بی جے پی کا مجوزہ ’نیا کرناٹک‘ یا منافرت کی تربیت گاہ؟... سراج نقوی

اسے کیا کہیے کہ بی جے پی قیادت کے لیے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا، ہندو اور مسلمانوں میں فاصلے پیدا کر کے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانا ہی سب سے بڑی مردانگی ہے!

<div class="paragraphs"><p>امت شاہ / یو این آئی</p></div>

امت شاہ / یو این آئی

user

سراج نقوی

سپریم کورٹ لاکھ یہ کہے کہ منافرت پر مبنی بیانات سماج کے لیے زہر ہیں۔ بھلے ہی عدالت عظمیٰ ’ہیٹ اسپیچ‘ یعنی منافرت پر مبنی بیانات پر قدغن لگانے میں ناکام حکمرانوں کو ’نامرد‘ قرار دے لیکن اسے کیا کہیے کہ بی جے پی قیادت کے لیے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا، ہندو اور مسلمانوں میں فاصلے پیدا کر کے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانا ہی سب سے بڑی مردانگی ہے!

کرناٹک میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے بی جے پی لیڈر اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے جس ’نئے کرناٹک‘ کا انتخابی وعدہ ریاست کے ووٹروں سے کیا اس میں نیا پن تو کچھ نہیں البتّہ اگر ریاست میں دوبارہ بی جے پی اقتدار میں آ گئی تو کرناٹک کو گجرات کی طرز پر منافرت کی تربیت گاہ ضرور بنا دیا جائے گا۔ بیلگاوی ضلع کی ایک انتخابی ریلی میں تقریر کرتے ہوئے امت شاہ نے کہا ’’اگر کانگریس کی حکومت بنتی ہے تو ریاست کی ترقی ریورس گئیر میں چلی جائے گی۔ کنبہ پرستی کی سیاست نقطۂ عروج پر ہوگی اور کرناٹک فسادات سے متاثر ہوگا۔‘‘ اپنی تقریر میں شاہ نے مزید کہا ’’کانگریس صرف تشٹی کرن کی سیاست کرے گی اور صرف بی جے پی ہی ریاست کو نیا کرناٹک بنا سکتی ہے۔‘‘

سپریم کورٹ کے حکم نامے کو درکنار کرتے ہوئے امت شاہ مسلسل مسلمانوں کے خلاف اپنی ریلیوں میں نہ صرف زہر اگل رہے ہیں بلکہ ریاست کے مسلمانوں کو او بی سی کوٹے سے دیا جانے والا چار فیصد ریزرویشن ختم کرنے کی بات کہہ کر غیر مسلم او بی سی کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے اور اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ حالانکہ چند روز قبل ہی اس معاملے پر سپریم کورٹ میں داخل مفاد عامہ کی ایک عرضی کی سماعت کے دوران عدالت نے کرناٹک کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ کو اس شرط اور تحریری یقین دہانی کے ساتھ اگلی تاریخ دی ہے کہ عرضی کا فیصلہ ہونے تک مسلمانوں کو دیا جانے والا ریزرویشن جاری رہے گا۔ اس کے باوجود شاہ اس ریزرویشن کو غیر آئینی بھی بتا رہے ہیں اور بار بار اس ایشو کو اٹھا کر انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی بھی کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن شاہ کے اس طرح کے بیانات پر کیا ایکشن لیتا ہے یہ تو وہی جانے لیکن کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے خلاف اس طرح کا راست تبصرہ ریاست کو منافرت کی آگ میں جھونکنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔


امت شاہ جس ’نئے کرناٹک‘ کی بات کر رہے ہیں اس کے چند نمونے ریاست کی موجودہ غاصب حکومت کے دور میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ٹیپو سلطان کے خلاف نفرت پھیلانے سے لے کر حجاب اور حلال جیسے موضوعات کو بومئی حکومت نے جس طرح اٹھایا اس سے ریاست کی اقلیتوں میں سخت غم و غصہ ہے لیکن ظاہر ہے بی جے پی حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں لیکن ان موضوعات پر خود کرناٹک کے سب سے بڑے بی جے پی لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ ییدورپّا نے ایک انٹرویو میں جو کچھ کہا ہے وہ وہ بی جے پی کو آئینہ دکھانے کے مترادف ہے۔ ییدورپّا نے ایک اگریزی روزنامے کو دئے گئے انٹر ویو میں صاف کہا ہے کہ وہ حجاب اور حلال جیسے موضوعات کی حمایت نہیں کرتے۔ انھوں نے ان ایشوز کو غیر ضروری بھی قرار دیا۔ اپنے اس انٹرویو میں موصوف نے یہ بھی کہا ’’میں نے ہمیشہ ہی یہ اسٹینڈ لیا ہے کہ ہندو اور مسلمانوں کو بھائی چارے سے رہنا چاہیے۔‘‘

واضح رہے کہ بومئی حکومت کے دور اقتدار میں مسلمانوں کے خلاف ’اقتصادی جہاد‘ جیسے ایشوز بھی اٹھائے گئے ہیں اور اس طرح ریاست کے عوام کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حالانکہ موجودہ حالات اور بی جے پی کے تعلق سے عوام کا موجودہ رجحان یہ بتاتا ہے کہ ایسے ایشوز اٹھانے کے باوجود بی جے پی اس کا کوئی سیاسی فائدہ اس لیے حاصل نہیں کر پائے گی کہ عوام کی اکثریت حتیٰ کہ بی جے پی کے یدورپا جیسے لیڈر تک اسے رد کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود اگر امت شاہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی پارٹی ہی ریاست کو ’نیا کرناٹک‘ بنائے گی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی کرناٹک کی سرزمین کو بھی دوسرا گجرات بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ گجرات بھلے ہی بی جے پی کے لیے ماڈل ریاست ہو لیکن مسلم کش فسادات کے بعد یہ ریاست پوری دنیا میں بدنام ہوئی ہے۔ شاہ کرناٹک کو بھی شاید گجرات کی طرز پر لے جانے کی بات کہہ رہے ہیں لیکن اسے نیا کرناٹک تو قطعی نہیں کہا جا سکتا۔


البتہ اگر بی جے پی دوبارہ اس ریاست میں بر سر اقتدار آئی اور بومئی جیسے کسی لیڈر کو ریاست کی کمان سونپی گئی تو کرناٹک منافرت کی تربیت گاہ ضرور بن سکتا ہے لیکن شاید بی جے پی اسے ہی اپنی سیاست کی کامیابی مانتی ہے۔ پارٹی کے نزدیک کامیابی کا معیار شاید یہی ہے کہ کس طرح ملک کی مذہبی اقلیتوں کو حاشیے پر ڈال دیا جائے۔ان کے آئینی، قانونی اور بنیادی حقوق کو غصب کر لیا جائے اور ترقی کے عالمی معیاروں کے برعکس ہندوتوا کے فروغ کو ہی ترقی کا نام دے کر ملک کے گنگا جمنی سماج اور بھائی چارے کی فضا کو تباہ کر دیا جائے۔ حالانکہ اسی بی جے پی میں یدورپا بھی ہیں کہ جنھوں نے اپنے مذکورہ انٹرویو میں ہندو مسلم بھائی چارے کی حمایت کی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یدورپا آج پارٹی میں حاشیے پر دھکیل دیے گئے ہیں۔

کانگریس نے امت شاہ کی شکات پولیس میں بھی درج کرائی ہے۔ پارٹی امت شاہ کے مذکورہ الزام کا عوامی ریلیوں میں کیا جواب دیتی ہے یہ وہ جانے لیکن سامنے کا سچ تو یہ ہے کہ بومئی کا رواں دور اقتدار ریاست میں ہندو مسلم انتشار اور سخت بد نظمی کا دور رہا ہے۔ حکومت عوام کے بنیادی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے منافرت پھیلانے کی سیاست کرتی رہی جو بی جے پی کا طرّہ امتیاز ہے۔منافرت کی اسی سیاست کا سہارا اب بھی اپنی انتخابی ریلیوں میں بی جے پی کے بیشتر بڑے لیڈر لے رہے ہیں۔ امت شاہ کی مذکورہ تقریر کو بھی اسی زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ امت شاہ اپنی ریلیوں میں سوال کر رہے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو چار فیصدی ریزرویشن دیا گیا تو پھر موجودہ ریزرویشن میں سے کس او بی سی، دلت یا دیگر برادری کا ریزرویشن کم کیا جائے گا؟ اس طرح کے بیانات مسلمانوں کے خلاف باقی برادریوں میں نفرت پھیلانے کی کوشش نہیں تو کیا ہے؟


حقیقت یہ ہے کہ راہل گاندھی کے ذریعہ کرناٹک حکومت کی مالی بد عنوانیوں پر سوال اٹھانے، جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک کے ذریعہ پلوامہ حملے کے تعلق سے کیے گئے دعوے اور سپریم کورٹ کے ذریعہ مختلف معاملوں میں مرکز اور بی جے پی قیادت والی دیگر ریاستوں کی سرزنش و سخت فیصلوں نے بی جے پی قیادت میں بوکھلاہٹ پیدا کر دی ہے۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات کے تعلق سے آنے والے تمام سروے بتا رہے ہیں کہ بی جے پی کو ایوان اقتدار سے باہر کرنے کے لیے ریاست کے عوام کمر کس چکے ہیں۔تمام تر زہر افشانی کے باوجود بی جے پی ریاست میں فرقہ واریت پھیلانے کا اپنا آزمودہ حربہ ناکام ہوتے دیکھ کر پریشان نہیں بلکہ بوکھلائی ہوئی ہے۔ بی جے پی کے ’چانکیہ‘ قرار دئے جانے والے امت شاہ اور خود مودی میں اس صورتحال سے کس قدر بوکھلاہٹ ہوگی اسے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ کرناٹک کو ہندو مسلم تفریق کے ذریعہ ’نیا کرناٹک‘ بنانے اور کانگریس سے عوام کو ڈرانے کے امت شاہ کے بیانات دراصل ان کی بوکھلاہٹ کے ہی مظہر ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ریاست کے عوام نے طے کر لیا ہے کہ وہ کرناٹک کو مذہبی منافرت کی تربیت گاہ بنانے کی بھگوا ٹولے کی کوششوں کو اب مزید برداشت نہیں کریں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔