ذات پر مبنی مردم شماری پر حکومت کتنی سنجیدہ ہے؟

لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی خراب کارکردگی نے پارٹی کو اپنے نظریے پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر دیا۔ اپوزیشن نے عوام کو سمجھایا کہ اگر بی جے پی کو اکثریت ملی تو تحفظات کی ضمانت خطرے میں پڑ سکتی ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>
i
user

ہرجندر

یہ ایک اچانک لیا گیا یو ٹرن ہے۔ مرکزی حکومت نے اگلی مردم شماری میں ذاتوں کی بھی گنتی کا جو فیصلہ کیا ہے، اس سے جتنے جواب ملے ہیں، اس سے کہیں زیادہ سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ مردم شماری کی نہ تو تاریخ دی گئی ہے اور نہ ہی اس کے لیے بجٹ میں کوئی خاطر خواہ بندوبست کیا گیا ہے۔ 2021 کی مردم شماری کے لیے حکومت نے 8254 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا تھا لیکن وبا کے باعث وہ عمل مکمل نہیں ہو سکا۔ اس بار کے بجٹ میں وزارت داخلہ کے تحت آنے والے مردم شماری کے شعبے کے لیے صرف 574 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جو ہر اعتبار سے ناکافی ہیں۔ اندازہ ہے کہ اگلی مردم شماری کے لیے زیادہ وسائل اور وقت درکار ہوگا۔ 2021 کی مردم شماری دس ماہ میں مکمل ہونی تھی۔

- بی جے پی نے ذات پر مبنی مردم شماری پر اپنا مؤقف کیوں بدلا؟

بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی ابھی کچھ عرصہ پہلے تک ذات پر مبنی مردم شماری کی سخت مخالفت کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے ہندو اتحاد میں دراڑ پڑے گی۔ مودی نے اس مطالبے کو 'اربن نکسل ذہنیت' قرار دیا تھا اور اسے ایک ایسا 'گناہ' کہا تھا جو متحدہ ہندوستان کے نظریے کو توڑنے والا ہے۔ 2021 میں تو حکومت نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ دے کر کہا تھا کہ درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے سوا دیگر ذاتوں کی مردم شماری اس کی پالیسی کے خلاف ہے۔ بی جے پی کے نعرے جیسے 'بٹیں گے تو کٹیں گے' خاص طور پر کانگریس اور دیگر علاقائی جماعتوں کی ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کے خلاف بنائے گئے تھے۔

بی جے پی کے مؤقف میں تبدیلی کی اصل وجہ سیاسی دباؤ اور انتخابی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ چونکہ بہار میں انتخابات چند مہینے دور ہیں، اس لیے انتخابی حقیقت پسندی سب سے اہم بن گئی ہے۔ ایک ایسے صوبے میں جہاں ذات کی شناخت لوگوں کی سیاسی زندگی میں گہرائی تک پیوست ہے، ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ بی جے پی کے لیے چیلنج بن گیا تھا۔


پچھلے لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کی خراب کارکردگی، خاص طور پر اتر پردیش میں، بھی اس مؤقف پر دوبارہ غور کی ایک اہم وجہ بنی۔ حزب اختلاف عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی کہ اگر بی جے پی کو دوبارہ اکثریت ملی تو انہیں ریزرویشن کے حق سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔ اسی دباؤ کی وجہ سے بی جے پی کو اپنے نظریاتی مؤقف میں تبدیلی لانا پڑی۔

- کیا مردم شماری شروع کرنے کی کوئی تاریخ طے کی گئی ہے؟ حکومت نے کہا ہے کہ وہ ذات پر مبنی مردم شماری کرائے گی تاکہ حقائق کی بنیاد پر پالیسیاں بنائی جا سکیں؟

ابھی تک ذات پر مبنی مردم شماری کی کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے۔ اطلاعات و نشریات کے وزیر اشونی ویشنو نے صرف اتنا کہا ہے کہ اگلی مردم شماری میں ذات کا بھی اندراج ہوگا۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اتنا بڑا عمل 2026 کے آخر یا 2027 کے آغاز سے پہلے شروع نہیں ہو سکے گا۔ مردم شماری کا پہلا مرحلہ اس سال شروع ہو سکتا ہے جو اگلے سال تک مکمل ہوگا۔ ذات پر مبنی مردم شماری اس کے بعد، آبادی کی عمومی گنتی کے ساتھ دوسرے مرحلے میں ہوگی، جس میں بھی چھ سے آٹھ مہینے لگ سکتے ہیں۔

تفصیلات فراہم نہ کیے جانے پر حکومت کو تنقید کا سامنا بھی ہے۔ تمل ناڈو کے چدمبرم سے رکن پارلیمان تھول تھروامبلم نے اس تاخیر پر سوال اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب دانستہ طور پر کیا جا رہا ہے تاکہ بہار جیسے اہم انتخابی ریاست کے انتخابات گزر جائیں۔

- کیا حکومت نے ایسا کوئی وعدہ کیا ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری کے ساتھ ہی سماجی و اقتصادی درجہ بندی بھی کی جائے گی تاکہ عدلیہ اور مخصوص پالیسی سازی ممکن ہو سکے؟

اگرچہ حکومت نے اگلی مردم شماری میں ذات کی گنتی کی اجازت دی ہے لیکن اس کے ساتھ سماجی و اقتصادی درجہ بندی کو شامل کرنے کا ابھی تک کوئی وعدہ نہیں کیا ہے۔ حکومتی پریس ریلیز میں عوام کو سماجی و اقتصادی طور پر مستحکم کرنے کا وعدہ ضرور کیا گیا ہے، لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ اس کا ڈیٹا بھی جمع کیا جائے گا۔ 2011 کی سماجی اقتصادی اور ذات پر مبنی مردم شماری اس کا ابتدائی ماڈل بن سکتی ہے۔

- تلنگانہ ماڈل کیا ہے جسے قومی سطح پر اپنانے کی حمایت کانگریس کر رہی ہے؟

تلنگانہ کی ذات پر مبنی مردم شماری کا خاکہ شہری معاشرتی تنظیموں، سماجیات کے ماہرین، کمیونٹی کے رہنماؤں اور مختلف سماجی پس منظر کے نمائندوں سے مشورہ کرنے کے بعد تیار کیا گیا تھا۔ اس سے یہ بات یقینی بنانے میں مدد ملی کہ سروے کے سوالات مقامی حقائق اور سماجی پیچیدگیوں کے مطابق ہوں۔ سروے میں 57 بنیادی سوالات تھے، 18 ضمنی سوالات تھے اور ہر گھر کے 74 نکاتی تفصیلات درج کی جانی تھیں۔ ان میں تعلیم، پیشہ، اقتصادی تفصیلات سے لے کر سیاسی شرکت اور ذات کی شناخت تک کی تفصیلات شامل تھیں۔ یہ اب تک ہندوستان میں کیا گیا سب سے وسیع اور مفید سروے تھا۔


پورے عمل کو شفاف اور شراکت داری والا بنایا گیا، جس میں لوگ معلومات فراہم کر سکتے تھے اور ان کا جائزہ بھی لے سکتے تھے۔ سیاسی مداخلت کو کم کر کے اور ڈیٹا کی صداقت کے لیے اسے وسیع سطح پر قبول کیا گیا۔ اس صداقت اور درستگی کے لیے کانگریس کے رہنماؤں کو کریڈٹ دیا جانا چاہیے۔ تجزیے کا کام ماہرین کو دینے سے بھی اس کی ساکھ اور افادیت میں اضافہ ہوا۔

راہل گاندھی اور ملکارجن کھڑگے سمیت کانگریس کے اہم رہنماؤں نے تلنگانہ ماڈل کو ایک مثالی ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے کی بیوروکریسی اور محدود نظرئیے کے برعکس، اس کا وسیع اور شفاف طریقہ زیادہ مفید ہے۔ کانگریس نے مرکزی حکومت سے تلنگانہ ماڈل کو اپنانے کا مطالبہ کیا ہے، ساتھ ہی یہ بھی درخواست کی ہے کہ نئے اعداد و شمار کی بنیاد پر آئین میں ترمیم کے ذریعے ریزرویشن کی حد کو 50 فیصد سے بڑھایا جائے تاکہ مردم شماری کا مقصد تقسیم کے بجائے سماجی و اقتصادی انصاف کی تکمیل ہو سکے۔

- کیا ذات کی مردم شماری کے لیے عوامی سطح پر ایک متفقہ آگاہی ہے؟

اپوزیشن کے رہنماؤں راہل گاندھی اور ملکارجن کھڑگے سمیت سماجی انصاف کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ایسی مردم شماری سے مخصوص فلاحی پروگرامز اور مناسب ریزرویشن پالیسیوں کی تشکیل ممکن ہو سکے گی۔ بہار اور تلنگانہ کے ذات سروے سے جو عدم مساوات سامنے آئی ہے، وہ بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کی پونم متریجہ بھی عدم برابری کو سمجھنے اور جامع ترقی کے لیے ذات کے ڈیٹا کو اہم مانتی ہیں۔

دوسری طرف تنقید کرنے والے، جن میں سے کئی بی جے پی کے اندر بھی ہیں، خبردار کرتے ہیں کہ ذات کی مردم شماری سے سماجی تقسیم بڑھے گی، ریزرویشن بڑھانے کا مطالبہ کیا جائے گا اور انتظامیہ کو چلانا مشکل ہو جائے گا۔ مرکزی وزیر چراغ پاسوان جیسے کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ ذات کا ڈیٹا شائع ہونے سے لوگوں کی ذاتی معلومات افزا ہو سکتی ہیں، جس سے معاشرتی تقسیم بھی ہو سکتی ہے۔ حکومت کا فیصلہ بتا رہا ہے کہ اس کے لیے سیاسی دباؤ بڑھ رہا ہے لیکن اس پر کوئی قومی عام اتفاق رائے نہیں بن سکا ہے۔

- کیا دیگر پسماندہ طبقات کی درجہ بندی میں ریاستوں کو آزادی دی جائے گی؟

ماہرین اور سماجی کارکنوں کا خیال ہے کہ ایک شفاف طریقے سے معیار ذات کی فہرست بنانا ضروری ہے تاکہ درست اعداد و شمار حاصل کیے جا سکیں اور سیاسی ہیرا پھیری کے امکانات ختم ہو سکیں۔ اصل مسئلہ مرکزی اور ریاستی فہرستوں میں او بی سی کی درجہ بندی کی پیچیدگیاں ہیں۔ قومی پچھڑا طبقہ کمیشن نے 2650 پسماندہ ذاتوں کی فہرست تیار کی ہے جو ریزرویشن کے اہل ہیں۔ دوسری طرف ہر ریاست کی ایک ایسی فہرست ہے جو مقامی حقیقتوں پر مبنی ہے۔ اس سے مردم شماری میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ مردم شماری مرکزی فہرست کی بنیاد پر ہوگی یا اس میں ریاستوں کی فہرستیں بھی شامل کی جائیں گی۔


- ڈیٹا کی تصدیق کیسے ہوگی؟ کیسے یہ یقینی بنایا جائے گا کہ ڈیٹا کا غلط استعمال نہ ہو؟

مردم شماری پورٹل پر لوگ نیشنل پاپولیشن رجسٹر میں درج فون نمبر کی مدد سے لاگ ان کر کے تفصیلات درج کر سکیں گے۔ تصدیق کے لیے رجسٹرار جنرل آف انڈیا کا دفتر آدھار اور او ٹی پی کے ذریعے غلط معلومات کے خطرے کو کم کر سکتا ہے۔ ہر گھر کا سروے کیا جائے گا اور موبائل ایپ کے ذریعے ہونے والے اس سروے میں بھی تصدیق کی جا سکتی ہے۔

اسمارٹ فون کی محدود تعداد اور انٹرنیٹ کنکشن کی دستیابی نہ ہونے کی وجہ سے خاص طور پر دیہی علاقوں اور پسماندہ طبقات کے لیے مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ ممکن ہے کچھ لوگوں کی معلومات درج نہ کی جا سکیں۔ اس سے مردم شماری کے عملے پر انحصار بڑھے گا اور غلطیوں کا امکان بھی ہوگا۔ ثقافتی حساسیت کی وجہ سے کچھ لوگ صحیح معلومات دینے سے گریز کر سکتے ہیں، جس کے لیے مردم شماری کے عملے کی تربیت بہت ضروری ہے۔

معیاری او بی سی فہرست کی کمی کی وجہ سے درجہ بندی اور پیچیدہ ہو سکتی ہے، جبکہ سیاسی دباؤ سے ڈیٹا کی تشریح بگڑ بھی سکتی ہے۔ ایسی تشویشیں 2011 کی سماجی و اقتصادی اور ذات کی مردم شماری کے بعد بھی سامنے آئی تھیں جس کا ڈیٹا عوامی نہیں کیا گیا تھا۔

مردم شماری کے قانون میں پرائیویسی کے لیے سخت دفعات ہیں، عدالت بھی کسی کا مردم شماری کا ڈیٹا حاصل نہیں کر سکتی۔ خلاف ورزی پر سخت سزاؤں کا بھی بندوبست ہے۔ اس کے باوجود، پچھلے تجربات جیسے آدھار کا ڈیٹا لیک ہونے کے بعد سائبر سیکیورٹی بڑھانے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔

لوگوں کا اعتماد برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس عمل میں شہری معاشرتی تنظیموں کو شامل کیا جائے۔ ڈیٹا کے غلط استعمال کے بارے میں انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن نے بعض تشویشات ظاہر کی ہیں۔ ان کو شفاف طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔ یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ مردم شماری کا ڈیٹا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ پورے عمل کے دوران ساکھ اور جواب دہی برقرار رکھی جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔