یوپی میں مدارس کا سروے، آسام میں بلڈوزر، کیا ایسے قائم ہوگا مسلمانوں کے ساتھ بھروسہ... فرقان قمر کا مضمون

یوپی حکومت نے سبھی غیر امداد یافتہ اور غیر سرکاری مدارس کے سروے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ پتہ لگایا جا سکے کہ ان میں حقوق اطفال کے لیے ضروری بنیادی سہولیات ہیں یا نہیں۔

مدرسہ (علامتی تصویر)
مدرسہ (علامتی تصویر)
user

قومی آوازبیورو

ان دنوں مدارس مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ آسام میں دہشت گرد تنظیموں سے رشتوں کے نام پر کچھ مدارس کو منہدم کر دیا گیا۔ آفیشیل طور پر یہ کہا گیا کہ بنیاد کمزور ہونے کی وجہ سے ان کی عمارت محفوظ نہیں تھی۔ لیکن مدرسہ چلانے والوں سمیت بیشتر مسلمانوں کا ماننا ہے کہ اس کا اصلی مقصد مسلمانوں کا حوصلہ پست کرنا ہے اور انھیں یہ سمجھا دینا ہے کہ اب آئین سے ملے حقوق اور سیکورٹی کو وہ ایسے ہی نہیں لے سکتے۔

اتر پردیش نے ریاست کے سبھی غیر امداد یافتہ اور غیر سرکاری مدارس کے سروے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ پتہ لگایا جا سکے کہ ان میں حقوق اطفال کے لیے ضروری بنیادی سہولیات ہیں یا نہیں۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ اس کا مقصد نئے مدارس کو امداد نہیں دینا اور پرانے مدارس کو پیسے دینے میں تاخیر کرنا ہے۔ اس لیے امید نہیں کہ اس سروے کے بعد خامیاں نکلتی ہیں، انھیں درست کرنے کے لیے کوئی معاشی مدد ملنے جا رہی ہے۔ الٹا ڈر ہے کہ ان خامیوں کا استعمال انھیں پریشان کرنے کے لیے کیا جائے گا جس سے انھیں مجبوراً مدارس کو بند کرنا پڑے۔


غیر منظور شدہ اور غیر امداد یافتہ مدارس عام طور پر مسلم طبقہ سے ملے چھوٹے موٹے تعاون سے چلتے ہیں۔ اس کے لیے بھی لوگ اکثر پیسے نہیں بلکہ سامان دیتے ہیں، مثلاً کھانا کھلانے کے لیے اناج، تعمیر کے لیے اینٹ وغیرہ۔ یہی وجہ ہےکہ اس طرح جمع وسائل سے جب بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جاتا ہے، تو وہ آدھا ادھورا ہوتا ہے۔ لیکن یہ حالت تو ملک میں چل رہے تمام سرکاری اسکولوں کی بھی ہے۔

مدارس کو حکومت اپنے ماتحت کر لے، اس پر مسلمانوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر کے پاس چھپانے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ انھیں خوف تو اس بات کا ہے کہ سروے کے بہانے ان کے داخلی معاملوں میں مداخلت کیا جائے گا اور اس سے ان پر نگرانی بھی رکھی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مدارس بڑے ہونے کے بعد بھی خود کو رجسٹر نہیں کراتے۔ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ کو یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ مسلمانوں کی تعلیم پر توجہ مرکوز کرنے کی جگہ حکومت مدرسہ ماڈرنائزیشن میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہی ہے!


نیشنل کونسل فار ایپلائیڈ اکونومک ریسرچ (این سی اے ای آر) نے 2006 میں بتایا تھا کہ بمشکل 4 فیصد طلبا مدارس میں پڑھتے ہیں۔ این سی اے ای آر کے اعداد و شمار میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ 19-7 سال کی عمر کے صرف2.3 فیصد مسلم بچے مدارس میں پڑھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تقریباً 40 فیصد مسلم طلبا اسکولی تعلیم پوری کرنے سے پہلے ہی پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر مدارس پر توجہ کیوں دیں، مسلمانوں کی تعلیم پر کیوں نہیں؟

روادار مسلمانوں سمیت ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ مانتا ہے کہ مدارس سے نکلنے والے طلبا ایسے نہیں ہونے چاہئیں کہ وہ روزگار پانے کے قابل ہی نہ ہوں۔ مدارس کو مین اسٹریم میں اس لیے لایا جانا چاہیے کہ وہ اپنے طلبا کو ہم عصر دنیا کے مطالبہ کے مطابق ہنر سے مزین کر سکیں۔ تاریخی طور سے بیشتر مدارس کسی ایک عالم کے ارد گرد مرکوز ہوتے تھے۔ صنعتی انقلاب کے بعد وہ دانشوروں اور طلبا کی رہائش کی شکل میں تیرا ہوئے ارو ان میں مذہب، فلسفہ، دلائل، سائنس، علاج و معالجہ، سائنس، قانون سمیت مختلف موضوعات کی تعلیم دی جانے لگی۔

حالانکہ مدارس سے امید کی جاتی ہے کہ وہ مذہبی تعلیم پر توجہ دیں جس سے بچوں کو قرآن کو سیکھنے، پڑھنے، یاد رکھنے اور سمجھنے میں مدد ملے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے مدرس اکثر صبح یا شام کو کچھ گھنٹوں کے لیے ہی چلتے ہیں تاکہ اسکول جانے والے بچے بھی یہاں جا کر مذہب کی باتیں سیکھ سکیں۔ ایسے گنتی کے اساتذہ ہوتے ہیں جو بچوں کو قرآن اور حدیثوں کے بارے میں اتنی باریکی سے جانکاری دے سکیں کہ وہ انھیں سمجھ سکیں، اس کی تشریح کر سکیں، اپنے طلبا کو خطبہ کے لیے تیار کر سکیں اور مسلمانوں کو ان کے مذہب پر صحیح طریقے سے عمل کرنے میں مدد کر سکیں۔ ان میں سے کچھ صلاح اور حکم بھی دیتے ہیں جنھیں مذہبی معاملوں پر ’فتویٰ‘ کی شکل میں جانا جاتا ہے۔

یہ سب ہندوستانی آئین کے مطابق ہوتا ہے جو مذہبی اقلیتوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اپنے علم، روایت اور ثقافت کو محفوظ رکھنے اور انھیں فروغ دینے کا حق دیتا ہے۔

ڈیگو گیمبیٹا اور اسٹیفن ہارٹوگ نے اپنی کتاب ’انجینئرس آف جہاد: دی کیوریس کنکشن وتھ ایکسٹریمزم اینڈ ایجوکیشن‘ میں پایا کہ جہادیوں میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کا پس منظر انجینئرنگ تھا۔ پھر بھی دنیا کے کسی بھی ملک نے انجینئرنگ کالجوں کو جانچ کے دائرےمیں نہیں رکھا کیونکہ ایسا کرنا پاگل پن ہی کہلاتا۔ اس لیے مدارس کو توڑنے سے فوراً تو سیاسی مفاد حاصل ہو سکتے ہیں، لیکن اس سے پڑے عدم اعتماد کے بیج طویل مدت میں بدامنی ہی پیدا کریں گے۔ بغیر سوچے سمجھے اس طرح کے قدم طویل مدت میں تباہناک ہی ہوں گے۔

کوئی بھی شخص یا ادارہ قانون سے اوپر نہیں لیکن صرف اندیشہ کی بنیاد پر اداروں کو جانچ کے دائرے میں رکھنا یا مناسب طریقہ کار پر عمل کیے بغیر ان کے خلاف سزا کی کارروائی کرنے سے کوئی مقصد پورا نہیں ہونے جا رہا، سوائے اس کے کہ طبقہ کی شکل میں مسلمان الگ تھلگ ہو جائیں۔

(فرقان قمر پلاننگ کمیشن کے سابق مشیر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ہیں، ان کا یہ مضمون نوجیون انڈیا ڈاٹ کام پر ہندی میں شائع ہوا جس کا اردو ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */