منشیات کے خلاف جنگ کا دعویٰ، لیکن منشا کچھ الگ... اشوک سوین

ایسے بالواسطہ یا بلاواسطہ آپریشن حکومت بدلنے سے متعلق عوام کے مطالبات کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ پابندیوں اور فوجی تعیناتی کے ساتھ ساتھ سفارتی کوششیں بھی کی جاتی ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر، آئی اے این ایس&nbsp;</p></div>
i
user

اشوک سوین

امریکہ یہ کہتا ضرور ہے کہ وہ کیریبیا میں ڈرگز یعنی منشیات کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، لیکن اس کے لیے شروع کیے گئے ’آپریشن ساؤدرن اسپیئر‘ کا سائز اور طریقہ اشارہ کرتا ہے کہ امریکہ کی منشا کچھ الگ ہے۔ امریکہ نے جس طرح وینزویلا کے پاس جنگی جہاز، ہوائی جہاز اور ہزاروں فوجی تعینات کر دیے ہیں، وہ اعلامیے میں بتائے گئے مقصد کے لحاظ سے کچھ زیادہ ہی بڑی تعیناتی ہے۔ ٹرمپ نے اس تصادم کو اس لیے بھی ہوا دی ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ وہ وینزویلا میں کچھ ایسا کر سکتے ہیں جو پچھلے امریکی صدر نہیں کر سکے۔

امریکہ نے فوجی آپریشن میں چھوٹی کشتیوں کو غرق کر دیا ہے اور مبینہ اسمگلروں کو ہلاک کیا ہے، لیکن ان کشتیوں کو منشیات شپمنٹ سے جوڑنے کا کوئی ثبوت نہیں پیش کیا اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ کشتیاں اتنی جدید تھیں ہی نہیں کہ امریکی ساحلوں تک پہنچ پاتیں۔ اس کے علاوہ واشنگٹن نے وینزویلا حکومت کو ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ وینزویلا کے صدر نکولس مادورو کی گرفتاری میں مدد کرنے والے کو 5 کروڑ ڈالر کے انعام کا اعلان کیا ہے اور سی آئی اے کے خفیہ آپریشن بھی بڑھا دیے ہیں۔


ٹرمپ نے حال ہی میں مادورو سے بات کی تھی۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ مادورو ان سے ملنے کو تیار ہیں، جبکہ وہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ وینزویلا کے لیڈر ایک مجرمانہ نیٹورک چلاتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اگلے ممکنہ قدم پر گفتگو کے لیے سینئر مشیروں کو کام دے دیا ہے اور کہا ہے کہ سفارتی اور فوجی دونوں راستے کھلے ہیں۔ ٹرمپ نے یہ بھی دھمکی دی ہے کہ وہ جلد ہی وینزویلا کے اندر ٹارگیٹیڈ حملے کریں گے۔ یہ ملے جلے اشارے تمام متبادل کھلے رکھنے کی اس حکمتِ عملی کی تصدیق کرتے ہیں جس میں وینزویلا کی سیاست بدلنے والے معاہدے سے لے کر بات چیت ناکام ہونے کی صورت میں جارحانہ روش اختیار کرنا شامل ہے۔

لاطینی امریکہ اس نمونے کو دیکھ چکا ہے۔ امریکہ نے پچھلی صدی میں بیرونی خطرات کے جواب میں جارحانہ کارروائیاں کیں، یعنی سرد جنگ سے لے کر دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اب منشیات کے خلاف جنگ تک۔ بیانیہ بدلتا ہے، لیکن حقیقت وہی رہتی ہے۔ دباؤ بنانے والی مہمات فوجی مداخلت میں بدل جاتی ہیں۔ یہ بلاواسطہ یا بالواسطہ آپریشن حکومت بدلنے سے متعلق عوامی مطالبات کے ساتھ جوڑ دیے جاتے ہیں۔ پابندیوں اور فوجی تعیناتی کے ساتھ ساتھ سفارتی کوششیں بھی کی جاتی ہیں۔ یہ خطہ اس سلسلے کی یادوں سے بھرا پڑا ہے، اور آج کے خدشات کی بنیاد بھی یہی یادیں ہیں۔


وینزویلا کا اپوزیشن منقسم ہے۔ ماریا کورینا مچاڈو کو نوبل امن انعام ملنے سے کئی لوگ پُرجوش ہیں اور وہ تبدیلی کی امید کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ماریا کا نوبل انعام ٹرمپ کو وقف کر دینے سے کچھ حلقوں میں یہ یقین بھی پیدا ہوا ہے کہ بیرونی دباؤ سے موجودہ بحران کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ پھر بھی، بیرونی مداخلت کے بعد تیز تر سیاسی تبدیلی کے یہ خیالات زمینی حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں۔ وینزویلا میں سینکڑوں ملیشیا یونٹ اور غیر منظم گروہ فعال ہیں جو کسی بھی بیرونی مداخلت کا مقابلہ کریں گے۔ اگر حملہ اچانک اور بڑا بھی ہو، تب بھی اس کے بعد کا ماحول غیر مستحکم ہوگا، جس میں مخالف گروہ بکھرے ہوئے سیاسی حالات میں کنٹرول کے لیے باہم لڑتے رہیں گے۔

وینزویلا میں برسوں کی معاشی گراوٹ اور سیاسی اتھل پتھل نے عوام کو تھکا دیا ہے، انہیں آگے ممکنہ ہلچل کا خدشہ ستا رہا ہے۔ کئی لوگ تبدیلی چاہتے ہیں لیکن انہیں ڈر ہے کہ امریکی فوجی کارروائی سے حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ ہر روز مختلف افواہوں اور بیرونِ ملک سے آنے والے بیانات کا دھندلا پن چھایا رہتا ہے، جس سے یہ احساس گہرا ہوتا جاتا ہے کہ وینزویلا کا مستقبل کہیں اور طے ہو رہا ہے۔ ایک ہلکی سی جھڑپ بھی بڑے پیمانے پر ہجرت کا باعث بن سکتی ہے، جس سے نمٹنے کی اس خطے کی صلاحیت نہایت محدود ہے۔


اس بے یقینی نے مادورو حکومت کے اندرونی بیانیے کو بھی مضبوط کیا ہے۔ مادورو کے وفادار ملک کے دفاع پر زور دے رہے ہیں اور ملک بھر میں حمایت حاصل کرنے کے لیے بیرونی حملے سے خبردار کر رہے ہیں۔ سرکاری میڈیا ملیشیا ٹریننگ ایکسرسائز کو نمایاں کرتا ہے اور اس اجتماع کو وینزویلا کی آزادی کے لیے بیرونی خطرے کی علامت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی واشنگٹن اور خطے کی حکومتوں کے درمیان ٹکراؤ کے وقت ہوتا آیا ہے، بیرونی دباؤ گھریلو حمایت کو کم کرنے کے بجائے اسے مزید مضبوط کرتا ہے۔ کاراکاس میں سخت گیر حلقے اب مداخلت کے خطرے کو مزید سخت کنٹرول اور زیادہ نگرانی کے لیے جواز بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

صوبائی حکومتیں احتیاط سے ردِعمل دے رہی ہیں۔ کولمبیا کے صدر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وینزویلا پر حملہ سرحدوں سے پار بھی جا سکتا ہے اور وینزویلا میں امن معاہدوں کو کمزور کر سکتا ہے۔ دیگر لاطینی امریکی حکومتیں وینزویلا کے حالیہ انتخابات میں خامیوں کو تسلیم کرتی ہیں، پھر بھی انہیں ڈر ہے کہ نئے مسلح تنازعے سے پورا نصف کرہ (نصف دنیا) غیر مستحکم ہو جائے گا اور اس سے کہیں بڑا انسانی بحران پیدا ہو جائے گا۔ اس فوجی تصادم سے پورے خطے میں تقسیم مزید گہری اور پکی ہو جائے گی اور اپنے اسٹریٹجک فائدے کی تاک میں بیٹھی بیرونی قوتیں اس میں شامل ہو جائیں گی۔


واشنگٹن کا بدلتا ہوا رویہ، جس میں بات چیت اور مفاہمت کے امکان کے ساتھ دھمکیاں بھی شامل ہیں، خطرات کے خدشات کو بڑھانے والا ہے۔ یہ وینزویلا کے اندر لوگوں کو رسک لینے یا دوسرے فریق کے ارادوں کا غلط مطلب اخذ کرنے پر اُکسا سکتا ہے، جس سے شاید ایسے واقعات کا سلسلہ شروع ہو جائے جو کوئی بھی فریق نہیں چاہے گا۔ سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ یہ نصف کرہ ایک بار پھر اسی چکر میں پھنس جائے جہاں فوری ضرورت کے دکھاوے پر مبنی دعووں کے تحت کی جانے والی کسی بھی کارروائی کو جائز ٹھہرایا جائے، یعنی وہی پرانی مثال... 1954 کی بغاوت کے بعد گوئٹے مالا کا خانہ جنگی میں پھنسنا، 1973 کے بعد چِلی میں طویل عدم استحکام، نکاراگوا میں کانٹرا جنگ میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں اور پناما حملے کا دیرپا صدمہ۔ یہ سب یاد دلاتے ہیں کہ چھوٹے آپریشن بھی دیرپا عدم استحکام پیدا کر سکتے ہیں۔ ہر ایک کے نتائج خطرناک نکلے جنہوں نے خطے کی سیاست کو بدل دیا اور نسلوں تک معاشرے ان کے زخم سہتے رہے۔

وینزویلا کی عوام کو اپنا سیاسی مستقبل طے کرنے کا پورا حق ہے، جسے بیرونی طاقتوں نہیں بلکہ ان کے اپنے ادارے شکل دیں۔ نئی سفارت کاری، قابلِ اعتماد انتخابات اور انسانی امداد کے لیے اب بھی ایک راستہ موجود ہے۔ لیکن وہ راستہ تب مشکل ہو جاتا ہے جب غیر ملکی فوجی طاقتوں کا بڑھتا ہوا دباؤ مکالمے پر حاوی ہو جائے۔ ’آپریشن ساؤدرن اسپیئر‘ کو چاہے ایک کاؤنٹر-نارکوٹکس مشن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہو، لیکن اس کا حجم، یعنی سائز ایک بہت بڑے مقصد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

(اشوک سوین سویڈن کی اُپسلا یونیورسٹی میں ’پیس اینڈ کانفلکٹ ریسرچ‘ کے پروفیسر ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔