے حوالے کرنے کا راستہ تلاش کیا گیا تاکہ حکومت اپنی ذمہ داری سے ہاتھ جھاڑ سکے۔ کابینہ کی اس میٹنگ میں ’جیہدا کھیت، اوہدی ریت‘ نام کا ایک پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے تحت کسان اپنے کھیتوں میں آ گئی ریت کو بیچ سکیں گے۔ ابھی تک ریت کا کاروبار کرنے کے لیے پرمٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ 31 دسمبر تک کسانوں کے لیے محکمۂ کانکنی سے اس طرح کا پرمٹ لینے کی ضرورت کو ختم کر دیا گیا ہے۔
فیصلہ ہوتے ہی عآپ لیڈر اَروند کیجریوال اور منیش سسودیا کے تعریفی بیانات سوشل میڈیا پر شیئر ہونے لگے۔ ان رہنماؤں نے اسے کسانوں کو سیدھا فائدہ دینے والا قدم بتایا۔ دوسری طرف کچھ ماہرین نے کہا کہ ریاستی حکومت نے بغیر کسی خاص سرمایہ کاری کے ہی کھیتوں کو صاف کرنے کا طریقہ نکال لیا ہے۔ حالانکہ بیشتر کھیتوں میں اب بھی پانی جمع ہے۔ جہاں پانی نکل چکا ہے اور کھیت کچھ حد تک خشک ہو گئے ہیں، وہاں سے کچھ اور ہی کہانی پتہ چل رہی ہے۔ سیلاب کے پانی نے کھیتوں میں ریت ضرور بھر دی ہے لیکن وہاں صرف ریت نہیں ہے۔ اس میں کنکر، پتھر اور بہت ساری وہ گندگی بھی ہے جو سیلاب کا پانی اپنے ساتھ بہا کر لایا تھا۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ یہ ریت ویسی نہیں ہے کہ بازار میں انہیں اچھے دام ملیں۔ عام طور پر ریت کے لیے بازار میں 15 ہزار روپے فی ٹرالی قیمت مل جاتی ہے، لیکن ان کے کھیتوں سے جو ریت نکل رہی ہے اس کے لیے 2 ہزار روپے فی ٹرالی سے زیادہ قیمت نہیں مل رہی، جبکہ ریت نکالنے کی محنت کئی گنا زیادہ ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔