دو سو کے آس پاس اٹک سکتی ہے بی جے پی کی گاڑی...عبید اللہ ناصر

مودی کے دور میں ہندوستانی سماج میں نفرت کا جو زہر گھولا گیا ہے اور سماج میں جس طرح فرقہ پرستی کی آگ لگا کر سیاسی فائدہ حاصل کیا جا رہا ہے اس کے خلاف راہل گاندھی واحد مرد مجاہد بن کر ابھرے ہیں

<div class="paragraphs"><p>وزیر اعظم نریندر مودی / ٹوئٹر</p></div>

وزیر اعظم نریندر مودی / ٹوئٹر

user

عبیداللہ ناصر

لوک سبھا چناؤ کی صف آرائی ہو چکی ہے پولنگ کی تاریخوں کا اعلان ہو ہی چکا ہے زیادہ تر پارٹیوں نے اپنے اپنے سپاہی بھی میدان میں اتار دے ہیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم کو لے کر ہمیشہ ہر پارٹی میں کشیدگی ہو جاتی ہے وہ اس بار بھی دکھائی دے رہی ہے۔ ویسے تو درجنوں پارٹیاں اس مقابلہ میں شامل ہوں گی لیکن عملی طور سے الیکشن دو قطبی ہو گیا ہے۔ ایک طرف کانگریس کی قیادت میں انڈیا بلاک ہے تو دوسری طرف بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے ہے۔ دونوں فوجوں کے کمانڈر بھی جانے مانے ہیں اور دراصل لڑائی ان ہی دو شخصیات کے درمیان سمٹ گئی ہے ایک طرف نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے والے راہل گاندھی ہیں تو دوسری طرف سپنوں کے سوداگر نریندر مودی ہیں۔ دیکھا جائے تو نریندر مودی کے پاس وہ سب کچھ ہے جس کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ انک ے پاس لا محدود دولت ہے سرکاری اختیارات ہیں سرکاری اداروں، خاص کر انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ انکم ٹیکس سی بی ای میڈیا ان سب کا اپوزیشن کے خلاف بے شرمی سے استعمال کرنے کی طاقت ہے، یہاں تک کہ اس نے اہم اپوزیشن کانگریس کو پیسے پیسے کی محتاج تک بنا دیا ہے۔ اپوزیشن کے دو وزراۓ اعلی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے کر دیا گیا ہے۔ اہم لیڈروں پر شکنجہ کس کے انہیں اپنی پارٹیاں چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ میڈیا سے ناک رگڑوائی جا رہی ہے چندے کے دھندے کا جو خلاصہ ہوا ہے وہ اتنا شرمناک ہے کہ اگر کسی یورپی جمہوری ملک میں یہ انکشافات ہوئے ہوتے تو سیاسی زلزلہ آ جاتا یا یہی انکشافات کانگریس کے دور حکومت میں ہوے ہوتے تو یہی بی جے پی اور میڈیا آسمان سر پر اٹھائے ہوتے لیکن یہاں شرمناک خاموشی ہے۔ میڈیا کو اس حد تک دبا دیا گیا ہے کہ کانگریس نے کھلے عام الزام لگایا ہے کہ الیکٹورل بانڈ کو لے کر اس نے جو اشتہار جاری کیا تھا اور جس کے لئے وہ اخباروں کو نقد ادائیگی بھی کرنے کو تیار تھی وہ اشتہار بھی نہیں چھپنے دیا گیا۔ الیکشن کے نوٹیفکیشن سے پہلے بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے کھربوں روپے کے اشتہارات جاری کر کے عوام کی برین واشنگ کی اور اپنے حق میں فضاء ہموار کی یہ سہولت کانگریس سمیت کسی دوسری پارٹی کے پاس نہیں تھی اور اگر ان کی ریاستی حکومتوں نے کچھ اشتہارات جاری بھی کئے تو وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے۔

مودی کے دور میں ہندوستانی سماج میں نفرت کا جو زہر گھولا گیا ہے اور سماج میں جس طرح فرقہ پرستی کی آگ لگا کر سیاسی فائدہ حاصل کیا جا رہا ہے اس کے خلاف راہل گاندھی واحد مرد مجاہد بن کر ابھرے ہیں۔ ان کی دو ملک گیر یاتراؤں نے انکی شخصیت کو ہی نہیں ابھارا بلکہ عوام میں ایک بیداری بھی پیدا کی ہے ۔ آپ سوشل میڈیا دیکھ لیں یا بازاروں چوراہوں پارکوں وغیرہ میں ہونے والی سیاسی گفتگو سنیں۔ پہلے مودی کے خلاف بولنے پر پٹائی ہو جانے کا خطرہ رہتا تھا، اب لوگ مانتے ہیں کہ ملک میں سب کچھ اچھا نہیں ہو رہا ہے۔ خاص کر بے روزگاری جو خوفناک شکل اختیار کر چکی ہے اور گرانی جو بے لگام ہوتی جا رہی ہے اس سے عوام بہت نالاں ہیں انٹرنیشنل لیبر ارگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں تراسی فیصدی نوجوان بے روزگار ہیں اس معاملہ میں ہندوستان اپنے سبھی پڑوسی ملکوں سے بھی خراب حالت میں ہیں۔ حکومت ان معاملات میں جواب دہی کے بجائے یا تو رام مندر، دفعہ 370 کا ہٹایا جانا، سی اے اے کا نفاذ بیچ میں لے آتی ہے یا جواہر لال نہرو کو مورد الزام ٹھہرا دیتی ہے لیکن اس بار اس کے یہ سارے ہتھکنڈے ناکام ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور اب عوام کو اپنے اصل مسائل کا احساس ہو رہا ہے اور اب مودی نوازوں کو عوام کے درمیان جواب نہیں دیتے بن رہا ہے۔


رام مندر کی تعمیر اور اس کے افتتاح کو لے کر حکومت نے ایک طومار باندھنے کی کوشش کی تھی ابتدائی دنوں میں اس کا اثر بھی دکھائی دے رہا تھا لیکن اب یہ ایشو بھی ہلکا پڑ گیا ہے۔ مودی جی نے اس بار چار سو پار کا نعرہ دیا ہے دلال میڈیا بھی یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ مودی جی چناؤ جیت چکے ہیں بس اعلان ہونا باقی ہے، جو 4 جوں کا ہو جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود مودی جی بھی اندر سے ڈرے ہوۓ ہیں اس کے لئے وہ کئی محاذوں پر کام بھی کر رہے ہیں کانگریس سے تو انکی ازلی دشمنی ہے ہی تو اسے ہر حال میں بے دست و پا کرنے کی حکمت عملی پر کام کیا جا رہا ہے۔ اس کے بینک کھاتے منجمد کر کے اسے پیسے پیسے کا محتاج کر دیا گیا۔ دوسرے لیڈروں پر سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ دباؤ ڈالا جا رہا ہے دو ریاستوں کے وزرائے اعلی جیل میں ہیں یہ اتنا غیر جمہوری عمل ہے کہ اس کے خلاف عالمی سطح پر آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ امریکہ برطانیہ جرمنی سب نے ان وزرائے اعلی کی گرفتاری پر ناراضگی ظاہر کی ہے حکومت ہند نے اسے اندرونی معاملات میں مداخلت کہہ کر مسترد کر دیا ہے مگر وہ عالمی سبکی سے بچ نہیں سکتی۔

اگر ایک عام مگر با خبر شخص خود ریاست در ریاست حساب لگائے تو اسے تصور صاف دکھائی دے سکتی ہے۔ کشمیر سے لے کر دہلی تک بی جے پی کی حالت کیسی ہے یہ سبھی دیکھ رہے ہیں۔ ان سبھی ریاستوں کو ملا کر اسے بیس سیٹیں ملنا بھی مشکل دکھائی دے رہاہے یہی حالت جنوبی ہند میں ہے کرناٹک میں اسے 8-10 سیٹیں مل سکتی ہیں لیکن تمل ناڈو تلنگانہ کیرالہ اور آندھرا پردیش میں اس کا کھاتہ کھلنا بھی مشکل ہے۔ مہاراشٹر میں بھی اسے اپنی 10 سیٹیں مل جائیں تو بڑی بات ہوگی یہاں اودھو ٹھاکرے اور شرد پوار کے ساتھ دھوکہ بازی کی وجہ سے مراٹھا لابی بی جے پی سے بہت ناراض ہے شندے اور اجیت پوار دونوں کو یہاں ولن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ گجرات میں ضرور بی جے پی کو 26 میں سے 22 سیٹیں تک مل سکتی ہیں۔ سب سے اہم اور بی جے پی کے لئے سب سے امید کی ریاست اتر پردیش ہے یہاں کی سیاسی ریاضی کے ذرا گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو صورتحال الجھی ہوئی دکھائی دے گی۔ 2019 کا لوک سبھا چناو پلوامہ کے سایہ میں ہوا تھا جس نے اپوزیشن کی طنابیں اکھاڑ دی تھیں پھر بھی اس بار بی جے پی کو 2014 کے مقابلہ میں 7-8 سیٹوں کا نقصان ہوا تھا۔ 2017 کے اسمبلی الیکشن کے مقابلہ میں 2022 کے اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کو 70 سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ 70 اسمبلی سیٹوں کا مطلب ہوا ١٥ پارلیمانی سیٹیں۔ 2022 سے لے کر 2024 تک رام مندر کا افتتاح اگر در کنار کر دیا جائے تو ایسا کچھ نہیں ہوا ہے جس سے بی جے پی کا ووٹ بڑھا ہو۔ برخلاف اس کے کانگریس اور سماج وادی پارٹی کا اتحاد ضرور ہو گیا اگر کانگریس کے محض تین فیصد ووٹ سماج وادی پارٹی کے ووٹ بینک میں شامل ہو جاتے ہیں تو بی جے پی کو 10 سے 20 سیٹوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں سینئر صحافیوں وغیرہ کا اندازہ ہے کہ بی جے پی یہاں سبھی 80 نہیں تو 70 سیٹوں کی امید لگائے بیٹھی ہے۔ رام مندر کے افتتاح میں جو ایونٹ منیجمنٹ کیا گیا تھا اس سے یہ لگ بھی رہا تھا مگر اب بتدریج اس غبارہ کی ہوا کم ہوتی جا رہی ہے۔ مایاوتی بی جے پی کا بہت بڑا سہارا ضرور بن رہی ہیں وہ مسلم امیدوار بھی زیادہ اتار رہی ہیں لیکن اس بار کا الیکشن سابقہ اسمبلی الیکشن کی طرح دو قطبی ہوگا لوگ یا تو مودی کو لانے کے لئے ووٹ دیں گے یا مودی کو ہٹانے کے لئے اور مودی کو ہٹانے کے خواہشمند جانتے ہیں کہ یہ کام کون لیڈر اور کون پارٹی کر سکتی ہے۔ مایاوتی ہوں یا کوئی اور ان کا انجام اس بار بھی وہی ہوگا جو 202 کے اسمبلی الیکشن میں ہوا تھا۔


بہار میں وہ صرف 17 سیٹیں لے کر نتیش کی جونیئر پارٹنر کے طور پر الیکشن لڑ رہی، یہی حالت اوڈیشہ میں ہے دونو ریاستوں میں وہ کل ملا کر زیادہ سے زیادہ 20-22 سیٹیں جیت سکتی ہے۔ بنگال میں ممتا نے انڈیا اتحاد سے الگ ہو کر اکیلے لڑنے کا فیصلہ کیا ہے اس سے بی جے پی کی امیدیں بڑھ گئی ہیں۔ پچھلی بار اس نے 18 سیٹیں حاصل کی تھیں، اس بار بھی اسی کے آس پاس سیٹیں حاصل کر سکتی ہے۔ اس کے بعد آسام کو چھوڑ کر پورے شمال مشرق میں ملا کر وہ 10 سیٹیں حاصل کر سکتی ہے۔ ہندی پٹی کی بقیہ ریاستوں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، ہماچل پردیش میں وہ پچھلی بار بھی سبھی سیٹیں جیت گئی تھی جس کی اصل وجہ پلوامہ تھا اس بار یہاں سے کانگریس کو جو بھی ملے گا وہ بی جے پی کا نقصان ہی ہوگا۔ اس بار بی جے پی کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے کوئی جذباتی مسئلہ ہی نہیں رہا ہے جس کو وہ انتخابی مدعا بنا کر عوام کو ورغلا سکے الٹے الیکٹورل بانڈ اس کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے لیکن نتائج کا سارا انحصار شفاف چناوی عمل پر ہے۔ اگر الیکشن صاف شفاف غیر جانبدارانہ ہوں تو نتائج چونکانے والے بھی ہو سکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔