ضمنی انتخاب کا پیغام: 2024 میں بی جے پی کو ٹھکانے لگایا جا سکتا ہے

اپوزیشن کی 28 جماعتوں پر مشتمل اتحاد انڈیا کے قیام کے بعد یہ پہلا انتخاب تھا اور نہ صرف ہندوستان کے عوام اور ذرائع ابلاغ کے نمائندے بلکہ عالمی ذرائع ابلاغ بھی اس پر نگاہ جمائے ہوئے تھے

<div class="paragraphs"><p>تصویر ایکس / @SamajwadiParty</p></div>

تصویر ایکس / @SamajwadiParty

user

سہیل انجم

گزشتہ دنوں چھ ریاستوں میں سات حلقوں پر ہونے الے ضمنی انتخابات کے نتائج نے ایک بات صاف کر دی ہے کہ اگر اپوزیشن کے اتحاد انڈیا اور بی جے پی کے اتحاد این ڈی کے درمیان براہ راست ٹکر ہو تو این ڈی اے ہوا ہو جائے گا۔ اس صورت میں ایسی زوردار آندھی چلے گی کہ این ڈی اے کے امیدوار خشک پتوں کے مانند اڑ کر جانے کہاں چلے جائیں گے۔ ویسے انڈیا اتحاد میں نشستوں کی تقسیم کا عمل شروع ہونے والا ہے۔ اگر عقلمندی کا مظاہرہ کیا گیا اور اپنی اناؤں اور مفادات کی قربانی دیتے ہوئے صرف اور صرف ملکی مفاد کو سامنے رکھا گیا تو یہ مرحلہ بخیر و خوبی سر ہو سکتا ہے۔ اور اگر ایسا ہوا یعنی این ڈی اے کے ہر امیدوار کے سامنے انڈیا کا صرف ایک ہی امیدوار میدان میں رہا تو پھر 2024 میں تیسری بار وزیر اعظم بننے کا نریندر مودی کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔

اپوزیشن کی 28 جماعتوں پر مشتمل اتحاد انڈیا کے قیام کے بعد یہ پہلا انتخاب تھا اور سب کی نگاہیں اس پر مرکوز تھیں۔ نہ صرف ہندوستان کے عوام اور ذرائع ابلاغ کے نمائندے بلکہ عالمی ذرائع ابلاغ بھی اس پر نگاہ جمائے ہوئے تھے۔ لیکن ایسی صورت میں جبکہ سات میں سے چار حلقوں پر انڈیا کی فتح ہوئی ہے اور این ڈی اے کی صرف تین پر، ہندوستان کا گودی میڈیا خاموش ہو گیا ہے۔ ورنہ اگر نتیجہ اس کے برعکس ہوتا تو گودی میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہوتااور چیخ چیخ کر کہتا کہ مودی جی کا جادو اب بھی برقرار ہے۔ انڈیا اتحاد لاکھ کوشش کرلے وہ ان کو نہیں ہرا سکتا۔ لیکن اب گودی میڈیا بھی خاموش ہے اور بی جے پی کے بڑبولے ترجمانوں کی بھی زبانیں گنگ ہیں۔

یوں تو تمام حلقے اہم تھے مگر ریاست اترپردیش کے حلقہ گھوسی کا چناؤ بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ اترپردیش بی جے پی کا گڑھ بن چکا ہے۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ہندو مسلم سیاست نے عوام کو تقسیم کر دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سخت گیر ہندوؤں میں مودی سے زیادہ یوگی مقبول ہیں۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف زہرافشانی کرنے میں وہ مودی کو مات دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوری ریاست پر ان کی گرفت ہے۔ اس کے علاوہ گھوسی میں درجنوں وزرا، ایم پی، ایم ایل اے اور چھوٹے بڑے لیڈران نے ڈیرہ ڈال رکھا تھا۔ ادھر ایسے الزامات ہیں کہ انتظامیہ نے عوام کو ڈرایا دھمکایا تھا۔ پولنگ کے روز بعض مقامات پر مسلمانوں کو ووٹ نہیں ڈالنے دیا گیا۔ اس کے باوجود بی جے پی کے دارا سنگھ چوہان سماجوادی کے سدھاکر سنگھ سے تقریباً پچیس ہزار ووٹوں سے ہار گئے۔ حالانکہ بی جے پی کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ دارا سنگھ چوہان پچاس ہزار ووٹوں سے جیتیں گے۔

دارا سنگھ چوہان پہلے بی جے پی میں تھے۔ اس سے قبل وہ یوگی حکومت میں وزیر تھے۔ لیکن پھر وہ سماجوادی پارٹی میں چلے گئے تھے اور گھوسی سے کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن گزشتہ سال انھوں نے سماجوادی سے پھر چھلانگ لگائی اور بی جے پی میں پہنچ گئے۔ ان کے اس سیٹ سے استعفیٰ دینے کی وجہ سے ہی وہاں الیکشن کرانا پڑا تھا۔ لیکن گھوسی کے عوام نے ان کو اچھا سبق سکھایا۔ دراصل وہاں انڈیا اتحاد کی جانب سے صرف سماجوادی کے سدھاکر سنگھ ہی لڑ رہے تھے۔ باقی کسی اور پارٹی نے اپنا امیدوار نہیں اتارا تھا۔ لہٰذا اس جیت کو انڈیا اتحاد کی جیت قرار دیا جا رہا ہے۔


بی ایس پی کی صدر مایاوتی نے گھوسی میں اپنے حامیوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ الیکشن میں کسی بھی امیدوار کی حمایت نہ کریں۔ بلکہ وہ نوٹا کا بٹن دبائیں یعنی ان میں سے ہمیں کوئی منظور نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایسا انھوں نے اس لیے کیا تاکہ بی جے پی کا امیدوار جیت جائے۔ وہ بی جے پی امیدوار کے حق میں کھل کر اعلان تو نہیں کر سکتی تھیں۔ اس لیے انھوں نے بائی پاس کا راستہ اختیار کیا۔ لیکن نتائج بتا رہے ہیں کہ ان کی ہدایت کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ بہت سے دلتوں نے بھی سماجوادی پارٹی کے امیدوار کے حق میں ووٹ پول کیا۔ تجزیہ کار اس سے یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ مایاوتی کی سیاست اب اپنا اثر کھوتی چلی جا رہی ہے۔

انڈیا اتحاد کے لیے دوسری اہم جیت جھارکھنڈ کی ڈمری سیٹ پر ہوئی ہے۔ وہاں سے جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) کی بیبی دیوی نے 71 ہزار سے زائد ووٹوں سے بی جے پی کی حلیف پارٹی اے جے ایس یو کی امیدوار یشودا دیوی کو شکست دی ہے۔ یسودا دیوی پورے این ڈی اے کی امیدوار تھیں۔ گویا کہ گھوسی کی سیٹ کی طرح ڈمری کی سیٹ پر بھی انڈیا اتحاد کا مقابلہ این ڈی اے سے تھا۔ دونوں جگہ انڈیا اتحاد نے بازی مار لی۔گھوسی کی طرح جھارکھنڈ کی جیت بھی کافی اہمیت کی حامل تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست کی جے ایم ایم حکومت کو ای ڈی وغیرہ نے بہت پریشان کیا۔ وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کے خلاف کارروائی کی گئی۔ ان کو نوٹس جاری کیے گئے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان کی پارٹی کو توڑنے کی بھی کوشش کی گئی۔ لیکن اس میں کامیابی نہیں ملی اور اب ضمنی انتخاب کا نتیجہ یہ گواہی دے رہا ہے کہ آپریشن کمل ہر جگہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔

ویسے تو یہ کہا جا رہا ہے کہ انڈیا اتحاد کو چار نشستیں ملی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انڈیا صرف دو پر ہی لڑ رہا تھا باقی دو پر اس اتحاد کی پارٹیوں کو کامیابی ملی ہے۔ ان میں ایک سیٹ مغربی بنگال کے دھپگری کی تھی جہاں ٹی ایم سی کے امیدوار کو کامیابی ملی ہے۔ اس کے امیدوار نرمل چندرا رائے نے بی جے پی کے امیدوار تپاسی رائے کو نو ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی ہے۔ حالانکہ اس سیٹ پر انڈیا اتحاد میں شامل سی پی آئی (ایم) کا امیدوار بھی میدان میں تھا اور اسے کانگریس کی حمایت حاصل تھی۔ اس کے باوجود ٹی ایم سی کے امیدوار کو کامیابی ملی ہے جو کہ بڑی بات ہے۔

مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے اس جیت کو انڈیا اتحاد کی ہی جیت قرار دیا ہے۔ ممتا بنرجی اور ان کی پارٹی کے لیے یہ جیت اہم ہے۔ کیونکہ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے مغربی بنگال میں بی جے پی کی کوششیں بری طرح ناکام ہیں۔ جس سیٹ پر مقابلہ ہوا تھا وہ بی جے پی کی تھی۔ لیکن ٹی ایم سی نے اسے بی جے پی سے چھین لیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی اپنی سابقہ تاریخ دوہرانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔


انڈیا اتحاد کی چوتھی جیت کیرالہ میں ہوئی ہے۔ یہاں کانگریس کا امیدوار کامیاب ہوا ہے۔ یہ سیٹ سابق وزیر اعلیٰ اومن چانڈی کی موت سے خالی ہوئی تھی۔ کانگریس نے ان کے بیٹے چانڈی اومن کو امیدوار بنایا تھا اور انھوں نے 73 ہزار سے زائد ووٹوں سے سی پی آئی (ایم) کے امیدوار جائک سی تھامس کو پُتھوپلّی کی سیٹ پر شکست دی ہے۔ اس جیت نے کیرالہ میں کانگریس کی ساکھ کو مضبوط کیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس سیٹ کو کیرالا کے وزیراعلیٰ پنرئی وجین نے اپنی حکومت کے لیے ایک ریفرنڈم بنا لیا تھا اور جم کر انتخابی مہم چلائی تھی۔ اس جیت سے کانگریسی لیڈر راہل گاندھی بھی کیرالا میں مضبوط ہوں گے اور اس کے اثرات کیرالا کے اسمبلی و پارلیمانی الیکشن پر بھی مرتب ہوں گے۔

بی جے پی کو جن سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے ان میں تری پورہ کی دو سیٹیں اور اتراکھنڈ کی ایک سیٹ شامل ہے۔ اتراکھنڈ میں باگیشور کی سیٹ پر بی جے پی کی پاروتی داس نے دو ہزار ووٹوں سے کانگریسی امیدوار بسنت کمار کو شکست دی ہے۔ حالانکہ یہاں سماجوادی پارٹی کا امیدوار بھی میدان میں تھا۔ اگر وہ نہ ہوتا تو کانگریس کی جیت یقینی تھی۔

جبکہ تری پورہ کی ایک سیٹ بکسانگر پر بی جے پی کے مسلم امیدوار تفضل حسین نے تیس ہزار سے زائد ووٹوں سے سی پی آئی (ایم) کے میزان حسین کو شکست دی ہے اور دھان پور سیٹ پر بی جے پی کے بندو دیب ناتھ نے سی پی آئی (ایم) کے کوشک چندے کو 81 ہزار سے زائد ووٹوں سے ہرایا ہے۔ان حلقوں میں مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا جس کے نتیجے میں اسے کامیابی ملی ہے۔ لیکن کیا بی جے پی اس بات کو سمجھے گی اور مسلمانوں کے ساتھ اپنے رویے میں کوئی تبدیلی لائے گی۔

بہرحال ان نتائج نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر اپوزیشن کے اتحاد انڈیا میں شامل جماعتوں نے سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا اور پارلیمانی انتخابات میں این ڈی اے کے ایک کے مقابلے میں اپنا صرف ایک امیدوار اتارا تو مرکز سے بی جے پی حکومت کا صفایا کیا جا سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔