بہار میں ایس آئی آر: حقِ رائے دہی اور عوامی عزم کی جدوجہد...دیپانکر بھٹاچاریہ

بہار میں ایس آئی آر مہم نوٹ بندی جیسی سیاسی چال ہے، جو عوام کے ووٹ کے حق پر وار کرتی ہے۔ یہ عمل نہ صرف انتخابی شفافیت کو مشکوک بناتا ہے بلکہ شہری حقوق سلب کرنے کا ہتھیار بھی بن سکتا ہے

<div class="paragraphs"><p>ایس آئی کے خلاف احتجاج / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

دیپانکر بھٹاچاریہ

نریندر مودی حکومت ہر سال 25 جون کو، جب 1975 میں ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی، ’سمویدھان ہتیا دیوس‘ (آئین کے قتل کا دن( کے طور پر مناتی ہے۔ مودی اور یوگی حکومتوں کو شہروں اور سڑکوں کے نام بدلنے اور مختلف دنوں کو نئے عنوان دینے کا خاص شوق ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کسی دن کو ’آئین کے قتل‘ کے طور پر یاد کرنے کا مطلب کیا ہے؟ کیا حکومت یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ آئین محض ایک مردہ دستاویز ہے، یا پھر یہ سوال خود بخود ابھرتا ہے کہ ’آئین کا دوبارہ جنم کب ہوا؟‘

اس سال 25 جون کو ایمرجنسی کے پچاس سال مکمل ہوئے۔ عجب اتفاق ہے کہ اسی دن الیکشن کمیشن نے بہار میں ووٹر لسٹ کی ’خصوصی گہری نظرثانی‘ (ایس آئی آر) کا اعلان کیا۔ یہ تاریخ چننے کا مطلب ہی تھا کہ آئین کے سب سے اہم بنیادی حق یعنی ’عمومی بالغ حقِ رائے دہی‘ کو نشانہ بنایا جائے۔ بہار کے عوام نے اس تضاد کو فوراً محسوس کیا۔ ان کے سامنے یہ مہم بالکل ویسی ہی لگی جیسے 2016 میں نوٹ بندی کے نام پر کیا گیا تھا۔ اُس وقت حکومت نے اسے بلیک منی کے خلاف مہم بتایا تھا، لیکن انجام سب نے دیکھا۔ اسی طرح ایس آئی آر نے بھی کروڑوں لوگوں کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کا خطرہ پیدا کیا۔

بنگلورو سنٹرل لوک سبھا سیٹ کے مہادیوپورہ اسمبلی حلقہ انتخاب میں بڑے پیمانے پر انتخابی دھاندلی کا پردہ فاش کرنے والی راہل گاندھی کی 7 اگست کی پریس کانفرنس کے بعد ’ووٹ چوری‘ لفظ عوامی بحث کا موضوع بن گیا۔ ابتدا میں اندیشہ تھا کہ دو کروڑ سے زیادہ ووٹرز فہرست سے باہر ہو جائیں گے۔ بعد میں عوامی دباؤ، سیاسی احتجاج اور عدالت کی مداخلت سے یہ تعداد گھٹ کر تقریباً 65 لاکھ رہ گئی۔ پھر بھی کروڑوں شہری غیر یقینی کیفیت میں ہیں کہ کہیں ان کا نام ووٹر لسٹ سے غائب نہ ہو جائے۔


انتخابی اصولوں سے انحراف

ایس آئی آر مہم میں تین بڑے انحراف صاف نظر آئے:

شہریت کا ثبوت: پہلے شہریت کو فرضی طور پر مانا جاتا تھا جب تک کہ الٹ ثابت نہ ہو، اب اس کے برعکس شہریت کا باقاعدہ ثبوت مانگا جا رہا ہے۔

مقامی سکونت کی تنگ تعریف: عام طور پر کسی علاقے کا رہائشی ہونے کی تعریف کو اتنا محدود کر دیا گیا کہ لاکھوں مہاجر مزدور ’مستقل طور پر منتقل شدہ‘ قرار دیے جا سکتے ہیں۔

ذمہ داری کا بوجھ: الیکشن کمیشن خود ایک درست اور جامع فہرست تیار کرنے کی بجائے یہ ذمہ داری سیاسی جماعتوں کے بی ایل اے اور سرکاری بی ایل او پر ڈال رہا ہے۔

ان انحرافات نے عوامی بےچینی میں اضافہ کیا۔ صحافیوں اور کارکنوں نے جب زمین پر بدعنوانی اور دھاندلی کے ثبوت پیش کیے تو ان پر جھوٹے مقدمے لاد دیے گئے۔

سپریم کورٹ کی مداخلت

عوامی دباؤ کے بعد سپریم کورٹ کو بارہا مداخلت کرنی پڑی۔ آخرکار عدالت نے حکم دیا کہ آدھار کو ووٹر لسٹ میں شناختی دستاویز کے طور پر قبول کیا جائے۔ اس کے باوجود الیکشن کمیشن کی ہٹ دھرمی کم نہ ہوئی۔

یہی رویہ ظاہر کرتا ہے کہ صرف ایک منظم عوامی تحریک ہی اس خطرناک کھیل کو روک سکتی ہے۔ بہار کے عوام نے اس سمت میں زبردست جوش دکھایا ہے۔ 9 جولائی کے ’چکّہ جام‘ اور 17 اگست سے یکم ستمبر تک ’ووٹر ادھیکار یاترا‘ نے ریاست بھر میں بیداری پھیلائی۔

خطرہ صرف بہار تک محدود نہیں

ایس آئی آر کا مقصد صرف بہار نہیں ہے، بلکہ اسے پورے ہندوستان میں لاگو کرنے کی تیاری ہے۔ اس کے ذریعے شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ آسام میں این آر سی کے تحت 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو ’شہریت سے باہر‘ کر دیا گیا تھا۔ وہاں ’ڈی ووٹر‘ (مشکوک ووٹر) کی الگ قسم بنا دی گئی، جس کے نتیجے میں لاکھوں خاندان بنیادی سہولتوں سے محروم ہو گئے۔

اب بہار میں بھی تین لاکھ ووٹروں کو کہا گیا ہے کہ ان کے کاغذات ناکافی ہیں۔ اگر یہ سلسلہ بڑھا تو ایک مستقل ’ڈی ووٹر‘ طبقہ وجود میں آ سکتا ہے، جس کے پاس نہ ووٹ دینے کا حق ہوگا اور نہ ہی راشن، پنشن، صحت یا رہائش جیسے بنیادی حقوق تک رسائی۔


سیاسی ہتھیار کے طور پر ایس آئی آر

یہ محض اتفاق نہیں کہ مودی، شاہ اور آر ایس ایس کی تقریروں میں بار بار ’گھس پیٹھ‘ کا ذکر آتا ہے اور ساتھ ہی ایس آئی آر جیسی مہم شروع کر دی جاتی ہے۔ یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ مسلمانوں کو بنگلہ دیشی یا روہنگیا ’گھس پیٹھیا‘ بتا کر نشانہ بنانا، دراصل ووٹ کے حق کو سلب کرنے کی سیاسی حکمت عملی ہے۔

یہی فارمولہ 2016 میں نوٹ بندی کے وقت استعمال کیا گیا تھا، جس کے بعد بی جے پی نے یوپی اسمبلی الیکشن میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ اب این ڈی اے کو لگتا ہے کہ بہار میں بھی ایس آئی آر کی افراتفری انہیں دہائیوں سے چلی آ رہی اقتدار مخالف لہر سے نجات دلا سکتی ہے۔

عوامی ردعمل اور نیا عزم

لیکن بہار کی زمینی حقیقت مختلف ہے۔ ایس آئی آر سے پیدا ہوا خوف، زمین کے سروے اور قبضے کی کارروائیوں کے ساتھ جڑ کر عوام میں مزید غصہ بھڑکا رہا ہے۔ جرائم اور بدعنوانی کا بڑھتا جال لوگوں میں تبدیلی کے لیے نئے عزم کو جنم دے رہا ہے۔

بہار کا یہ تجربہ بتا رہا ہے کہ ووٹ کے حق پر حملہ دراصل عوامی طاقت کو اور زیادہ بیدار کرتا ہے۔ عوام اگر متحد رہیں تو ایس آئی آر جیسا سیاسی ہتھیار ناکام بھی ہو سکتا ہے اور جمہوری جدوجہد کو نئی توانائی بھی دے سکتا ہے۔

مضمون نگار دیپانکر بھٹاچاریہ، سی پی آئی-ایم ایل [لبریشن] کے قومی جنرل سکریٹری ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔