کیا مسلمان بابری مسجد کو فراموش کر سکتے ہیں؟

مسلمانوں نے ایودھیا کے ہندووں کے لیے متبرک ہونے پر کبھی اعتراض نہیں کیا لیکن کیا 500 سال کے انتظار کی بات ٹھیک ہے؟ کیا اسی کا انتظار تھا کہ بابری مسجد کو منہدم کر کے اسی مقام پر رام مندر تعمیر ہوگا

ایودھیا کی بابری مسجد / تصویر آئی اے این ایس
ایودھیا کی بابری مسجد / تصویر آئی اے این ایس
user

سہیل انجم

جوں جوں 22 جنوری کی تاریخ قریب آ رہی ہے رام مندر کے افتتاح اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں رام کی مورتی کے پران پرتشٹھا کا معاملہ موضوع بحث بنتا جا رہا ہے۔ ہندو مذہب کے چاروں شنکرآچاریوں نے مندر کی تعمیر مکمل ہونے اور اس کلش تیار ہونے سے قبل ہی اس کے افتتاح کو ہندو مذہب اور دھرم شاستروں کے خلاف قرار دیا ہے۔ انھوں نے اس تقریب میں شرکت سے انکار کیا ہے۔ انھوں نے بہت سی باتیں کہی ہیں جن کی بنیاد پر وہ پران پرتشٹھا کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انھوں نے اسے مذہبی نہیں بلکہ سیاسی معاملہ قرار دیا ہے۔ لیکن آر ایس ایس اور وزیر اعظم مودی اس کے افتتاح پر بضد ہیں۔ انھوں نے تادم تحریر اپنے پروگرام میں کسی تبدیلی کا اعلان نہیں کیا ہے۔ بلکہ وزیر اعظم نے ایک وائس میسیج میں یہ کہہ کر کہ وہ دھارمک لوگوں کی ہدایت کے مطابق گیارہ دن کی خصوصی پوجا کر رہے ہیں، اس بات کا عندیہ دے دیا ہے کہ وہ اس معاملے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

اسی درمیان کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے، سابق صدر سونیا گاندھی اور پارلیمانی قائد ادھیر رنجن چودھری نے اس تقریب میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے جس پر بی جے پی چراغ پا ہے۔ وہ ان لوگوں کو رام مخالف اور سناتن مخالف قرار دے رہی ہے۔ لیکن وہ چاروں شنکر آچاریوں کی عدم شرکت پر خاموش ہے۔ وہ ان کو دھرم کا مخالف قرار دینے کی ہمت نہیں جٹا پا رہی ہے۔ بلکہ وہ ان کے بیانات و اعتراضات پر لب کشائی کی ہمت ہی نہیں کر پا رہی ہے۔ بی جے پی کی طرح گودی میڈیا بھی اس معاملے پر چپی سادھے ہے۔ البتہ وہ بھی کانگریسی لیڈروں کو رام اور ہندو مخالف قرار دینے کی بی جے پی کی مہم میں شامل ہے۔


خیر یہ ان لوگوں کا آپسی معاملہ ہے۔ وہ سب ایک ہی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کا فیصلہ کرنے کا حق ان کو ہی ہے کہ کیا دھرم کے مطابق ہے اور کیا نہیں ہے۔ لیکن اس معاملے میں مسلمانوں کو گھسیٹنا انتہائی افسوسناک ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ کی یہ اپیل کہ مسلمان اس روز مسجدوں، مدرسوں، درگاہوں اور مکتبوں میں جے شری رام کا جاپ کریں مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت ہے۔ مسلمان کیوں اس کا جاپ کریں۔ کیا یہ ان کے مذہب کا کوئی حصہ یا ان کی کوئی مذہبی رسم ہے۔ ایک طرف تو مسلمانوں کی مسجد کو عدالت کے سہارے چھین لیا گیا اور دوسری طرف ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ مسجد کی زمین پر تعمیر ہونے والے مندر کے افتتاح میں شامل ہوں۔

کچھ ماڈرن مسلمانوں کی جانب سے بھی اس سلسلے میں ایسی باتیں کہی جا رہی ہیں جو کسی بھی طرح صحیح نہیں ہیں۔ ایک نیوز ویب سائٹ ”دی پرنٹ“ میں پانچ جنوری کو صحافی، کالم نگار اور ٹی وی پرزنٹیٹر آمنہ بیگم کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے کئی بے بنیاد باتیں کہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایودھیا میں رام کی واپسی کی راہ پانچ سو سال سے دیکھی جا رہی تھی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہندوؤں کے لیے ایودھیا اتنا ہی متبرک ہے جتنا کہ مسلمانوں کے لیے مکہ اور مدینہ اور عیسائیوں کے لیے ویٹی کن۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ بیس کروڑ مسلمان بابری مسجد سے آگے نکل گئے ہیں۔ انھوں نے اسد الدین اویسی جیسے لیڈروں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بھی بابری مسجد سے آگے بڑھ جائیں۔ ان کا یہ مشورہ اویسی کے اس بیان کے تناظر میں ہے کہ ہم بابری مسجد کو بھلا نہیں سکتے۔


پہلی بات تو یہ کہ مسلمانوں نے اس پر کبھی اعتراض نہیں کیا کہ ایودھیا ہندووں کے لیے متبرک ہے۔ لیکن پانچ سو سال سے جس انتظار کی بات وہ کر رہی ہیں وہ ٹھیک ہے۔ لوگ انتظار کر رہے تھے۔ لیکن کیا اسی کا انتظار ہو رہا تھا کہ بابدی مسجد کو منہدم کر کے اسی مقام پر رام مندر تعمیر کیا جائے۔ ہم اسد الدین اویسی کی سیاست سے بالکل متفق نہیں ہیں۔ ان کی سیاست یقیناً بی جے پی کی سیاسی فصل کے لیے کھاد پانی کا کام کرتی ہے لیکن ہم ان کی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ بابری مسجد کا زخم مندمل ہونے والا نہیں ہے اور مسلمان بابری مسجد کے انہدام کو فراموش نہیں کر سکتے۔

مضمون نگار کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ بیس کروڑ مسلمان بابری مسجد سے آگے نکل چکے ہیں۔ عدالت کا سہارا لے کر جس طرح بابری مسجد کی جگہ کو چھینا گیا مسلمانوں نے اسے عدالتی احترام میں خاموشی سے برداشت کر لیا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بابری مسجد سے آگے نکل چکے ہیں۔ مسلمانوں نے بابری مسجد کو فراموش کیا ہے نہ ہی کریں گے۔ کیونکہ اگر یہ صرف زمین کی ملکیت کا معاملہ ہوتا تو مسلمان اس کی کئی گنا زیادہ جگہ دے سکتے تھے۔ لیکن دراصل رام مندر کی پوری تحریک مسلمانوں کو نیچا دکھانے، انھیں ہندووں کے دشمن کے طور پر پیش کرنے اور ان کے مذہبی عقیدے پر کاری ضرب لگانے کے مقصد سے چلائی گئی۔


انھوں نے اپنے مضمون میں یہ بھی لکھا ہے کہ بابری مسجد زمین کے نیچے پڑے ایک ڈھانچے کے اوپر بنی تھی اور صدیوں سے ’نان آپریشنل‘ تھی یعنی اس میں نماز نہیں ہو رہی تھی۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ کچھ ہندووں نے 1949 کے دسمبر کی ایک رات میں چپکے سے رام کی مورتی رکھ دی اور جب نماز فجر ادا کرنے مسلمان وہاں پہنچے تو انھوں نے وہاں مورتی دیکھی۔ اس وقت تک اس میں نماز ادا ہو رہی تھی یعنی دسمبر1949 تک۔ پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ صدیوں سے نان آپریشنل تھی۔ یہ بات بھی تاریخی اعتبار سے غلط ہے کہ بابری مسجد کسی ڈھانچے پر یا کسی مندر کو توڑ کر تعمیر کی گئی تھی۔ جب 2019 میں سپریم کورٹ نے اس معاملے کا فیصلہ سنایا تو اس نے واضح طور پر کہا کہ بابری مسجد کے نیچے کسی بھی مندر کے نشانات نہیں پائے گئے یا کسی مندر کا ملبہ نہیں پایا گیا اور نہ ہی اس کا کوئی ثبوت ملا کہ مندر کو توڑ کر مسجد کی تعمیر ہوئی تھی۔

مضمون نگار نے ایک ماہر آثار قدیمہ کے کے محمد کے حوالے سے کہا ہے کہ کھدائی کے دوران ہندو مندر کا وجود پایا گیا تھا۔ حالانکہ دیگر بہت سے تاریخ دانوں اور آثار قدیم کے ماہرین نے کہا ہے کہ مسجد کے نیچے کسی مندر کا کوئی وجود نہیں ملا ہے۔ مضمون نگار نے ایسے تاریخ دانوں پر الزام عاید کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ مضمون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسلام کے مطابق کسی متنازع مقام پر تعمیر کردہ مسجد اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ کسی متنازع مقام پر مسجد کی تعمیر نہیں ہونی چاہیے۔ مسجد کے لیے صاف ستھری جگہ ہونی چاہیے اور اس میں صاف ستھراپیسہ لگنا چاہیے۔ مسجد کی تعمیر میں غلط پیسے کے استعمال کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن پہلے یہ تو ثابت ہو کہ بابری مسجد کسی مندر کی جگہ پربنی تھی۔ اس کا کیا ثبوت ہے جیسا کہ بی جے پی اوروی ایچ پی دعویٰ کر رہی ہیں کہ منبر ہی کی جگہ پر رام کی پیدائش ہوئی تھی۔ انھیں کیسے معلوم ہوا کہ جہاں رام جی پیدا ہوئے تھے اسی مقام پر مسجد کا منبر تعمیر کیا گیا۔ یہ سب ایک فرضی پروپیگنڈہ ہے جس کا کوئی تاریخی یا مذہبی ثبوت نہیں۔ بابری مسجد کا تنازع دراصل انگریزوں کا پیدا کردہ ہے۔


مضمون میں 1991 میں ممبئی میں ہونے والے بم دھاکوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ کسی بھی مسلمان نے ان دھماکوں کی حمایت نہیں کی۔ آج بھی کوئی مسلمان ان کی حمایت نہیں کر رہا ہے۔ ان دھماکوں میں جانوں کے اتلاف پر ہمیں بھی بہت دکھ ہے۔ کسی بے قصور کی جان کسی بھی قیمت پر نہیں لینی چاہے۔ لیکن اس کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے کہ یہ غلط اور انسانیت سوز واقعہ کیوں پیش آیا۔ بابری مسجد انہدام کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والے مسلم کش فسادات کا بھی ذکر ہونا چاہیے۔ ان فسادات میں کس طرح انتظامیہ نے شرپسندوں کا ساتھ دیا اس پر بھی گفتگو ہونی چاہیے۔ ممبئی میں ہونے والے فسادات کی جانچ کرنے والے سری کرشنا کمیشن رپورٹ اور دوسرے فسادات کی رپورٹوں کو کیوں دبا دیا گیا۔ ان پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ اس پر بھی گفتگو ہونی چاہیے۔ فسادات کی حمایت کوئی بھی انصاف پسند شخص نہیں کرتا۔ لیکن فسادات کی وجوہات کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ایودھیا تحریک کے نتیجے میں متعدد فسادات ہوئے۔ آڈوانی کی رتھ یاترا جہاں جہاں سے گزری تھی تقریباً ان تمام مقامات پر فسادات ہوئے تھے۔ ان فسادات کی وجہ سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی کھائی بڑھتی چلی گئی۔ ب نفرت کی خلیج کو اور چوڑا کیا جا رہا ہے۔ یہ نفرتی ماحول نہ ہندووں کے حق میں ہے نہ مسلمانوں کے۔ یہ ماحول پورے ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ مسلمانوں نے ایودھیا تنازعے میں دیے جانے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کو محض اس لیے تسلیم کر لیا کہ کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس کی بنیاد پر ملک میں دنگا فساد ہو۔ کس طرح فیصلے سے قبل مسلمانوں کو یہ سمجھایا جاتا رہا کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ اسے مانیں گے۔ یعنی ایک منصوبے کے تحت فیصلہ کروایا گیا۔ لیکن مسلمانوں کی خاموشی کو یہ مفہوم نہیں پہنایا جا سکتا کہ بیس کروڑ مسلمان بابری مسجد سے آگے نکل گئے ہیں۔ مسلمانوں نے بابری مسجد کو فراموش کیا ہے اور نہ ہی کبھی کریں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔