بھارت نیٹ: دیہی ہندوستان میں انٹرنیٹ کی پہنچ اب بھی ایک خواب کیوں؟

بھارت نیٹ منصوبہ 2011 میں شروع ہوا تاکہ 6.5 لاکھ دیہات کو براڈبینڈ سے جوڑا جا سکے لیکن 2025 تک صرف 30.6 فیصد دیہات میں یہ سہولت پہنچ سکی

<div class="paragraphs"><p>سوشل میڈیا</p></div>

سوشل میڈیا

user

پوجا داس

پوجا داس

بھارت نیٹ، جو 2011 میں دیہی ہندوستان کو براڈبینڈ کنیکٹیویٹی سے جوڑنے کے لیے شروع کیا گیا تھا، اب بھی اپنے ہدف سے کوسوں دور ہے۔ حکومت نے 2025 تک تمام دیہات کو انٹرنیٹ سے جوڑنے کا اعلان کیا تھا، لیکن 6.5 لاکھ دیہات میں سے صرف 1.99 لاکھ یا 30.6 فیصد دیہات ہی اس سے جُڑ پائے ہیں۔

یہ منصوبہ تین مراحل میں نافذ کیا گیا تھا لیکن آج بھی متعدد مسائل کا شکار ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فنڈز کے ناقص استعمال، خطوں کے درمیان ناہمواری، اور اداروں کے درمیان ہم آہنگی کی کمی نے اس کی پیش رفت کو متاثر کیا ہے۔ سینٹر فار سوشل اینڈ اکنامک پروگریس (سی ایس ای پی) کے سینئر پالیسی مشیر دیپک مہیشوری کے مطابق، بھارت نیٹ کے مقاصد میں تبدیلی، وقت کی پابندی کی کمی اور مقامی ایجنسیوں کے ساتھ کمزور ہم آہنگی اس کی سست رفتاری کی بڑی وجوہات ہیں۔

بھارت نیٹ کا تصور 2011 میں نیشنل آپٹیکل فائبر نیٹ ورک (این او ایف این) کے تحت کیا گیا تھا اور 2012 میں بھارت براڈبینڈ نیٹ ورک لمیٹڈ (بی بی این ایل) قائم کی گئی تھی تاکہ اس پر عمل درآمد ہو سکے۔ 2015 میں ایک سرکاری کمیٹی نے اس کا نام بدل کر بھارت نیٹ رکھنے کی تجویز دی تاکہ اسے قومی ترقی کے وژن سے جوڑا جا سکے۔ مقصد یہ تھا کہ 2017 تک تمام دیہات میں 2 ایم بی پی ایس سے 20 ایم بی پی ایس تک کی رفتار کی براڈبینڈ سروس مہیا کی جائے، لیکن یہ ہدف پورا نہ ہو سکا۔

پہلے مرحلے میں 2011 سے 2014 کے درمیان 1 لاکھ گرام پنچایتوں کو فائبر نیٹ ورک سے جوڑنے کا ہدف تھا، مگر 2014 تک صرف 58 گرام پنچایتیں ہی جُڑ پائیں۔ دوسرے مرحلے میں 2015 سے مزید 1.5 لاکھ گرام پنچایتوں کو جوڑنے کا منصوبہ بنایا گیا، لیکن 2023 تک اس میں بھی صرف 86.75 فیصد ہی مکمل ہو سکا۔ تیسرے مرحلے میں 2025 تک تمام 6.5 لاکھ دیہات کو فائبر نیٹ ورک سے جوڑنے کا ہدف ہے، لیکن اس کی رفتار بہت سست ہے۔


بھارت نیٹ کے تحت دیہی علاقوں میں براڈبینڈ پہنچانے کے لیے ٹیلی کام کمپنیوں اور مقامی کنٹریکٹرز پر انحصار کیا گیا تھا لیکن دیہی علاقوں میں ان کی کمی نے منصوبے کو متاثر کیا۔ انڈین کونسل فار ریسرچ آن انٹرنیشنل اکنامک ریلیشنز (آئی سی آر آئی ای آر) کی 2024 کی ایک تحقیق کے مطابق، بھارت نیٹ نے فرض کر لیا تھا کہ مقامی ٹیلی کام کمپنیاں دیہی علاقوں میں ’لاسٹ مائل کنیکٹیویٹی‘ فراہم کریں گی، مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ چنانچہ حکومت کو اپنی حکمت عملی بدلنی پڑی اور ’رنگ ٹوپولوجی‘ اپنائی گئی، جس میں ایک ہی گاؤں کو کئی راستوں سے نیٹ ورک سے جوڑا گیا۔

تاہم، ان اقدامات کے باوجود، نیٹ ورک کا مناسب استعمال نہ ہونے کا مسئلہ برقرار ہے۔ آئی سی آر آئی ای آر کی تحقیق کے مطابق، 2023 تک دیہی علاقوں میں بھارت نیٹ کے ذریعے فراہم کیے گئے انٹرنیٹ بینڈوتھ کا صرف 1.19 فیصد ہی استعمال ہو رہا تھا، جبکہ فائبر آپٹک کنکشن کے ذریعے انٹرنیٹ تک رسائی صرف 2 فیصد دیہی گھروں تک محدود تھی۔

ڈیجیٹل انڈیا فنڈ کی ویب سائٹ کے مطابق، اب تک صرف 12.2 لاکھ فائبر ٹو دی ہوم (ایف ٹی ٹی ایچ) کنیکشن فراہم کیے گئے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ 97 فیصد دیہی خاندان اب بھی انٹرنیٹ سے محروم ہیں۔ دسمبر 2024 میں جاری کردہ سرکاری پریس ریلیز کے مطابق، بھارت نیٹ نیٹ ورک کے آپریشن اور دیکھ بھال کے ذمہ دار "کامن سروس سینٹرز" بھی ٹھیک سے کام نہیں کر رہے تھے، جس کی وجہ سے حکومت کو ایک ترمیم شدہ بھارت نیٹ پروگرام متعارف کروانا پڑا۔ اس میں 10 سالہ آپریشنل منصوبہ اور نیٹ ورک کے معیارات پر مبنی ادائیگی کا نظام شامل کیا گیا ہے۔

بھارت نیٹ کی ناکامی کے پیچھے کئی دیگر وجوہات بھی ہیں، جن میں کمزور بنیادی ڈھانچہ، دیہی علاقوں میں بجلی کی غیرمستحکم فراہمی، اور اراضی کے حقوق سے متعلق مسائل شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، 171,588.7 کروڑ روپے کے بجٹ میں سے اگست 2023 تک صرف نصف ہی خرچ کیا جا سکا تھا۔ دیپک مہیشوری کے مطابق، اصل مسئلہ فنڈز کی عدم دستیابی نہیں، بلکہ ریاستی حکومتوں کی کمزور مالیاتی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کی صلاحیت ہے۔


بھارت نیٹ کی تاخیر نے ای-گورننس، تعلیم اور صحت کے شعبوں پر بھی منفی اثر ڈالا ہے۔ 2025 میں متعارف کیے گئے "نیشنل براڈبینڈ مشن 2.0" کا ہدف 2030 تک دیہی علاقوں کے 90 فیصد اسکولوں اور صحت مراکز کو انٹرنیٹ سے جوڑنا ہے، مگر ماہرین کے مطابق، اس کی پیش رفت اور اثرات کی کوئی عوامی طور پر دستیاب جانچ رپورٹ موجود نہیں ہے۔

ای-گورننس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بنیادی ڈھانچے کی کمی دیہی علاقوں میں ڈیجیٹل سہولیات کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ وشاکھاپٹنم میں واقع تحقیقی ادارے لِب ٹیک کے سینئر محقق چکرادھر بدھو کے مطابق، ای-گورننس کے زیادہ تر ماڈلز زمینی حقائق کو نظرانداز کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے کمزور طبقات کو دشواریاں پیش آتی ہیں۔

تعلیم کے شعبے میں، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، صرف 24 فیصد سرکاری اسکولوں میں انٹرنیٹ دستیاب ہے، جس کی وجہ سے دیہی طلبہ آن لائن تعلیمی پلیٹ فارمز استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔ کووِڈ-19 کے دوران یہ مسئلہ شدت اختیار کر گیا، جب اسکولوں کو ڈیجیٹل تعلیم اپنانے پر مجبور ہونا پڑا۔

دیپک مہیشوری کے مطابق، بھارت نیٹ کے ذریعے ٹیلی میڈیسن، ڈیجیٹل مریضوں کے ریکارڈ، اور دیگر صحت سے متعلق سہولیات فراہم کرنے کا منصوبہ تھا، مگر یہ اب بھی محدود پیمانے پر دستیاب ہیں۔

آخر میں، بھارت نیٹ کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اگرچہ اس کا مقصد انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی فراہم کرنا ہے، لیکن دیہی آبادی میں اس کے استعمال اور آگاہی کی شدید کمی ہے۔ کنیکٹیویٹی کا اصل فائدہ اسی وقت ہوگا جب لوگوں کے پاس انٹرنیٹ سے جُڑنے کے لیے ضروری آلات، ڈیجیٹل خواندگی، اور خدمات کے بارے میں آگاہی ہوگی۔

بشکریہ: indiaspendhindi.com

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔