بی ایل او خودکشی کر رہے اور الیکشن کمیشن کو سب ٹھیک نظر آ رہا
رقص کرتے بی ایل او کی ویڈیو کی بنیاد پر الیکشن کمیشن کا یہ پیغام دینا کہ ایس آئی آر کا عمل بغیر رخنہ چل رہا ہے، سفید جھوٹ ہے۔

بی ایل او (بوتھ لیول آفیسر) کے رقص کرتے ہوئے جشن منانے والی ویڈیو اور ایس آئی آر ڈیوٹی میں ’سست روی‘ اختیار کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر کی دھمکی دینے کے 2 سروں کے درمیان ایک سنگین شبہ کو عام طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ وہ سنگین شبہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے بی ایل او کا انتخاب کس طرح کیا، انھیں کیسی ٹریننگ دی؟
الیکشن کمیشن کا دعویٰ ہے کہ اس نے 29 اکتوبر سے 3 نومبر 2025 کے درمیان 4 دنوں میں اتر پردیش میں بی ایل او اور سپروائزر کو ’ٹریننگ‘ دی ہے۔ لیکن موہت چودھری اور فردوس سمیت بڑی تعداد میں بی ایل او کا کہنا ہے کہ انہیں ایک منٹ کی بھی ٹریننگ نہیں ملی۔ موہت چودھری میرٹھ میں محکمہ آبپاشی میں کام کرتے ہیں اور انہیں بی ایل او کے طور پر تعینات کیا گیا۔ 2 دسمبر کو انہوں نے جراثیم کش دوا کھا کر خودکشی کی کوشش کی۔ ان کی بیوی جيوتی نے بتایا کہ ان کے شوہر کئی دنوں سے پریشان تھے۔ انہوں نے بیوی کو بتایا تھا کہ وہ اس کام کو لے کر گھبرائے ہوئے ہیں اور اس کے لیے خود کو تیار نہیں کر پا رہے۔
خیر، ووٹر ان سے امید کرتے تھے کہ وہی ان کے فارم بھر دیں اور ادھورے فارم تک قبول کر لیں۔ ان کے سپروائزر ان سے امید کرتے تھے کہ وہ بغیر غلطی کے فارم اپلوڈ کریں گے۔ انہیں ڈر تھا کہ یا تو انہیں معطل کر دیا جائے گا یا ان کی ملازمت چلی جائے گی۔ اسی تناؤ میں انہوں نے خودکشی کی کوشش کی۔ موہت خوش قسمت تھے کہ جیوتی انہیں فوراً ’لوک پریا اسپتال‘ لے گئیں اور ان کی جان بچ گئی۔
اتر پردیش کے ہی گونڈا کے ایک بی ایل او وپن یادو اتنے خوش قسمت نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے آخری لمحات کی ایک ویڈیو تیار کی۔ وپن نے اپنے سالے پرتیک کو بتایا تھا کہ ایس ڈی ایم، لیکھ پال اور بی ڈی او ان پر او بی سی اور دلتوں کے نام ہٹانے کا دباؤ بنا رہے تھے۔ موہت چودھری کی طرح وہ بھی خود کو بڑی الجھن میں پا رہے تھے۔ اگر منع کیا تو ’سسٹم‘ کے ان کے پیچھے پڑ جانے کا خطرہ، اور اگر بات مان لی تو انہیں اپنی ’غلطی‘ کے لیے ووٹروں کے غصے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
میرٹھ کی ایک بی ایل او فردوس سے جب ہم 25 نومبر کو ملے تو وہ خاصی پریشان لگ رہی تھیں۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ انہیں کوئی ٹریننگ نہیں ملی۔ جب انہوں نے اپنی قابلیت پر شبہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پتہ نہیں وہ بی ایل او کا کام کر بھی پائیں گی یا نہیں، تو ان سے کہا گیا کہ وہ منع نہیں کر سکتیں۔ انہوں نے ہم سے کہا کہ ’’دیکھیے، شام کے 4 بج چکے ہیں اور میں اب تک صرف 2 اینومریشن فارم اپلوڈ کر پائی ہوں۔‘‘ فردوس نے کمپیوٹر کبھی نہیں چلایا۔ ان کے گھر میں بھی کسی کے پاس کمپیوٹر نہیں ہے۔ اس لیے انہیں کمپیوٹر سے بہت ڈر لگتا ہے۔ ساتھ ہی انہیں اس کام کے لیے ایک بھی روپیہ نہیں ملا، پھر بھی وہ ہمت سے ڈٹی رہیں۔ انہیں ڈر تھا کہ کہیں اس کی وجہ سے آنگن واڑی کارکن کے طور پر انہیں مل رہے 7,500 روپے بھی ہاتھ سے نکل نہ جائیں۔
فردوس نے نازنین سے مدد مانگی، جنہیں پہلے کے انتخابات میں بی ایل او کے طور پر کام کرنے کا تجربہ ہے۔ دونوں اپنے موبائل فون پر فارم اپلوڈ کرنے میں مشکل محسوس کر رہی تھیں۔ نازنین نے بتایا کہ اگر سرور کام کرتا ہے اور سگنل اچھا رہتا ہے، تو ایک فارم اپلوڈ کرنے میں 5 منٹ لگتے ہیں۔ فردوس کہتی ہیں کہ انہیں تو 10 منٹ لگ جاتے ہیں۔ اس رفتار سے ایک دن میں 100 فارم اپ لوڈ کرنے میں لگاتار 16 گھنٹے کام کرنا پڑے گا!
اتر پردیش سے لے کر گجرات اور مغربی بنگال تک ایسی ہی باتیں سننے میں آ رہی ہیں۔ زیادہ تر آنگن واڑی کارکن، معاون نرس مڈوائف (اے این ایم) اور آشا ورکر، جنہیں بی ایل او کے طور پر مقرر کیا گیا ہے، انہیں ٹریننگ اور معلومات کی کمی کی وجہ سے تکنیکی دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کئی لوگ ڈاکیومنٹ اسکین اور اپلوڈ نہیں کر سکتے۔ اسکول ٹیچر بھی ایسے ہی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن کی مانیں، تو کامیاب ایس آئی آر کے راستے میں یہ کوئی رکاوٹ نہیں۔
جس جلدبازی میں یہ کام ہو رہا ہے، اس سے لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ رہی ہے کہ شاید الیکشن کمیشن چاہتا ہی ہے کہ بی ایل او غلطی کریں، انہیں ’غلطیوں‘ کے لیے قصوروار ٹھہرا کر سزا دی جا سکے، اور پھر الیکشن کمیشن کے افسر ان ’غلطیوں کو ٹھیک‘ کریں۔ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ایسے ’کریکشن‘ اصل میں ڈیلیٹ ہی ہوں گے۔
کیرالہ میں بریک ٹائم میں رقص کرتے بی ایل او کی ویڈیو تنہا ثبوت نہیں جسے الیکشن کمیشن یہ بتانے کو پیش کر رہا ہے کہ ایس آئی آر کا کام کتنا صحیح طریقے سے چل رہا ہے۔ 2 دسمبر 2025 کو الیکشن کمیشن نے پریس نوٹ جاری کر کے دعویٰ کیا کہ تقریباً 46 کروڑ فارم، یعنی 90 فیصد سے زیادہ ’ڈیجیٹائز‘ کیے جا چکے ہیں اور جن 12 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں میں یہ کام چل رہا ہے، وہاں کے 99.78 فیصد ووٹرس کو ان کے اینومریشن فارم دے دیے گئے ہیں۔ پریس نوٹ میں سبھی ریاستوں کی تفصیل بھی دی گئی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ مغربی بنگال نے 97.38 فیصد فارم، مدھیہ پردیش نے 95.69 فیصد فارم، تمل ناڈو نے 94.32 فیصد فارم اور گجرات نے 91.45 فیصد فارم ڈیجیٹائز کر دیے ہیں۔ بلاشبہ اتر پردیش 79 فیصد فارم ڈیجیٹائز کر کے پیچھے چل رہا ہے۔
یہ اعداد و شمار کئی سوال کھڑے کرتے ہیں۔ اگر مغربی بنگال میں سب اتنا ہی اچھا چل رہا ہے، تو ڈیڈ لائن 4 دسمبر سے بڑھا کر 11 دسمبر کیوں کی گئی؟ ان بی ایل او کا کیا جنہوں نے ’دھیمے کام‘ پر ڈانٹ پھٹکار کی وجہ سے خودکشی کر لی؟ مغربی بنگال سے بنگلہ دیشی مسلمانوں کی مبینہ ہجرت اور کئی سرحدی ضلعوں سے بستی کی بستی خالی ہو جانے کو جس طرح پھیلایا گیا، اس کا کیا؟ الیکشن کمیشن جو اعداد و شمار پیش کر رہا ہے، وہ زمینی حقیقت سے میل نہیں کھاتے۔
کئی خامیاں اور بھی ہیں۔ بی ایل او ایپ، جسے علاقائی زبانوں میں جاری کیا گیا، وہ صرف انگریزی اور ہندی میں ہی ٹھیک کام کرتا ہے۔ کم از کم اسے استعمال کرنے والے بی ایل او تو ایسا ہی کہتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی کم زیادہ ہوتی اسپیڈ اور سرور کا کام نہ کرنا عام شکایتیں ہیں۔ بی ایل او کو فارم اپلوڈ کرنے سے پہلے انہیں اسکین کرنا ہوتا ہے، لیکن بہت سے لوگ اسمارٹ فون کے استعمال کے بارے میں نہیں جانتے، اس لیے یہ ایک مزید مسئلہ ہے۔
گجرات کے بھاونگر کی ٹیچر مایا بین کہتی ہیں کہ ان کے پاس بی ایل او کے طور پر کام شروع کرنے کا ’آرڈر‘ اچانک آ گیا۔ ان کی راتوں کی نیند حرام ہو گئی ہے۔ ان کا پورا دن لوگوں کے فارم بھرنے اور اپلوڈ کرنے کی کبھی نہ ختم ہونے والی لائن میں ختم ہو جاتا ہے۔ بیشتر لوگ چاہتے ہیں کہ وہی فارم بھر دیں۔ مایا نے ہمیں بتایا کہ گجرات میں ڈیوٹی پر بی ایل او کے بے ہوش ہو کر گر جانے یا خودکشی کی کئی خبروں کے بعد گجرات حکومت نے فارم اپلوڈ کرنے کے لیے آپریٹرس کو رکھا۔ مغربی بنگال میں چیف الیکشن آفیسر نے ایک سال کے ٹھیکے پر ڈاٹا اینٹری آپریٹرز کے لیے درخواستیں منگوائیں۔ یہ بھی ایس آئی آر ختم ہونے سے چند دن پہلے۔
ووٹر لسٹ کے سالانہ ’سمری ریویژن‘ کے برعکس جب بی ایل او پولنگ بوتھ پر بیٹھ کر نام جوڑنے اور ہٹانے کے لیے فارم لیتے ہیں، تو ایس آئی آر گھر گھر بھاگنے کا میراتھن بن جاتا ہے۔ بی ایل او کو ہر گھر جانا ہوتا ہے، 03-2002 کے اصول کی بنیاد پر پہلے سے شائع اینومریشن فارم دینے ہوتے ہیں، رسید کی کاربن کاپی دینی ہوتی ہے اور پھر سب کچھ بی ایل او ایپ پر اپلوڈ کرنا ہوتا ہے۔ ووٹر اکثر گھر پر نہیں ہوتے، جس کا مطلب ہے کہ بی ایل او کو بار بار جانا پڑے گا۔ ایسے میں حیرانی نہیں کہ اتنے سارے بی ایل او ہمت ہار جا رہے ہیں۔
میٹروپولیٹن شہروں کے علاوہ بی ایل او کو میونسپل کارپوریشن کے گھٹیا انتظام کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ میرٹھ کے شہری علاقے میں بھی گھروں پر منمانے نمبر لکھے ہیں۔ مقامی رہائشی مہندر شرما بتاتے ہیں کہ مکان نمبر 1,500 کے بغل میں مکان نمبر 1,200 ہے اور اس کے بغل میں مکان نمبر 900 ہے۔ شاید ایسا انجانے میں ہوا ہے، لیکن اس سے اس بات کا اندازہ لگ جاتا ہے کہ فارم تقسیم کرنے اور جمع کرنے میں اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے۔
مغربی بنگال میں جب 70 سال کے سُبھاش چندر رائے کو ان کے تیسرے بیٹے کے لیے فارم دیا گیا تو ان کے ساتھ ساتھ بی ایل او بھی حیران رہ گیا، کیونکہ رائے کا کوئی ’تیسرا بیٹا‘ ہے ہی نہیں۔ بی ایل او نے زور دیا کہ فارم میں صاف طور پر انہیں والد بتایا گیا ہے۔ اس بات سے ناراض بزرگ نے تلخ آواز میں کہا کہ وہ سمجھ کیوں نہیں رہے کہ ان کا ایسا کوئی بیٹا ہے ہی نہیں؟
2002-03 کی ووٹر لسٹ میں ایسی تمام خامیاں رہ گئی تھیں جنہیں تب ٹھیک نہیں کیا گیا اور اس وجہ سے ایس آئی آر کا کام اور پیچیدہ ہو گیا۔ کہیں سسر کو شوہر تو کہیں شوہر کو والد دکھایا گیا ہے۔ اس بات کی بہت کم امید ہے کہ انہیں طے شدہ مدت کے اندر ٹھیک کرنا ممکن ہو سکے گا، جس سے بی ایل او کے لیے پریشانیاں مزید بڑھ گئی ہیں۔
میرٹھ کے مہندر شرما بی ایل او کی دقتوں سے ہمدردی رکھتے نظر آئے۔ وہ کہتے ہیں کہ فارم کنفیوزنگ ہیں۔ کس ’رشتہ دار‘ کا نام لکھنا ہے؟ والد، دادا یا شوہر؟ بی ایل او کو سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کریں۔ کچھ فارم میں مقرر کیے گئے بی ایل او کے نام اور فون نمبر غلط لکھے ہوتے ہیں۔ ایک سیاسی پارٹی کے بوتھ لیول ایجنٹ کے طور پر کام کرنے والے شرما بتاتے ہیں کہ انہوں نے وضاحت کے لیے اشوک کمار نام کے ایک شخص کو فون کیا تو کال 20 کلومیٹر دور موانا میں رہنے والے سندیپ نام کے شخص نے اٹھایا۔ دوسرے فارم میں بی ایل او کے طور پر ایک خاتون کا نام تھا لیکن فون نمبر اس کے شوہر کا تھا۔
اتر پردیش کے سابق وزیر تعلیم اور 4 بار کے رکن اسمبلی شاہد منظور کا اندازہ ہے کہ 5-4 فیصد سے زیادہ بی ایل او ٹیکنیکل چیزوں کی جانکاری نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو بی ایل او منتخب کرتے وقت اور انہیں ضروری ٹریننگ دیتے وقت زیادہ محنت کرنی چاہیے تھی۔ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو انسانوں اور جانوروں کی گنتی اور مڈ ڈے میل سے لے کر بی ایل او تک، ہر کام میں استعمال کرنے کی پالیسی کی تنقید کرتے ہوئے منظور اتر پردیش میں بی ایل او کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر کے سیلاب پر افسوس ظاہر کرتے ہیں۔ منظور کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریوں سے بچ رہا ہے اور بی ایل او کو ’بلی کا بکرا‘ بنا رہا ہے۔
کئی جگہوں پر بی ایل او کے نروس بریک ڈاؤن کی خبروں کے درمیان سپروائزر بغیر کسی دیگر حادثہ کے فنش لائن تک پہنچنے کے لیے بے چین ہیں۔ اتر پردیش کے بہیڑی کے ایک سپروائزر مکیش سنگھ کشواہا اپنے بی ایل او سے کہتے ہیں کہ ’زہر مت کھا لینا‘، اور ضرورت پڑنے پر ان کی مدد کرنے کی پیشکش کرتے ہیں۔ سبھی سپروائزر اتنے ہمدرد نہیں ہوتے۔
کیا اسے رواں، معمول کے مطابق اور بغیر کسی رخنہ کے انجام پانے والا عمل کہا جا سکتا ہے؟ ایس آئی آر کیسے ہو رہا ہے، اس پر الیکشن کمیشن کا موقف قبول کرنا کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا۔