باجپٹی اسمبلی حلقہ: سیکولر ووٹوں کی تقسیم کے باوجود مہاگٹھ بندھن کی جیت کا قوی امکان
بہار اسمبلی انتخاب 2025 میں سیتامڑھی کا باجپٹی حلقہ توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ اقلیتی ووٹ کی تقسیم، آزاد امیدواروں کی موجودگی اور این ڈی اے کی متحد حکمتِ عملی نے مقابلہ سخت کر دیا ہے

بہار اسمبلی انتخاب 2025 حکمراں جماعت اور اپوزیشن، دونوں کے لیے کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں۔ ایک طرف حکمراں اتحاد اپنی گزشتہ دو دہائیوں کی حصولیابیوں کے بجائے آر جے ڈی کی پرانی حکومت اور موجودہ مہاگٹھ بندھن پر سوال اٹھا کر سیاسی برتری حاصل کرنا چاہتا ہے، تو دوسری جانب مہاگٹھ بندھن کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ سیکولر ووٹ، خصوصاً اقلیتی ووٹ کی تقسیم ہے۔ اس بار کے انتخاب میں اے آئی ایم آئی ایم اور جن سوراج جیسے فریقین کی موجودگی مہاگٹھ بندھن کے لیے مشکلات بڑھا رہی ہے۔
سیمانچل کے علاوہ بھی کئی ایسے اسمبلی حلقے ہیں جہاں اقلیتی ووٹرس جیت و ہار کا فیصلہ طے کرتے ہیں۔ انہی میں سے ایک سیتامڑھی کا باجپٹی حلقہ ہے، جہاں سے 2020 کے انتخاب میں مہاگٹھ بندھن کے حمایت یافتہ آر جے ڈی امیدوار مکیش کمار یادو کامیاب ہوئے تھے۔ اس بار بھی آر جے ڈی نے ان پر اعتماد ظاہر کیا ہے، مگر میدان پہلے جیسا نہیں رہا۔
اس بار جن سوراج نے شیوہر کے سابق رکن پارلیمنٹ انوار الحق کے بیٹے اعظم خان کو امیدوار بنایا ہے، جو جزوی طور پر مسلم ووٹ تقسیم کر سکتے ہیں۔ اسی طرح محمد منا منصوری، جو پہلے اے آئی ایم آئی ایم کے ٹکٹ کے متوقع امیدوار تھے، اب آزاد حیثیت سے میدان میں ہیں۔ وہ پچھلے دو برس سے علاقے میں سرگرم ہیں اور ان کی موجودگی سیکولر ووٹ کے مزید بکھراؤ کا سبب بن سکتی ہے۔
اقلیتی ووٹ کے مزاج پر نظر ڈالیں تو 2020 میں تقریباً تمام مسلم ووٹ مکیش یادو کے حق میں گئے تھے، مگر اس بار صورت حال مختلف ہے۔ عوامی رائے میں تقسیم ہے؛ کچھ لوگ انہیں سب کو ساتھ لے کر چلنے والا لیڈر مانتے ہیں، جبکہ دوسروں کا کہنا ہے کہ وہ صرف ایک خاص طبقے تک محدود ہیں۔
2020 میں این ڈی اے کی ہار کی ایک بڑی وجہ ووٹ بینک کی اندرونی تقسیم تھی۔ اس وقت اوپیندر کشواہا اور چراغ پاسوان کی جماعتوں نے جے ڈی یو کے خلاف اپنے امیدوار کھڑے کر دیے تھے۔ اس کے باوجود مکیش یادو کو صرف 2700 ووٹ کے معمولی فرق سے جیت ملی۔ مگر اس بار صورتحال بدل چکی ہے۔ این ڈی اے کے اتحادی یکجا ہیں اور اوپیندر کشواہا کی ’راشٹریہ لوک مورچہ‘ کے امیدوار رامیشور کمار مہتو کو اتحاد کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس لیے اس مرتبہ مہاگٹھ بندھن کے لیے باجپٹی کی راہ کہیں زیادہ دشوار دکھائی دے رہی ہے۔
’قومی آواز‘ سے گفتگو میں محمد جسیم، جو باجپٹی کے سماجی کارکن ہیں، نے بتایا کہ ’’یہ مسلم اکثریتی حلقہ ہے۔ یہاں کے مسلمانوں کی خواہش تھی کہ مہاگٹھ بندھن کسی مسلم امیدوار کو ٹکٹ دے۔ مکیش یادو سے ناراضی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے مسلم علاقوں میں ترقیاتی کام بہت کم کرائے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’2020 میں 99 فیصد مسلم ووٹ مکیش یادو کے حق میں گئے تھے لیکن اس بار اندازہ ہے کہ یہ شرح 50 سے 60 فیصد تک محدود رہے گی۔‘‘ ان کے مطابق اعظم خان کو کچھ مسلم ووٹ ملیں گے مگر اصل رجحان آزاد امیدوار منا منصوری کی طرف جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’علاقے کے لوگ کہتے ہیں کہ اگر آج ہم انہیں مضبوط کریں تو آئندہ وہ ٹکٹ کے مضبوط دعویدار ہوں گے۔‘‘
سیتامڑھی کے سیاسی مبصر ڈاکٹر ضیاءاللہ کے مطابق، ’’2020 میں مقابلہ براہ راست جے ڈی یو کی رنجو گیتا اور مکیش یادو کے درمیان تھا۔ مگر اس بار رنجو گیتا کو ٹکٹ نہیں ملا، اور این ڈی اے نے جو امیدوار میدان میں اتارا ہے وہ اس علاقے کے نہیں ہیں۔‘‘ ان کے بقول، ’’یہ انتخاب دراصل باہری اور اندرونی امیدوار کے درمیان مقابلے میں بدل چکا ہے۔‘‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سیکولر ووٹ تقسیم ہو رہا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ صرف قیاس ہے۔ حقیقت میں ایسا کوئی امیدوار نہیں جو پانچ ہزار سے زیادہ ووٹ لے سکے۔‘‘
باجپٹی کے ایک سرکاری استاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ’’یہاں تین طرح کا رجحان ہے- ایک طبقہ اب بھی سیکولر پارٹی کے ساتھ کھڑا ہے، دوسرا مسلم قیادت کے نعرے کو ترجیح دیتا ہے اور تیسرا کھلے عام این ڈی اے کی حمایت کر رہا ہے۔‘‘ ان کے مطابق، ’’اگرچہ ماحول میں تقسیم ہے مگر زیادہ امکان یہی ہے کہ مہاگٹھ بندھن دوبارہ کامیاب ہو، بشرطیکہ مسلم ووٹ بڑی حد تک متحد رہیں۔‘‘
باجپٹی حلقہ اس بار بہار انتخاب کے اہم ترین اور دلچسپ مقابلوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ یہاں ہر جماعت اپنی حکمتِ عملی بدل رہی ہے۔ آر جے ڈی اپنے رکن اسمبلی پر انحصار کر رہی ہے، جن سوراج مسلم قیادت کے جذبات کو ابھارنے کی کوشش میں ہے اور آزاد امیدوار میدان میں ایک نئی فضا بنا رہے ہیں۔
البتہ انتخابی ریاضی کے مطابق اگر مہاگٹھ بندھن کے اندرونی اختلافات اور اقلیتی ووٹ کی تقسیم برقرار رہی، تو اس کا براہِ راست فائدہ این ڈی اے کو پہنچ سکتا ہے۔ دوسری جانب اگر مسلم ووٹ متحد رہے تو باجپٹی میں مکیش یادو دوبارہ بازی مار سکتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔