بی جے پی کا سنگھاسن ڈانواڈول

اس وقت بی جے پی کی حالت خراب ہے۔ جن ریاستوں میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں ان میں اس کی شکست صاف دکھائی دے رہی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ سلسلہ 2024 تک جاری رہے۔ اس بات کی قوی امید ہے۔

<div class="paragraphs"><p>وزیر اعظم مودی / سوشل میڈیا</p></div>

وزیر اعظم مودی / سوشل میڈیا

user

سہیل انجم

وزیر اعظم نریندر مودی 2014 سے ہی ’کانگریس مکت بھارت‘کا نعرہ لگاتے رہے ہیں۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ خود ان کے ’ستہ مکت‘ہونے کا وقت آگیا ہے۔ یعنی اب ان کے اقتدار کے پائے بظاہر ہلنے لگے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات سے اس کا آغاز ہو گیا ہے۔ پچھلے دنوں کرناٹک اسمبلی کے انتخابات میں اس کی شکست بظاہر آئندہ ہونے والی شکست کی بنیاد بننے جا رہی ہے۔ حالانکہ وہاں جیت حاصل کرنے کے لیے اس نے کیا کیا نہیں کیا تھا۔ حجاب مخالف مہم، مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر اتارنے کی کارروئی، حلال گوشت کے خلاف مہم اور ایسے ہی دیگر اقدامات کی بنیاد پر اس نے جو مذہبی منافرت کا ماحول بنایا تھا وہ اب رفتہ رفتہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اب تو بی جے پی کے پکے حمایتی بھی کہنے لگے ہیں کہ ہم توبی جے پی سپورٹر ہیں لیکن اب اس حکومت کو جانا چاہیے۔

مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم میں نومبر دسمبر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ لیکن ان تمام ریاستوں میں بی جے پی کی حالت پتلی ہے۔ چھتیس گڑھ میں تو وہ بہت کمزور ہے اور ابھی سے وہاں اس کی شکست کی پیشین گوئی کی جا رہی ہے۔ مدھیہ پردیش میں بھی اس کے قدموں کے نیچے سے قالین سرک رہی ہے جس کے نتیجے میں ماما یعنی شیو راج سنگھ چوہان کے اقتدار کے پائے لڑکھڑانے لگے ہیں۔ ان کو سنبھالا دینے کے لیے بی جے پی اعلیٰ قیادت نے مرکزی وزرا، ممبران پارلیمنٹ اور مرکزی رہنماؤں کو مدھیہ پردیش میں اتار دیا ہے۔ پارٹی کے اس قدم کی مخالفت ریاستی لیڈران تو کر ہی رہے ہیں خود وہ لوگ بھی کر رہے ہیں جن کے نام امیدواروں کی فہرست میں شامل ہیں۔


اس حوالے سے سینئر لیڈر کیلاش وجے ورگیی کا ردعمل خاصا دلچسپ ہے۔ جب ان کا نام امیدواروں کی فہرست میں آیا تو انھوں نے اس پر بڑی حیرانی کا اظہار کیا۔ ان کو ایسا لگا کہ جیسے پارٹی نے ان کی توہین کر دی ہے۔ انھوں نے اظہار حیرت کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی نے ایسا فیصلہ کیوں کیا۔ اب وہ اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔ انھوں نے یہ کہہ کر اپنی بھڑاس نکالی کہ میں ایک بہت ہی سینئر لیڈر ہوں، کیا اب میں لوگوں سے ہاتھ جوڑ کر ووٹ کی بھیک مانگوں گا۔ ان کے بقول انھیں الیکشن لڑنے میں ایک فیصد بھی دلچسپی نہیں ہے۔ یاد رہے کہ وہ پہلے بھی ریاستی اسمبلی کے ممبر اور ریاستی کابینہ میں وزیر رہ چکے ہیں۔ اب ان کا بیٹا ایم ایل اے ہے۔ لہٰذا ان کو ایسا لگ رہا ہے کہ پارٹی نے جونئیر لیڈروں کے ساتھ انھیں بھی میدان میں اتار کر ان کی بے عزتی کی ہے۔

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی تک ماما یعنی شیو راج سنگھ چوہان کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ ان کو ریاست میں وزیر اعلیٰ کے چہرے کے طور پر پیش کیا جائے گا یا نہیں اس بارے میں پارٹی تذبذب کی شکار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی حکومت کے خلاف عوام میں زبردست غم و غصہ ہے۔ ان کی حکومت میں جس طرح لا اینڈ آرڈر ناکام ہوا ہے اس نے عوام کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اجین کا واقعہ تو ابھی باکل تازہ ہے۔ کس طرح ایک بارہ سالہ بچی کی عصمت دری کی گئی اور کس طرح کسی نے اس کی مدد نہیں کی اور کس طرح وزیر اعلیٰ لا اینڈ آرڈر پر توجہ دینے کے بجائے انتخابی مہم میں مصروف رہے، ان سب باتوں نے عوامی مسائل کے تئیں حکومت کی سردمہری بے نقاب کر دی ہے۔ اس واقعہ نے عوام کی ناراضگی کو اور بھڑکا دیا ہے۔


ماما کی حکومت پر بدعنوانی کے بھی الزامات ہیں۔ کانگریس نے جس طرح کرناٹک میں بومئی حکومت میں چالیس فیصد کمیشن کا ایشو اٹھایا تھا اسی طرح اس نے مدھیہ پردیش میں بھی کمیشن کا ایشو اٹھایا ہے اور اس کی یہ بات عوام کو خوب پسند آرہی ہے۔ اس وقت بہت سے نیوز چینلوں کے نمائندے مذکورہ ریاستوں اور خاص طور پر مدھیہ پردیش میں عوام کی رائے جاننے کی کوشش کر رہے ہیں اور عوام کی اکثریت بی جے پی حکومت کے خلاف اپنی رائے دے رہی ہے۔

ریاستی مسائل کے علاوہ وہ مسائل بھی ان ریاستوں میں بی جے پی کے گلے کی ہڈی بن گئے ہیں جن سے پورا ملک جوجھ رہا ہے۔ یعنی مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل۔ خواتین کے تحفظ کے مسائل۔ کسانوں کی فصلوں کے دام نہ ملنے کے مسائل۔ ہیٹ اسپیچ کے مسائل۔ اور بھی دیگر بہت سے مسائل ہیں جن سے جنتا پریشان ہے۔ لہٰذا بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کے خلاف عوامی ناراضگی میں مزید ایشو شامل ہو کر اسے اور سنگین بنا رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے جو مقامی رہنما ہیں اور جن کو امید تھی کہ انھیں پارٹی ٹکٹ دے گی وہ دہلی سے لیڈروں کو لانے سے ناراض ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ محنت ہم کریں اور ایم ایل اے دوسرے بنیں۔ ادھر مادھو راؤ سندھیا کے حامیوں اور مخالفوں میں الگ ٹھنی ہوئی ہے۔ سندھیا حامی بہت سے لیڈر کانگریس میں واپس آگئے ہیں۔ ان کے حامیوں کو ٹکٹ دینے سے ان کے مخالفوں میں غصہ ہے۔


تقریباً یہی صورت حال راجستھان میں بھی ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا پارٹی سے ناراض ہیں۔ پارٹی نے جس طرح ان کو الگ تھلگ کیا ہے اس سے ان کے حامیوں کی ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے۔ جبکہ کانگریس حکومت کی اچھی کارکردگی نے بھی بی جے پی کے لیے مشکلیں پیدا کر دی ہیں۔ وہ گہلوت حکومت کے خلاف ایشوز تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن وہ اس میں ناکام ہے۔ تلنگانہ میں بھی بی جے پی کی پوزیشن بہت کمزور ہے۔ وہاں اصل مقابلہ کانگریس اور بی آر ایس میں ہے۔

دراصل اس وقت کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی نے ملک میں جس قسم کی سیاست شروع کی ہے اس نے بی جے پی کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان کی بھارت جوڑو یاترا نے ملک میں ایک صاف ستھری اور عوامی مسائل کو اٹھانے والی جس سیاست کا آغاز کیا ہے اسے لوگوں کی حمایت مل رہی ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں ملکی سیاست جس طرح زوال کے گڈھے میں گری ہے اس سے عوام ناراض ہیں۔ راہل گاندھی نے سیاست کو منافرت کے جذبات سے پاک کرنے اور عوام کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی جو مہم شروع کی ہے اس نے رنگ دکھانا شروع کر دیا ہے۔ ان کا یہ کہنا بھی عوام پر اثرانداز ہو رہا ہے کہ ان کی یاترا جاری ہے۔ اس سلسلے میں وہ جس طرح عوام کے الگ الگ طبقات سے مل رہے ہیں اور ان کے مسائل جاننے کی کوشش کر رہے ہیں اس نے ملکی سیاست میں ایک نئی شروعات کی ہے۔ بی جے پی اس سے گھبرا گئی ہے۔ اس لیے وہ راہل کو بدنام کرنے کی اپنی مہم اب بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔


حالانکہ اب یہ بات عوام کی سمجھ میں آگئی ہے کہ راہل گاندھی کو ایک غیر سنجیدہ سیاست داں ثابت کرنے کے لیے بی جے پی نے کروڑوں روپے پانی کی طرح بہائے ہیں۔ اس نے اس تسلسل میں میڈیا کو بھی خرید لیا ہے۔ وہ بھی اس کی اس مہم میں شامل ہو گیا تھا۔ لیکن اب میڈیا میں بھی بہت سے لوگوں کی رائے راہل کے بارے میں بدلنے لگی ہے۔ اب تو گودی میڈیا کے بھی کئی اینکر ڈھکے چھپے انداز میں حکومت پر تنقید اور راہل کی سیاست کی تائید کرتے نظر آرہے ہیں۔ بہرحال اس وقت بی جے پی کی حالت خراب ہے۔ جن ریاستوں میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں ان میں اس کی شکست صاف دکھائی دے رہی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ سلسلہ 2024 تک جاری رہے۔ اس بات کی قوی امید ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔