بی جے پی کی ہندو قوم پرستی خطرے میں

مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت فلاحی اسکیمیں صرف 2011 کے اعداد و شمار کی بنیاد پر چلائی جارہی ہیں جس پر ماہرین نے سوالات اٹھائے ہیں

<div class="paragraphs"><p>وزیر اعظم مودی / یو این آئی</p></div>

وزیر اعظم مودی / یو این آئی

user

نواب علی اختر

بہار حکومت کی جانب سے ذات پات پر مبنی مردم شماری کے چونکا دینے والے اعداد و شمار کے نتائج نے پورے ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کو تقویت دی ہے۔ اس فیصلے سے جہاں پسماندہ اور محروم طبقات میں امیدوں نے جنم لیا ہے وہیں حالات بتاتے ہیں کہ مرکز کی بی جے پی قیادت والی مودی حکومت کی راتوں کی نیند اڑی ہوئی ہے۔ اس موضوع پر ہونے والے سوالوں کا حکمراں طبقہ جواب نہیں دے پا رہا ہے۔ ویسے تو بی جے پی اور اس کے رہنماؤں بالخصوص وزیر اعظم نریندر مودی کی یہ روش رہی ہے کہ جب ان کے نصاب سے باہر کا کوئی سوال پوچھا جاتا ہے تو ان کے نصاب کا ایک مشہور آلہ باہر لے آیا جاتا ہے اور وہ ے توجہ ہٹانے کا آلہ۔ لیکن اب عوام اس روش سے عاجز آ چکے ہیں اور وہ حکمراں طبقے کے کسی حربے میں پھنستے نظر نہیں آ رہے ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اب ملک کی فضا کا رخ محسوس کرتے ہوئے بی جے پی کے ’چانکیہ‘ کہے جانے والے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو کہنا پڑا ہے کہ حقیقت میں بی جے پی ذات پات کی مردم شماری کے خلاف نہیں ہے۔ یہ بیان چونکا دینے والا ہے کیونکہ بی جے پی زیر قیادت مرکزی حکومت اب تک قومی سطح پر ذات پات کی مردم شماری کے سوال سے منھ چھپاتی ہے۔ ایسے میں اب جب امت شاہ اپنی پارٹی کے موقف کے برعکس کچھ کہہ رہے ہیں تو واضح ہے کہ عوام کے مطالبے کی مخالفت کرنے سے امت شاہ کو ناقابل تلافی نقصان ہونے کا اندازہ ہو گیا ہے اور اسی لئے فطری طور پر یہ پارٹی کو ہونے والے انتخابی نقصان کو کم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

ذات پات کی مردم شماری بی جے پی کے لئے ایک مشکل مسئلہ بن گئی ہے۔ بی جے پی کھل کر اس کی تائید بھی نہیں کر رہی ہے اور نہ ہی وہ کھلے عام اس کی مخالفت کر سکتی ہے۔ وہ درمیانی راستہ تلاش کرنا چاہتی ہے اور اس کوشش میں وہ اور بھی بے نقاب ہو رہی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب ملک کی بیشتر پارٹیاں اور عوام ذات پر مبنی مردم شماری پر زور دے رہی ہیں تو بی جے پی کو اس کی مخالفت کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑے گا۔ اسی ممکنہ نقصان سے بچنے کے لئے بی جے کے سینئر لیڈر نے بھگوا پارٹی کے موقف سے ہٹ کر بیان دینے لگے ہیں۔ حالانکہ اس مسئلے پر امت شاہ کو اپنی ہی پارٹی میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اس کے علاوہ پارٹی کی نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کی پھٹکار بھی جھیلنا پڑ سکتی ہے۔

بھگوا خیمے کی جانب سے اب تک یہی کہا جا رہا تھا کہ ذات پات کی مردم شماری بالآخر فائدے سے زیادہ نقصان کا باعث بنتی ہے۔ مگر اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے مان لیا جائے کہ ذات پات کی مردم شماری فائدے سے زیادہ نقصان کا باعث بن رہی ہے۔ اگر زیادہ تر فریق اس مسئلے کو کوٹہ ذہنیت سے دیکھ اور سمجھ رہے ہیں تو یہ اس مسئلے کو دیکھنے والے کا قصور ہے نہ کہ اس مسئلے کا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلے کو صحیح تناظر میں اور وسیع تر معنوں میں لیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریزرویشن فیصد مختلف طبقات کے روزگار کے مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا۔ سیاست کو اس شکل میں پیش کرنے سے کسی کا بھلا نہیں ہوتا لیکن ذات پات آج بھی ہمارے معاشرے کا ایک کڑوا سچ ہے، جس سے منہ نہیں موڑا جا سکتا۔


ظاہر ہے کہ اس سچائی کو چھپانے کی وکالت کرنا یا کسی منطق سے اسے اندھیرے میں رہنے دینے کی وکالت کرنا درست نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ اگر 2002 کی بی پی ایل مردم شماری میں دیہی خاندانوں کی سماجی و اقتصادی حیثیت کے ساتھ ساتھ ذات پات سے متعلق کچھ ڈیٹا بھی اکٹھا کیا گیا ہے تو یہ کافی نہیں ہے۔ معاشرے کے حالات وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں دو یا تین دہائی پہلے کے ڈیٹا کے ساتھ کام چلاتے رہنا کوئی اچھا متبادل نہیں کہا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ موجودہ حالات سے متعلق تازہ حقیقت جاننے اور اسے وقتاً فوقتاً اپ ڈیٹ کرتے رہنے کی ضرورت ہے تاکہ پالیسیاں بناتے وقت اندازے لگانے کی کوئی مجبوری نہ رہے۔ اس وجہ سے ہر 10 سال بعد ہونے والی مردم شماری میں تاخیر کا معاملہ بھی متعلقہ ہے۔

یہ آخری بار سال 2011 میں ہوئی تھی۔ اب کہا جا رہا ہے کہ یہ مردم شماری 2024 کے عام انتخابات کے بعد ہی کرائی جائے گی۔ مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت فلاحی اسکیمیں صرف 2011 کے اعداد و شمار کی بنیاد پر چلائی جا رہی ہیں جس پر ماہرین نے سوالات اٹھائے ہیں۔ اسی طرح ریزرویشن سے متعلق کئی سوالوں کے جواب ذات کی مردم شماری کے ذریعے ملیں گے جس سے پالیسی سازی میں مزید مدد ملے گی۔ بی جے پی کو یہ نھیں بھولنا چاہئے کہ پسماندہ اور محروم طبقات سے تعلق رکھنے والے عوام میں بتدریج شعور بیدار ہونے لگا ہے اور وہ اپنے لئے حق مانگنے لگے ہیں۔ جس طرح سے تحفظات کا نظام اس ملک میں کام کر رہا ہے وہ شائد حکمرانوں کے لئے باعث اطمینان ہو لیکن عوام اس سے پوری طرح مطمئن نظر نہیں آتے۔

ایسے میں جب ذات پات کی مردم شماری کے ذریعہ حقیقی اعداد و شمار کو منظر عام پر لایا جائے گا تو اس سے سماج میں حصہ داری کی وکالت میں اضافہ ہوگا۔ لوگ آبادی میں اپنے تناسب کے اعتبار سے حصہ داری کا مطالبہ کریں گے اور ایسا ہونے بھی لگا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اس معاملے پر کوئی واضح اور صاف موقف اختیار کرنے کے حالت میں نہیں ہے۔ گذشتہ کئی برسوں سے ذات پات پر مبنی مردم شماری کے مطالبات ہو رہے ہیں۔ مرکز میں گذشتہ دس برس سے بی جے پی اقتدار میں ہے۔ ملک کی کئی ریاستوں میں وہ ایک سے زائد معیادوں سے حکومت کر رہی ہے لیکن اس جانب کوئی پیشرفت نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی مردم شماری کے حق میں کوئی فیصلہ کیا گیا ہے۔

تاریخی طور پر بی جے پی کوٹہ سسٹم کے خلاف رہی ہے۔ ہندو قوم پرستی کا نعرہ طبقاتی تفریق اور کوٹہ سسٹم سے براہ راست متصادم ہے۔ آئندہ برس مودی کے خلاف انتخابات لڑنے والا 28 جماعتوں کا اتحاد ’انڈیا‘ بڑے پیمانے پر ذات پات پر مبنی مردم شماری کا دباوبنا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق اپوزیشن مودی کے خلاف کسی ٹھوس اور پرکشش انتخابی نعرے کی تلاش میں تھا اور ذات پات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے نے یہ مشکل حل کردی۔ 2021ء میں شائع ہونے والے پیو سروے کے مطابق ہندوستان کی کل آبادی کا 69 فیصد، پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتا ہے۔ گویا اپوزیشن کا نعرہ براہ راست دو تہائی سے زائد آبادی کے مفادات سے جڑا ہے۔


ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز سے وابستہ پسماندہ ذاتوں کی سیاست کا مطالعہ کرنے والے ایک ریسرچ اسکالر یشونت زگڑے کے مطابق ذات پات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ مختلف پسماندہ ذاتوں میں ایک نیا شعور پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے جس سے بی جے پی کی ہندو قوم پرستی خطرے میں ہے۔ اگر ذات پات مرکزی مسئلہ بن جاتا ہے تو اس سے ہندو قوم پرستی پس منظر میں خود بخود دھندلا جائے گا۔ اپوزیشن کی جانب سے ذات پات پر مبنی مردم شماری کا نعرہ مودی کے لیے کس حد تک منفی ثابت ہوتا ہے اس کا اندازہ جاری ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں ہو جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلی بار اپوزیشن کو ایک ٹھوس اور پرکشش انتخابی نعرہ ملا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس نعرے کو کیش کروانے میں کتنا کامیاب رہتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔