بہار میں جے ڈی یو بنی بی جے پی کے لیے دردِ سر!

بی جے پی، جے ڈی یو کے ووٹ بینک میں دراڑ ڈالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہی۔ حالیہ کابینہ توسیع میں اپنے کوٹے سے ایک کشواہا اور ایک کرمی وزیر بنا کر اس نے اپنے ارادے واضح کر دیے

<div class="paragraphs"><p>آئی اے این ایس</p></div>

آئی اے این ایس

user

دیپک مشرا

بی جے پی کی بہار یونٹ کے صدر دلیپ اگروال نے حال ہی میں کہا کہ اکتوبر-نومبر 2025 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے بعد این ڈی اے کی قیادت کون کرے گا، اس کا فیصلہ بی جے پی کرے گی۔ تاہم، چند ہی گھنٹوں میں انہوں نے اپنی بات پلٹ دی اور کہا کہ ’’2025 میں نتیش پھر سے وزیراعلیٰ ہوں گے۔‘‘ لیکن شاید ہی کسی کو اس بات پر یقین ہو۔ بی جے پی کے کئی رہنما نجی بات چیت میں کہتے ہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ پارٹی پہلی بار بہار میں اپنی حکومت بنانے کے قریب ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ نتیش کمار کے حامی بنیادی طور پر لالو پرساد یادو کے مخالف ہیں اور وہ بی جے پی کا ساتھ دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔

ادھر، آر جے ڈی کے رہنما تیجسوی یادو کا کہنا ہے، ’’بی جے پی اب جے ڈی یو کو نگلنے کے قریب ہے۔ اگر نتیش کمار کے بیٹے نشانت کمار سیاست میں آتے ہیں تو یہ جے ڈی یو کے مفاد میں ہوگا۔‘‘ تیجسوی نے نشانت کو ’بھائی‘ کہہ کر بھی مخاطب کیا۔ 48 سالہ نشانت کمار نے اب تک اپنی سیاسی حکمت عملی کو ظاہر نہیں کیا، لیکن وہ حالیہ دنوں میں عوامی تقریبات میں شرکت کرنے لگے ہیں اور میڈیا کے سوالوں کا سامنا کرنے سے بھی نہیں گھبراتے۔

جے ڈی یو کے کئی وزرا اور ارکانِ اسمبلی اس حقیقت کو قبول کر چکے ہیں کہ پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال برقرار ہے۔ بیشتر ارکان کو خدشہ ہے کہ اسمبلی انتخابات کے بعد پارٹی میں بغاوت ہو سکتی ہے، کچھ بی جے پی میں شامل ہو سکتے ہیں اور کچھ آر جے ڈی میں۔ پارٹی کے 45 میں سے زیادہ تر ایم ایل اے کا ماننا ہے کہ بی جے پی اور جے ڈی یو 100-100 سیٹوں پر الیکشن لڑیں گی، جبکہ باقی 43 نشستیں ایل جے پی، ہم (ہندستانی عوام مورچہ) اور دیگر اتحادی جماعتوں کو دی جائیں گی۔ تاہم، بی جے پی جس کے پاس موجودہ اسمبلی میں 80 ایم ایل اے ہیں، وہ 100 سے زائد سیٹوں پر الیکشن لڑنے کی تیاری میں ہے۔

کچھ جے ڈی یو کے رہنما کھل کر بی جے پی کے ’دھوکہ‘ دینے کی بات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب دونوں پارٹیاں اتحاد میں تھیں تو ایک سمجھوتہ تھا کہ بی جے پی اعلیٰ ذات کے ووٹرز کو اپنی طرف مائل کرے گی، جبکہ نتیش کمار غیر یادو او بی سی، کرمی، کشواہا اور دیگر پسماندہ طبقات کے لیڈر کے طور پر ابھریں گے۔ اس حکمتِ عملی کے نتائج 2005 اور 2010 کے انتخابات میں دیکھے گئے جب دونوں جماعتوں نے مخصوص برادریوں سے امیدوار کھڑے کیے۔


لیکن 2015 میں یہ سارا منظرنامہ بدل گیا جب نتیش کمار نے لالو پرساد یادو کے ساتھ ہاتھ ملا لیا اور این ڈی اے کو صرف 58 سیٹیں ملیں۔ اس کے بعد سے بی جے پی نے مسلسل جے ڈی (یو) کے او بی سی ووٹ بینک میں نقب لگانے کی کوشش کی۔ 2015 میں اس نے مگدھ کے عظیم کشواہا سمراٹ اشوک کے اعزاز میں ایک بڑا جلسہ کیا، حالانکہ اشوک کی ذات کا تاریخی طور پر کوئی تعین نہیں تھا۔ مگر تاریخ اور حقائق سے بی جے پی کو کبھی کوئی فرق نہیں پڑتا!

2022 میں بی جے پی نے دھانُک برادری کے شمبھو شرن پٹیل کو راجیہ سبھا بھیجا اور 2024 میں ایک بار پھر نتیش کے قریبی ساتھی اور انتہائی پسماندہ طبقے کے بھیم سنگھ کو اپنا امیدوار بنایا۔ اسی سال، بی جے پی نے کشواہا برادری کے لیے ایک اور تقریب منعقد کی۔

حالیہ کابینہ توسیع میں بی جے پی نے اپنے کوٹے سے ایک کشواہا اور ایک کرمی کو وزیر بنایا، جبکہ اس کے چھ عہدے پہلے سے خالی تھے۔ بی جے پی کے ایک رہنما نے طنزیہ انداز میں کہا، ’’آخری بار بہار میں کسی کرمی کو وزیر بنانے کا فیصلہ جن سنگھ نے کیا تھا، جب بی جے پی کا قیام بھی نہیں ہوا تھا!‘‘

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بی جے پی کے منتخب کردہ کشواہا وزیر نتیش کمار کے آبائی ضلع نالندہ سے ہیں۔ جے ڈی یو کے ایک وزیر نے کہا، ’’کشواہا، کرمی اور اقتصادی طور پر پسماندہ طبقہ ہمارا بنیادی ووٹ بینک ہے، لیکن بی جے پی ہمارے ساتھ کیے گئے سمجھوتے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہیں لبھانے کی کوشش کر رہی ہے‘‘

جے ڈی (یو) کے وزرا تسلیم کرتے ہیں کہ نتیش کمار، جو ماضی میں اپنی عددی طاقت کم ہونے کے باوجود راجیہ سبھا کی سیٹ حاصل کر لیتے تھے، اب ایک بے بس تماشائی بن چکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کے بارے میں افواہیں تھیں کہ وہ نیورو ڈی جینیریٹیو بیماری میں مبتلا ہیں، مگر اسمبلی میں ان کی تقریر جوش سے بھری ہوئی تھی اور وہ ایک بار بھی نہیں لڑکھڑائے۔

نتیش کمار کی گفتگو اب صرف مخصوص افسران، قریبی ساتھیوں اور معتمد افراد تک محدود ہو چکی ہے اور کسی کو معلوم نہیں کہ وہ اپنی پارٹی کے مستقبل کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں۔ ان کے بیشتر ایم ایل اے اس بات سے مایوس ہیں کہ انتخابات سے پہلے یا بعد میں پارٹی بکھر سکتی ہے۔


اسمبلی میں تیجسوی یادو نے کہا، ’’میں 36 سال کا ہوں، مجھے جیتنے کے لیے جملوں کا سہارا نہیں لینا پڑتا۔ میرا سیاسی سفر طویل ہے اور میں جو کہوں گا، وہی کروں گا۔‘‘ انہوں نے بہار کی کابینہ میں شامل درجن بھر وزیروں کے نام گنواتے ہوئے کہا، ’’اور آپ مجھ پر خاندانی سیاست کا الزام لگاتے ہیں؟‘‘

مسلم-یادو ووٹ بینک کے باوجود تیجسوی یادو اپنی پارٹی کا دائرہ مزید وسیع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کھلے عام یادو برادری سے کہا کہ وہ دوسرے طبقات کے ساتھ بہتر برتاؤ کریں اور سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ تاہم، غیر یادو او بی سی اور اقتصادی طور پر پسماندہ طبقات میں ان کی مقبولیت اب بھی محدود ہے اور وہ اس پر زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔

ان کی ایک اور بڑی کمزوری یہ ہے کہ ان کے اپنے ایم ایل اے اکثر شکایت کرتے ہیں کہ تیجسوی ان کے لیے دستیاب نہیں ہوتے، اور ان کے لیے لالو پرساد تک پہنچنا کہیں آسان ہے۔ تیجسوی یادو، ریاستی راجیہ سبھا ممبر سنجے یادو جیسے نوجوان رہنماؤں کے ساتھ زیادہ آرام دہ محسوس کرتے ہیں اور نوجوان صحافیوں سے گفتگو میں بھی وہ زیادہ کھل کر بات کرتے ہیں۔ ادھر، پپو یادو جیسے دیگر او بی سی رہنماؤں کے ساتھ ان کے تعلقات زیادہ خوشگوار نہیں رہے اور اس کا اثر بھی آنے والے انتخابات میں پڑ سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔