ندائے حق: چین کے تشویشناک بحری عزائم... اسد مرزا

جس منصوبہ بند طریقے سے چینی کمپنیاں مختلف ممالک میں بحری بندرگاہیں خرید رہی ہیں، اس سے مستقبل کے لیے چین کے بحری عزائم کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اسد مرزا

حالیہ عرصے میں جنوبی چینی سمندر یعنی South China Sea یا SCS کافی خبروں میں رہا ہے ۔ اس کی ایک وجہ SCS میں چین کی جانب سے بحری اور فضائی جارحیت اور ان کے خلاف تائیوان اور امریکہ کی تشویش بھی کافی اہم ہے۔

دراصل SCSکا مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ کمیونسٹ چین کے قیام کے بعد سے ہی چینی حکومت نے SCSاور اس میں موجود مختلف جزیروں پر اپنی ملکیت ثابت کرنے کی کوشش برابر جاری رکھی ہیں۔ ساتھ ہی وہ تائیوان کو بھی چین کا حصہ قرار دیتا ہے اور تائیوانی حکومت کو تسلم نہیںکرتا ہے۔

گو کہ حیگہ (The Hague)میں قائم عالمی عدالت برائے ثالثی یعنی ICJنے 2016میںہی SCSپر چینی خود مختاری کو مسترد کردیا تھا، تاہم چین اس معاملے میں ICJکے فیصلے کو تسلیم کرنے کے لیے راضی نہیں ہے اور اس کا مزید دعویٰ ہے کہ پورا SCSچین کی ملکیت ہے۔ عالمی دفاعی ماہرین کی رائے ہے کہ چین ا س مسئلے پر ایسے موقف کو اختیار کرنے کی فراق میں ہے جس سے کہ اس مسئلے کا کوئی حتمی حل نہیں نکل سکے اور وہ پورے SCSمیں اپنی من مانی جاری رکھے۔ ساتھ ہی وہ عالمی قوانین کی بالادستی کو بھی چیلنج دے کر SCS میں اپنے ہمسایہ چھوٹے ملکوں کو اپنی دفاعی طاقت کے ذریعہ ڈراتا رہے۔ واضح رہے کہ اس مہینے کے شروع کے چار دنوں میں ہی چین نے اپنی فضائیہ کے مختلف طیاروں کو تائیوان کی فضائی حدود میں 150مرتبہ بھیجا اور اس کے علاوہ اگست اور ستمبر کے دوران چینی بحریہ نے تائیوان کے قریب جنگی جہازوں، طیاروں اور آبدوز تباہ کرنے والے طیاروں کو شامل کرکے مختلف جنگی مشقیں کیں۔ ماہرین کی رائے ہے کہ ان سب حرکتوں کا مقصد تائیوان کو نفسیاتی طور پر ڈرانے کے علاوہ اس کی جنگی صلاحیت کا پتا لگانا بھی تھا۔

گزشتہ مارچ میں سمندر میں مچھلی پکڑنے والے جہازوں کا ایک بڑا بیڑہ فلپین کی بحری معاشی حدود میں داخل ہوگیا اور اب آٹھ مہینے کے بعد بھی تقریباً ایک سو پچاس مچھلی پکڑنے والے چینی جہاز فلپین کے سمندر میں موجود ہیں۔ فلپین نے اس دخل اندازی کی سخت مذمت کی تھی، لیکن ایک چھوٹا ملک ہونے کی وجہ سے وہ چین کے خلاف اس سے زیادہ کوئی کارروائی نہیں کرسکتا ہے۔ اور اسی طریقے سے چین دیگر چھوٹے علاقائی ممالک پر اپنی تاناشاہی قائم کرنے کی کوششوں میں لگاتار ملوث رہا ہے۔

غالباًSCSمیں چین کی بڑھتی ہوئی جارحیت کو موثر طور پر جواب دینے کے لیے ہی امریکہ نے حال ہی میں AUKUS کا اعلان کیا ہے۔ اس معاہدے کی وجہ سے اب امریکی جوہری آبدوز بآسانی SCSتک آسکیں گی اور اس کے علاوہ ان کو آسٹریلیا میں تعینات کرکے بھی چین کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ اس کی ہر دفاعی حرکت پر امریکہ کی نظر ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادی ملک SCSمیں چین کی کسی بھی دفاعی جارحیت کا بااثر جواب دے سکتے ہیں۔

SCSمیں چینی منصوبوں کے علاوہ جو دوسری چینی کوشش باعثِ تشویش ہے، وہ ہے عالمی پیمانے پر مختلف ممالک کی بندرگاہوں کو چینی ملکیت میں لانے کی کوشش۔اطلاعات کے مطابق آج کی تاریخ میں مختلف ممالک کے 95بندرہ گاہ چینی کمپنیوں کی ملکیت میں ہیں یا انھیں کاروباری طور پر چلانے کے لیے Management اور Logistics کے اختیارات چینی کمپنیوں کے پاس ہیں۔ ان 95 بندگارہوں میں سے 22یورپ میں، 20مشرقِ وسطیٰ میں 18امریکہ میں،18ایشیا میںاور 9افریقہ میں اور باقی شمالی امریکہ کے مختلف ملکوں میں ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر چینی کمپنیاں ان بندرگاہوں تک مال لانے اور لے جانے کے لیے ریل مال گاڑی کی سہولت بھی مہیا کراتی ہیں۔

ہمیں چینی کمپنیوں کی جانب سے ان بندرگاہوں کی ملکیت حاصل کرنے کو صرف کاروباری طور پر ہی نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ ہمیں اس کے دفاعی اور سیاسی پہلوؤں کا بھی تجزیہ کرنا چاہیے۔ چین نے جس حکمت عملی کے تحت یہ بندرگاہیں حاصل کی ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چین چاہتا ہے کہ اگر مستقبل میں بحری تجارت پر کوئی مشکل پیش آئے تو چین پر ان کا منفی اثر کم سے کم ہونا چاہیے۔ اگر مستقبل میں کوئی جنگ ہوتی ہے تو مشرقِ وسطیٰ سے آنے والے تیل اور گیس کی سپلائی کا منفی اثر چین پر نہیں پڑنا چاہیے۔ اس کے علاوہ جب چینی کمپنیوں کے پاس ان مختلف بندرگاہوں کے تنظیمی اختیارات آجائیں گے تو ان بندرگاہوں کا I.T. نظام بھی اس کی ملکیت میں ہوگا اور ایسے منظر نامہ میں ان بندرگاہوں پر امریکی بحریہ کے جہاز آنے سے گریز کریں گے کیونکہ ان کو یہ تشویش لاحق رہے گی کہ کہیں بندرگاہ چلانے والی کمپنی ان کی کمپیوٹر اور I.T. نظام سے چھیڑ خانی یا ان کی تفصیل حاصل کرنے، یا انھیں ہیک کرنے کی کوشش نہ کرےں۔ غالباً اسی وجہ سے امریکہ نے اسرائیل کو حایفہ بندرگاہ چینی کمپنیوں کو دےے جانے کی مخالفت کی تھی کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اب امریکی بحری جنگی جہاز حایفہ بندرگاہ پر لنگر انداز نہ ہوں۔

اس کے علاوہ جن قیمتوں پر چینی کمپنیوں نے ان بندگاہوں کو خریدا ہے یا بنانے کی پیش کش کی ہے یا ان کے مینجمنٹ کو حاصل کیا ہے وہ کاروباری پہلو سے گھاٹے کا سودا ثابت ہوسکتے ہیں۔ لیکن جن کمپنیوں نے انھیں خریدا ہے وہ یا تو چینی حکومت یا پھر چینی فوج کی ملکیت ہیں اور اسی وجہ سے ان کو ان بندرگاہوں سے مالی نقصان یا فائدہ ہونے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اور یہاں تصویر کا وہ رخ سامنے آتا ہے،جو کہ بہت ہی اہم ہے۔ چین نے جس طریقے سے مختلف ملکوں میں بندگاہیں خریدی ہیں وہاں فی الوقت تو کوئی فوجی موجودگی نظر نہیں آتی ہے لیکن وقتِ ضرورت چین ایک بندرگاہ سے دوسرے بندرگاہ تک اپنے جنگی جہاز بہت تیز سی روانہ اور تعینات کرسکتا ہے۔ جو کہ عالمی پیمانے پر کوئی دوسرا ملک نہیں کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی چند بندرگاہوں پر چین نے اپنے سپاہی تعینات کرنے کو بھی کاروباری معاہدے میں شامل کروا لیا ہے اور یہ سپاہی درحقیقت چینی فوجی بھی ہوسکتے ہیں۔

اس کے علاوہ سیاسی طور پر چین ان بندرگاہوں کے حصول کے ذرریعہ ان ملکوں کی حکومتوں کے ان سیاسی فیصلوں پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے جو اس کے خلاف جاتے ہوں۔ مثال کے طور پر گریس نے اقوامِ متحدہ میں یورپی یونین کی اس قرارداد کو روکنے کی کوشش کی جس میں چین کے حقوق انسانی کے ریکارڈ کی مذمت کی گئی تھی۔ اس سے قبل بھی گریس نے 2016میں SCSپر ICJکے فیصلے کی تائیدکرنے والی یورپی یونین کی قرار داد کو ناکام کرانے کی بھی کوشش کی تھی۔ اس مثال سے ظاہر ہے کہ وہ ملک جن کے بندرگاہ چینی کمپنیوں کی ملکیت میں جاچکے ہیں وہ اپنے معاشی فائدے کے لیے موقع آنے پر چین کی مدد کرسکتے ہیں۔

مجموعی طور پر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جس سازشی حکمت عملی سے چین نے اپنے Belt & Road Initiative کا بحری ماڈل تیار کیا ہے، اس کے ذریعہ وہ جلد ہی نہ صرف پوری دنیا کے حساس بندرگاہوں پر اپنا قبضہ جمانے میں کامیاب ہوجائے گا، بلکہ انھیں کے ذریعے وہ عالمی امن کے لیے بہت بڑا خطرہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔