حجاب تنازعہ: پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

موجودہ مسلم معاشرہ کا جائزہ لیں تو یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جائے گی کہ ہم ایسے لوگوں کے درمیان زندہ ہیں جو اسلامی شعار ترک کر کے مغرب کے لادینی نظام حیات کی پیروی پر نازاں ہیں۔

تصویر یو ین آئی
تصویر یو ین آئی
user

آفتاب احمد منیری

آج سے لگ بھگ دو صدی قبل جب انگریز ماہر تعلیم لارڈ میکالے نے ہندوستانی قوم کے لیے ایک جدید نظام تعلیم وضع کیا تھا تو اس کی منشاء بہت صاف تھی۔ اسے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نظریات کے عین مطابق ایک ایسی نسل تیار کرنی تھی جو رنگ اور نسل کے اعتبار سے ہندوستانی ہونے کے باوجود طرز فکر کے لحاظ سے انگریز ہو۔ وضاحت کی قطعی ضرورت نہیں کہ آزادی کے 70 سالوں بعد میکالے کا یہ نظام تعلیم ہندوستانی معاشرہ کو اپنے حصار میں لے چکا ہے۔ اور نہ صرف طرز تعلیم بلکہ ہماری طرز معاشرت بھی پوری طرح سے مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ چکی ہے۔ اور یہ واقعہ ہے کہ مغرب کی اس فکری یلغار سے سب سے زیادہ متاثر وہ قوم ہوئی ہے جسے خالق کائنات نے دنیا کی رہنمائی کے لیے بھیجا تھا جسے اس کا منصب یاد دلاتے ہوئے کبھی اقبالؔ نے کہا تھا:

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

مشرق کے اوپر مغرب کی اس تہذیبی یلغار کے اثرات کتنے دور رس ہوں گے اس کا اندازہ اقبال کے پیش رو اکبر الٰہ آبادی کو بہت پہلے ہو گیا تھا۔ چنانچہ انھوں نے اپنی مشہور نظم ’مستقبل‘ میں نہایت واضح طور پر صراحت کر دی تھی کہ جدید مغربی تعلیم مشرق کے تہذیبی افتخار کو کس طرح سبوتاز کر کے رکھ دے گی۔

یہ موجودہ طریقے راہیٔ ملک عدم ہوں گے

نئی تہذیب ہوگی اور نئے ساماں بہم ہوں گے

نہ خاتونوں میں رہ جائے گی پردے کی یہ پابندی

نہ گھونگھٹ اس طرح سے حاجب روئے صنم ہوں گے


موجودہ مسلم معاشرہ کا جائزہ لیں تو یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جائے گی کہ ہم ایسے لوگوں کے درمیان زندہ ہیں جو اسلامی شعار ترک کر کے مغرب کے لادینی نظام حیات کی پیروی پر نازاں ہیں اور اسے ترقی پسندی اور روشن خیالی کی علامت تصور کرتے ہیں۔ مشرقی کی تہذیبی روایات سے محروم اس جدید معاشرہ کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جنوبی ہند کے ایک کالج کے گیٹ پر قوم کی چند باغیرت بیٹیاں حجاب کی عظمت کی خاطر مسلسل کئی دنوں سے صدائے احتجاج بلند کر رہی ہیں، اور زعفرانی ذہنیت کی حامل کالج انتظامیہ محض عصبیت کی بنا پر انھیں کالج میں داخل ہونے سے روک کر انھیں ان کے آئینی و دستوری حق سے محروم کر رہی ہے۔

میں اس تلخ نوائی پر اس لیے مجبور ہوا کیونکہ اتنے دن گزر جانے کے باوجود اڈوپی کالج کی ان غیور مسلم طالبات کے حق میں چند ایک کے سوا کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہوئی۔ ہماری نام نہاد ملی قیادت اور دانشوروں کی پوری جماعت خواب غفلت میں پڑی سوتی رہی۔ یہ غفلت کی نیند اس وقت ٹوٹی جب طاغوتی نظام کے سامنے آہنی چٹان بن کر ڈٹی ہوئی وہ غیور مسلم طالبات اللہ کی تائید و نصرت سے فتحیاب ہو گئیں۔ کالج انتظامیہ نے ان کے جائز مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے انھیں حجاب کے ساتھ کلاس روم میں داخلے کی اجازت دے دی۔


یقیناً دین پسند طبقے کے لیے یہ ایک حوصلہ افزا خبر ہے۔ لیکن جنوبی ہند کی اسلام پسند خواتین کی دینی غیرت کے اس مہتم بالشان مظاہرہ کو اگر مستثنیٰ کر دیں تو اسلامی شعار کی آئے دن ہونے والی ناقدری کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہم خود ہیں۔ ہم نے ایک زندہ امت ہونے کا کبھی احساس ہی نہیں کرایا۔ ہم نے کبھی خود سے یہ سوال کرنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی کہ آخر کیوں بار بار ہماری نظروں کے سامنے دینی احکام کا مذاق اڑایا جاتا ہے؟ کیوں اسلامی حجاب جیسے مذہبی شعار کو پسماندگی کی علامت قرار دیا جاتا ہے؟ اس طرح کے سوالات کا جواب صرف یہ ہے کہ ہم نے دین کو اپنی زندگیوں سے نکال دیا ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل آئیے مسئلہ حجاب کے متعلق قرآن کی گواہی سنیں:

’’ائے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر چادریں لٹکا لیا کریں، اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ (الاحزاب:59)


قرآن کے اس بیان کی روشنی میں اگر ہم اپنا احتساب کریں تو آنکھیں اشک ندامت سے بھر اٹھیں گی۔ ہم نے جدید زندگی کی چمک دمک میں کھو کر دین رحمت اسلام کو خود سے کتنا اجنبی کر دیا کہ آج ہمیں دنیا کو یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ حجاب کرنا شریعت کا حکم ہے کوئی اجتہادی مسئلہ نہیں۔ واضح ہو کہ حجاب کے مسئلہ پر اب اڈوپی کالج کی انقلابی مسلم بیٹیوں کی حمایت میں ریاست کرناٹک کے تمام دین پسند طلبہ سراپا احتجاج ہیں۔ مسئلہ کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے 8 فروری کو کرناٹک ہائی کورٹ میں معاملہ کی سماعت ہوئی اور ’آج تک‘ پر شائع رپورٹ کے مطابق عدالت عالیہ نے قرآن حکیم کی ایک کاپی منگوا کر یہ پوچھا کہ ’’کیا قرآن میں یہ لکھا ہے کہ حجاب ضروری ہے؟‘‘ جواب میں عرضی دہندہ کے وکیل نے سورہ نور کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہاں ہیڈ اسکارف (حجاب) کا ذکر موجود ہے۔

مذکورہ کالج میں ہی 8 فروری کی صبح پیش آئے ایک غیر معمولی واقعہ نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ 8 فروری کو ایک باحجاب مسلم طالبہ مسکان اپنا اسائنمنٹ جمع کرنے کالج میں داخل ہوئی۔ اچانک ہی دوسری جانب سے زعفرانی پٹہ لگا کر پچاسوں غیر مسلم طلبا ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے وہاں پہنچ گئے اور اس مسلم طالبہ کو اندر جانے سے روکنے لگے۔ وہ بہادر لڑکی پہلے تو خاموشی کے ساتھ یہ سب دیکھتی رہی، پھر اچانک ہی پلٹ کر زور زور سے ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ بلند کرنے لگی۔ بعد ازاں کالج انتظامیہ نے اسے اپنی حفاظت میں لے کر کلاس روم تک پہنچا دیا۔ اپنے مذہبی شعار کے تئیں مسکان خان کے اس جذبۂ وارفتگی نے خیرالقرون کی مجاہد مسلم خواتین کی یاد ذہنوں میں تازہ کرا دی ہے۔ اپنے راسخ ایمان کے اس عدیم المثال مظاہرہ سے قوم کی اس طالبہ نے نہ صرف دشمنان دین کو حیران و ششدر کر دیا ہے بلکہ ان تمام مسلم خواتین کو عزم اور حوصلہ عطا کیا ہے جو اب تک مسئلہ حجاب کو لے کر تذبذب کا شکار تھیں۔


امید ہے کہ اڈوپی کالج کی انقلابی مسلم طالبات کے ذریعہ برپا کی گئی یہ تحریک آئندہ ہزاروں مسلم خواتین کے لیے مشعل راہ بنے گی اور ان جدید طرز فکر کی حامل خواتین کو بھی دعوت احتساب دے گی جو اسلامی حجاب سے محروم ہو کر زندگی جینے کو آزادی تصور کرتی ہیں۔

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات

(مضمون نگار شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں استاذ ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */