غار، جو تھوڑے ہی وقت میں غلامی کا احساس کرانے لگتے ہیں... میناکشی نٹراجن
پدرانہ نظام کی لکشمن ریکھا کے اندر موجود غار سے کوئی نکلا اور اس نے اپنی ایک دنیا تیار کی، تو وہ پسند نہیں آیا۔ آخر وہ تو صرف مرد کا علاقہ ہے۔ اسے اپنا علاقہ کھڑا کرنے کی اجازت ملنی نہیں چاہیے۔

غار، تصویر اے آئی
کرناٹک کے ’گوکرنا‘ میں ایک بیرون ملکی خاتون کا غار (Cave) میں اپنی بیٹیوں کے ساتھ رہنا کافی سرخیوں میں رہا۔ کئی سوال کھڑے ہوئے۔ وہ کیسے رہتے تھے؟ کیا کھاتے تھے؟ جنگل میں رہنا کتنا غیر مھفوظ تھا؟ کسی ملک میں معین وقت کے بعد رہنا قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ان کے ذاتی رشتے اور ذاتیات کو بہت اُچھالا گیا۔ اس سلسلے میں کوئی رائے قائم کرنا اِس مضمون کا مقصد نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ معاملے کی تہہ تک جانے سے کچھ نئی پیچیدگیاں سامنے آئیں گی۔
رہائشی غار نے کئی سوال کھڑے کیے۔ انتظام کے نام پر کھڑے کیے گئے غار ذہن میں ابھرنے لگے۔ اپنے غار کو پہچاننا مشکل ہوتا ہے، لیکن دوسروں کے غار بہ آسانی نظر آ جاتے ہیں۔ خاتون کا غار میں رہنا تمام نصب غاروں کو چیلنج پیش کر گیا۔ ترقی کا نظریہ، جس میں ماحولیات اور شہری سماج دو مختلف خاکوں کی شکل میں قائم ہوئے ہیں۔ جہاں یہ یاد نہیں رہا کہ انسان اس فطرت کا اٹوٹ حصہ اور اسی کا عنصر ہے۔ انسان ماحولیات کا حصہ بن کر زندگی گزار سکتا ہے۔ ماحولیات اس کی درس گاہ ہو سکتی ہے۔ وہ انسانی انقلاب (دھیرے دھیرے ہونے والی تبدیلی) کے چند ہزار سال چھوڑ کر ایسے ہی رہا ہے۔ کیا زراعت اور صنعتی انقلاب کے ذریعہ دیا گیا نام نہاد جدید ترقیاتی نظام کسی غار سے کم تاریک، تنگ نہیں؟ پھر اس ترقی یافتہ غار سے پیدا حالات کون سے کم تاریک ہیں؟
کسی نظریہ کو بغیر سوال اٹھائے مانتے جانا روایتی دقیانوسی ہے۔ گزشتہ کتنی ہی صدی سے ہم نے مغربی دنیا میں چند سو سال قبل ہوئے صنعتی انقلاب سے پیدا طرز زندگی کو سوالوں سے پرے مان لیا۔ یہ بھی سائنسی نظریہ نہیں۔ کسی فلسفہ کی اندھی تقلید تمام مذہبی اندھی تقلید کے مانند ہے۔ وہ بھی غار ہے۔
خاتون نے نکل کر شہری سماج کے غاروں کو پہچانا۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے ہمیں ان کے غار دکھائی پڑے۔ چونکہ ان کی طرز زندگی میں بہت سے غاروں کا برعکس اور کھلی بغاوت نظر آئی، تو غار کے محافظ بیدار ہونے لگے۔ ان غاروں کے بغیر ان کا کنٹرول جاتا رہے گا۔ بازار، انتظامیہ، پولیس، کرنسی، نیشن-اسٹیٹ، فوج-سرحد سب کو پس پشت ڈال کر کوئی کیسے رہ سکتا ہے؟ ایسا سب کرنے لگیں گے تو پھر کیا ہوگا؟ کنٹرول کی صلاحیت پر مبنی تمام انتظامات کی عمارتیں منہدم ہونے لگیں گی۔
خاص طور پر تب، جب دنیا بھر میں پونجی، حکومت اور مذہبی پیشوائی کی درجہ بندی اپنا گٹھ جوڑ بنا کر حکومت کرنا چاہتی ہوں۔ وہاں عوامی عقیدہ، عوامی رابطہ اور لین دین، عوامی حکومت کی چھوٹی شمع دکھائی پڑ جائے تو غار مالکان کو سمجھ جانا چاہیے۔ بھلے ہی وہ کوشش بہت سلجھی، با معنی، مثبت نہ لگے، تب بھی اس سے سوچی سمجھی مثبت، متبادل ڈھانچہ کھڑا ہونے کا امکان تو بنتا ہے۔ آخر ہر مثبت نظریاتی نظام کی شروعات کسی بے ربط جنون سے ہوتی ہے۔
حیرانی ہے کہ متبادل، ذاتی غیر ملکی کرپٹو کرنسی، الحاد، سرحدوں کے پار جوڑتے انٹرنیٹ اور انسانی خواہش کے ہم منصب ابھرتی مصنوعی صلاحیت کو اتنی مستعدی سے کچلنے کی کوشش نہیں ہوئی۔ شاید اس لیے کہ وہ موجودہ غاروں میں سما سکتی ہے، یا ان کا نیا ایڈیشن بن سکتا ہے۔ یہ پونجی بازار کے دَم پر مناسب ہو سکتا ہے۔ جیسے پونجی بازار کے دَم پر ہی قبائلی گاؤں کھدیڑے جاتے ہیں۔ قبائلیت کو باقی نظاموں سے کچلنے کی کوشش ہوتی ہے۔ اس پونجی وادی بازاری کنٹرول کے بغیر انسانوں کا بساہٹ بہت بڑا خطرہ ہے۔ تمام بغاوتوں کی جانچ کریں تو بیشتر کی بنیاد میں بازاری انقلاب ہے۔ بازار پر قابض، ریاستی ذرائع اس کو چلاتے ہیں۔ اس لیے انھیں یہ برداشت نہیں۔
اس کا بہت امکان ہے کہ اس نام نہاد معاملہ میں نفسیاتی حالت رہی ہو۔ لیکن نظام کے رد عمل میں بھی کوئی انسانی فکر، ہمدردی وغیرہ دکھائی نہیں پڑی۔ سرکاری عمل پورا کرنے اور جانچ کی صدائیں ضروری تھیں، تاکہ غار کا قاعدہ ختم نہ ہو جائے۔ تب یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ کیا کسی خاتون کا غار میں رہ کر زندگی گزارنا پدرانہ نظام کو ناگوار گزرا۔ پدرانہ نظام کی لکشمن ریکھا کے اندر موجود غار سے کوئی نکلا اور اس نے اپنی ایک دنیا تیار کی، تو وہ پسند نہیں آیا۔ آخر وہ تو صرف مرد کا علاقہ ہے۔ اسے اپنا علاقہ کھڑا کرنے کی اجازت ملنی نہیں چاہیے۔
مشہور و معروف فلسفی پلوٹو کا ’غار کا فلسفہ‘ یاد ہو آیا۔ جہاں پورا کنبہ غار میں رہتا تھا۔ غار میں پڑتی روشنی سے جو سایے بنتے تھے، اسی کو دنیا سمجھتا تھا۔ شاید سچائی بھی۔ پھر کسی نے ہمت کر کے باہر جانا طے کیا۔ تب غار سے باہر نکلنا مشکل تھا۔ غار کی عادی آنکھوں کو کچھ اور دیکھنے عادت نہیں رہ گئی تھی۔ وہ اسی سے دنیا بھی دیکھنے لگا۔ لیکن پھر دھیرے دھیرے تبدیلی ہوئی۔ بہت کچھ دکھائی پڑنے لگا۔ جب وہ واپس لوٹا تو لوٹنا اپنے آپ میں مشکل تھا۔ اپنے ساتھیوں کو یقین دلانا کہ سایہ سے پار کچھ ہے، انتہائی مشکل کام تھا۔ ان کو باہر نکالنا تقریباً ناممکن۔ یہاں تک کہ خود کا باہر از سر نو نکلنا بھی تکلیف دہ تھا۔ غاریں ایسی ہی ہوتی ہیں کہ تھوڑے وقت میں غلامی کا احساس کرانے لگتی ہیں۔ کسی اور کے غار سے اپنا غار شاید نظر بھی آ جائے، لیکن غار میں بیٹھے رہنے سے وہ نظڑ بھی نہیں آتا۔
برسوں پہلے سیپینس غاروں سے نکل کر چل پڑے۔ تب کہیں جانے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ لیکن کیا سیپینس کا کام بغیر غار کے نہیں چل سکتا تھا؟ کیا تبھی کچھ نئے غار بنا ڈالے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔