ہند-پاکستان وقتی جنگ بندی درست لیکن مسئلے کا پائیدار حل ناگزیر...عبید اللہ ناصر

ہند-پاکستان کے درمیان حالیہ جنگ بندی وقتی ریلیف ضرور ہے، مگر مسئلہ کشمیر کا دیرپا حل نہ نکالا گیا تو ایٹمی ہمسایوں کے بیچ کشیدگی بار بار بھڑک سکتی ہے، جو خطرناک ہے

ہندوستان اور پاکستان کا جھنڈا 
ہندوستان اور پاکستان کا جھنڈا
user

عبیداللہ ناصر

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اس دعوے نے کہ انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کرائی ہے، ہندوستانی سیاست میں خاصا طوفان کھڑا کر دیا۔ ٹرمپ نے ابتدائی طور پر کہا کہ انہوں نے دونوں ملکوں کے سربراہوں کو یہ پیغام دے دیا تھا کہ اگر فوری جنگ بندی نہ کی گئی تو امریکہ ان کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کر دے گا۔ بعد میں انہوں نے اپنے بیان میں تبدیلی کرتے ہوئے کہا کہ اُنہوں نے صرف جنگ بندی میں ’مدد‘ کی تھی۔ ان کے مطابق، دونوں ملکوں کے درمیان حالات نہایت سنگین ہو چکے تھے، میزائل داغنے کی نوبت آ گئی تھی اور وہی تھے جنہوں نے دونوں کو جنگ کے بجائے تجارت کی راہ اختیار کرنے کی تلقین کی۔

یہ چاہے الفاظ کی ہیر پھیر ہو یا سیاسی سفارت کاری کا انداز، حقیقت یہی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان فوری جنگ کا خطرہ ٹل گیا اور اسے خوش آئند قرار دیا جانا چاہیے لیکن اس وقتی جنگ بندی سے مسئلہ حل نہیں ہوا۔ جب تک کشمیر جیسے بنیادی مسئلے کا دیرپا حل تلاش نہیں کیا جاتا، ایسے خطرناک حالات بار بار جنم لیتے رہیں گے، خصوصاً جب کہ دونوں ممالک ایٹمی طاقت کے حامل ہوں اور دونوں طرف مذہبی جنون اور قوم پرستی کا زہر بھی شامل ہو چکا ہو۔

جنگ نہ تو کوئی حل ہے اور نہ کبھی ہو سکتی ہے۔ یہ صرف موت، تباہی اور بربادی لاتی ہے اور اس کا فائدہ صرف حکمراں ٹولے، اسلحہ ساز کمپنیوں اور اُن کے دلالوں کو ہوتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر کا قول ہے کہ "جنگ کی سب سے بڑی تباہی کا احساس خود فوجیوں کو ہوتا ہے"، اس لیے ہر ہوشمند اور امن پسند شخص جنگ کی مخالفت اور جنگ بندی کی حمایت کرتا ہے۔

پاکستان میں لاہور کے ترقی پسند دانشوروں، شاعروں، صحافیوں اور سول سوسائٹی نے امن مارچ نکال کر جنگ کی مخالفت کی۔ اسی طرح امرتسر میں بھی لوک سنسکرت منچ نے جنگ مخالف مظاہرہ کیا۔ یہ شہری تحریکیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ دونوں ملکوں کی عوام امن چاہتی ہے، کشیدگی نہیں۔


صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ امریکی ثالثی میں رات بھر کی گفتگو کے بعد جنگ بندی ممکن ہوئی۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور نائب صدر جے ڈی وینس بھی اس عمل میں شامل رہے۔ نریندر مودی، وزیر خارجہ ایس جے شنکر، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال، جبکہ پاکستان کی طرف سے وزیر اعظم شہباز شریف اور فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر نے ان مذاکرات میں حصہ لیا۔ دونوں وزرائے اعظم کی دوراندیشی اور امن پسندی کی تعریف کی جانی چاہیے۔

تاہم، ہندوستان میں ایک بڑا طبقہ اس امریکی مداخلت پر ناخوش ہے۔ ان کے مطابق یہ قومی خودمختاری سے سمجھوتہ اور امریکہ کی بالا دستی قبول کرنے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کو یاد کیا جا رہا ہے، جنہوں نے 1971 کی جنگ میں نہ صرف پاکستان کو فیصلہ کن شکست دی بلکہ امریکہ کی دھمکیوں، حتیٰ کہ ساتویں بحری بیڑے کی مداخلت کی پرواہ بھی نہیں کی۔

حالانکہ سچ یہ ہے کہ کارگل جنگ، پلوامہ حملے اور سرجیکل اسٹرائیک کے بعد بھی دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کا خاتمہ بالآخر امریکی مداخلت سے ہی ممکن ہوا تھا۔ موجودہ صورت حال میں بھی ہندوستانی فوج کے سابق سربراہان جیسے جنرل وی پی ملک اور جنرل نروانے نے اچانک جنگ بندی پر حیرت کا اظہار کیا۔ ادھر، مودی بھکت ایک بار پھر کنفیوژن کا شکار ہیں۔ دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد کشمیری لڑکیوں سے شادی، زمین خریدنے کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ اب مقبوضہ کشمیر واپس لینے یا پاکستان کے ٹکڑے کرنے کے بیانات پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر مودی حکومت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔

شملہ سمجھوتے کے بعد سے دونوں ملکوں کے بیچ بہت کچھ بدل چکا ہے۔ اس وقت نہ پاکستان کی دہشت گردی پر مبنی پالیسی اتنی کھلی تھی، نہ کشمیر اتنا حساس تھا۔ اس کے باوجود اٹل بہاری واجپئی نے بس کے ذریعے لاہور جا کر امن کا پیغام دیا، جبکہ منموہن سنگھ نے بھی شملہ سمجھوتے کی روح کو کافی حد تک نبھایا لیکن نریندر مودی کے دور میں ہندوستان کی پالیسی یکسر بدل گئی۔ انہوں نے واضح کر دیا کہ لائن آف کنٹرول اب کوئی متبرک حد نہیں رہی اور دہشت گردی کے جواب میں پاکستان کے اندر گھس کر کارروائی کی جائے گی، جیسا کہ بالاکوٹ میں ہوا۔


پہلگام واقعے کے بعد جب کارروائی صرف مقبوضہ کشمیر میں محدود رہی تو پاکستان نے پونچھ پر حملہ کیا، جس کے جواب میں ہندوستان نے لاہور سمیت کئی پاکستانی شہروں میں ٹھکانوں پر حملے کیے۔ اس کے علاوہ پانی روکنے جیسے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ التوا میں ہے، بگلہار ڈیم سے کم پانی چھوڑا جا رہا ہے اور ہندوستان مزید ڈیموں کی تعمیر سے پاکستان کو ملنے والے پانی کو محدود کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ دفعہ 370 کے خاتمے اور جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت چھیننے کے فیصلے نے بھی یہ پیغام دے دیا ہے کہ اب کشمیر پر کوئی سودے بازی ممکن نہیں۔

حقیقت یہی ہے کہ ہندوستان، پاکستان یا کوئی بھی ملک ہو، امن اور استحکام کے بغیر ترقی اور خوشحالی ممکن نہیں۔ جنگیں صرف تباہی لاتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہندوستان میں سنگھ پریوار اور پاکستان میں فوج جیسے عناصر کبھی نہیں چاہیں گے کہ دونوں ممالک میں دوستی پنپے، کیونکہ یہ ان کے نظریاتی، سیاسی اور معاشی مفادات کے خلاف ہے۔ اس کے باوجود دونوں ممالک کی قیادت کو چاہیے کہ ہر ممکن کوشش کریں کہ امن کا راستہ نہ چھوٹے، کیونکہ یہی عوام کے مفاد میں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔