بھارت جوڑو یاترا: ہندوستان کی ’دوبارہ‘ تلاش...دوسرا حصہ

کنیا کماری سے 7 ستمبر 2022 کو شروع ہونے والی اور 30 ​​جنوری 2023 کو ختم ہونے والی 3750 کلومیٹر طویل 'بھارت جوڑو یاترا' کے دوران قومی آواز پر شائع ہونے والے فکر انگیز مضامین کے اقتباسات: دوسرا حصہ

<div class="paragraphs"><p>بھارت جوڑو یاترا:&nbsp;ہندوستان کی دوبارہ دریافت</p></div>

بھارت جوڑو یاترا:ہندوستان کی دوبارہ دریافت

user

قومی آوازبیورو

کئی معنوں میں لمبا راستہ طے کیا ہے

...

بھارت جوڑو یاترا / ٹوئٹر
بھارت جوڑو یاترا / ٹوئٹر

جب ہم نے 7 ستمبر کو یاترا شروع کی تو مختلف سوالات تھے، کیا روزانہ 25 کلومیٹر کا سفر کرنا ممکن ہے؟ کون ساتھ آنا پسند کرے گا؟ کیا لوگ ساتھ آنا پسند کریں گے؟ آج 60 دن کے سفر کے بعد، مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ وہ سوالات پیچھے رہ گئے ہیں۔ جیسا کہ ہمیں اسکول کے دنوں میں سکھایا جاتا تھا کہ جب آپ آگے بڑھتے ہیں تو صرف پاؤں ہی نہیں آگے بڑھتے بلکہ آپ کا دل، آپ کی ہمت، آپ کے ساتھ چلنے والے لوگ بھی آگے بڑھتے ہیں۔ ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی کامیابی سے توقعات بڑھ گئی ہیں اور اس کہاوت کا صحیح مطلب ہم تک پہنچ رہا ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ سب آسان تھا۔ پچھلے 60 دن جسمانی طور پر تھکا دینے والے تھے لیکن ہم اس سے ابر گئے اور اس بات سے حیران ہیں کہ یہ دن کتنی جلدی گزر گئے۔ اس دوران میں نے ساتھی مسافروں سے بہت سی دوسری چیزیں سیکھی ہیں۔ یہ انسانی طرز عمل کے معاملہ میں ایک قسم کا کریش کورس رہا ہے۔

یاترا میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جو براہ راست کانگریس پارٹی سے وابستہ ہیں اور دوسرے وہ جو براہ راست جڑے نہیں ہیں لیکن ہمارے ساتھ آئے ہیں۔ چھتوں پر کھڑے لوگ، دکانوں کے سامنے کھڑے لوگ، گاؤں کے داخلی راستوں پر کھڑے لوگ، اپنے موبائل پر ویڈیو بنا رہے لوگ- ان کی آنکھیں اور ان کے چہرے ہمیں محسوس کراتے ہیں کہ یہ سفر کتنا اہمیت کا حامل ہے۔ ہم ان چہروں کو پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں کتنے چیلنجوں پر قابو پانا ہے۔ ہم ایک نئی امید کے آثار دیکھ رہے ہیں۔

مثال کے طور پر ہمارے ساتھ آنے والی خواتین یاتریوں نے (یاد رکھیں وہ پارٹی کارکن نہیں ہیں) مہنگائی اور خاندان چلانے کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے بارے میں بات کی۔ نوجوانوں نے کم ہوتی ہوئی ملازمتوں اور روزگار میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کی بات کی۔ فوج میں بھرتی کی تیاری کرنے والوں نے بھی بے روزگاری پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ یاترا جہاں سے بھی گزری مختلف مقامات پر کپاس، سویابین یا گنا اگانے والے کسانوں نے اپنی مختلف مشکلات بیان کیں۔ خواتین کی حفاظت، کسانوں کی بڑھتی ہوئی لاگت اور انہیں ملنے والی کم قیمت، مزدوروں کے لیے مناسب اجرت، نوجوانوں کے لیے روزگار اور مہنگائی- یہ تمام مسائل یاترا کے دوران ہمارے سامنے آئے۔

مین اسٹریم میڈیا میں یاترا کی خبروں کی کمی کے پیش نظر یہ خاص طور پر اہم ہے۔ ہم نے اس کا پہلا مرحلہ مکمل کر لیا ہے اور ہم میں سے ہر ایک اپنے گھر جیسا محسوس کر رہا ہے، یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ملک نے سفر کے جذبے کو کتنی اچھی طرح سے سمجھا ہے۔ رپورٹنگ کی کمی نے اس کے اثرات کو متاثر نہیں کیا ہے اور اس بارے میں شکایت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس وقت کے بارے میں سوچیں جب ہمارے پاس ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کے لیے موبائل فون یا سوشل میڈیا نہیں تھا۔ ہم نے اپنا پیغام عام کرنے کے لئے اس وقت بھی طریقہ نکالا تھا اور حیرت انگیز طور پر اس سفر کے ساتھ بھی ویسا ہی ہوا۔ اب ہر کوئی اس کے بارے میں کسی نہ کسی طریقے سے جانتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ واٹس ایپ فارورڈز اور اس سے آگے جو ٹی وی چینلز اور اخبارات دکھاتے یا پرنٹ کرتے ہیں، اس سے آگے ہمارا اندرونی مواصلاتی نظام اب بھی موجود ہے۔ جھونپڑیوں یا ٹاٹ پٹی والی چائے کی دکانوں، بسوں اور ٹرینوں میں، کھیتوں میں، دفاتر میں- ہر جگہ، کسی نہ کسی شکل میں، کسی نہ کسی دن، صبح یا شام، یہ بحث جاری ہے کہ بھارت جوڑو یاترا جاری ہے۔

-- --

میڈیا کے ایک اور ساتھی نے پوچھا کہ کیا اس یاترا سے راہل جی کی شبیہ بہتر ہوگی؟ سوال خود ہی غلط ہے۔ اس یاترا نے ان کی شبیہ کو 'بہتر' نہیں کیا ہے، انہوں نے لوگوں کو سامنے حقیقی راہل گاندھی کو ظاہر کیا ہے- ایک حساس، خیال رکھنے والا، ذہین لیڈر جو لوگوں سے فوری اور آسانی سے جڑ جاتا ہے۔ وہ سب کو آرام دہ بناتا ہے، خواہ وہ عورت ہو یا بچہ یا بوڑھا، پڑھا لکھا ہو یا ناخواندہ۔

ان کی شبیہ کو داغدار کرنے کے لیے کروڑوں روپے لگائے گئے لیکن آخر کار لوگوں کو اصلی آدمی نظر آنے لگا۔ اور ان کے بارے میں پوچھے جانے والے ناقابل یقین سوالات کا سلسلہ ختم ہو گیا۔

(13 نومبر کو دہلی میں کنہیا کمار کی پریس بات چیت پر مبنی)

راہل گاندھی کے ساتھ سیلفی لینے کی ہوڑ، چائے بھی پیش کر رہے ہیں لوگ

...

بھارت جوڑو یاترا میں راہل گاندھی کی مقبولیت عروج پر
بھارت جوڑو یاترا میں راہل گاندھی کی مقبولیت عروج پر

راہل گاندھی کی پیدل یاترا پرسالہ سے تریویندرم شہر کی حدود میں جب پہنچی۔ پیدل یاترا پہنچنے کا وقت شام 6 بجے تھا لیکن یاترا ایک گھنٹہ تاخیر سے پہنچی۔ دیر سے آنے کی وجہ یہ رہی کہ راہل گاندھی عوام میں زبردست گھل مل رہے ہیں۔ کوئی سیلفی لینے کے لیے رکتا ہے تو کوئی انہیں پکڑ کر چائے پلانے کے لئے اپنے گھر لے جاتا ہے۔

راہل گاندھی جب پرسالہ سے آ رہے تھے تو راستے میں انہوں نے جھونپڑی کے باہر ایک شخص کو کھڑا دیکھا۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر اندر آنے کا اشارہ کیا اور راہل وہاں چلے گئے۔ راجیہ سبھا کے رکن پارلیمنٹ اور شاعر عمران پرتاپ گڑھی ان چار پانچ لوگوں میں شامل تھے جو جھونپڑی میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔ راہل نے وہیں چائے پی۔ جس شخص نے رہل گاندھی کو بلایا اس نے اپنا فون نکال کر عمران پرتاپ گڑھی کو دیا اور کہا کہ راہل گاندھی کے ساتھ میری تصویر کھینچ دو۔ اس طرح کے کئی واقعات راستے میں ہوتے رہتے ہیں، اس لیے یاترا میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ لیکن اس سے پیدل چلنے والی خواتین کو کچھ راحت ملتی ہے کیونکہ وہ اتنا تیز نہیں چل پاتیں جتنا تیز راہل چلتے ہیں۔

اس ہجوم میں چلنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ جیسے ہی آپ پیدل سفر کرنے والوں کے اس قافلے میں شامل ہوتے ہیں، آپ توانائی کے بہاؤ میں آجاتے ہیں اور قدم خود بخود اٹھتے ہیں، نعروں سے الگ جوش پیدا ہوتا ہے۔

راہل گاندھی کی اس پیدل یاترا کو پہلا چیلنج تریویندرم میں پیش آیا جہاں سب کو زرعی یونیورسٹی میں ٹھہرنا تھا۔ یہاں پر کیرالہ سی پی آئی اسٹوڈنٹ ونگ یونیورسٹی کے طلبہ ونگ نے احتجاج کیا۔ یہ نہیں معلوم کہ احتجاج کا مقصد کیا تھا، لیکن کانگریس نے جگہ بدل دی اور سینٹ میری اسکول میں سونے کا انتظام کیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ پیدل چلنے والے کنٹینر میں نہیں سوئے تھے۔ واضح رہے اس یاترا کو حکومت تمل ناڈو کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ کیرالہ میں ویسا تعاون نظر نہیں آرہا ہے۔ اس یاترا کا اصلی امتحان تو اس وقت ہوگا جب یہ بی جے پی حکومت والی ریاستوں سے گزرے گی۔ یہ چیلنج دگ وجے سنگھ کے لئے ہوگا جو سب کو اچھی طرح سے سنبھال رہے ہیں۔

کے سی وینوگوپال پیدل یاترا کے ساتھ ہیں لیکن رکن پارلیمنت ششی تھرور اس وقت وہاں پہنچے جب یاترا ترویندرم پہنچی۔ یہاں ایک بہت چھوٹی میٹنگ بھی ہوئی تھی جس میں صرف راہل گاندھی نے ہی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ کیرالہ تعلیم اور کمائی کے معاملے میں پورے ملک میں پہلے نمبر پر ہے۔

...دیپک اسیم


اتحاد کا پیغام

...

اونچی ذات کے سمجھے جانے والے لنگایت برادری کے رہنما جب کرناٹک کے میسور ضلع کے بدناوالو گاؤں میں ضیافت کے دوران دلت رہنماؤں کے ساتھ بیٹھتے تو تاریخ رقم ہو گئی۔ 29 سال بعد دونوں برادریاں گاؤں میں اکٹھی ہوئیں۔ یہ سب مارچ 1993 میں 3 دلتوں کے وحشیانہ قتل کے بعد پہلی بار ہوا۔ اس کا سہرا بھارت جوڑو یاترا اور کانگریس کے رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی کو جاتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف دونوں برادریوں کو اکٹھا کیا بلکہ دونوں بستیوں کے درمیان تحریک شروع کی۔ یہ گاؤں میں سڑک سے 180 میٹر کا فاصلہ عبور کر کے نہ صرف ایک ساتھ کھانا کھانے بلکہ دونوں برادریوں کو ایک ساتھ لانے کی ایک مثال تھی۔ یہ راستہ 1993 سے بند تھا۔ گاؤں کی تمام برادریوں کے بچوں کے ساتھ گاندھی نے رابطہ سڑک پر رنگ برنگی اینٹیں بچھائیں اور اس کا نام ’بھارت جوڈو روڈ‘ رکھا۔

گاؤں میں دلتوں اور لنگایت کے درمیان بات چیت گاؤں کے سدھیشور مندر میں دلتوں کے داخلے پر تنازعہ کے بعد ٹوٹ گئی تھی۔ اونچی ذات کے لوگوں نے دلتوں کو مندر میں داخلے سے منع کیا تھا۔ انہوں نے یہ مسئلہ متعلقہ حکام کے ساتھ اٹھایا اور انہوں نے دلتوں کے داخلے کو جائز قرار دیا۔ اس کے سبب دوسرے لوگ مشتعل ہو گئے اور 25 مارچ 1993 کو مندر سے واپس آنے والے 3 دلتوں کو قتل کر دیا گیا۔ قتل کی سی بی آئی تحقیقات کے بعد عدالت نے 23 میں سے 20 ملزمین کو مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی۔

چامراج نگر، میسور اور منڈیا کے میسور کے قدیمی علاقوں سے گزرتی ہوئی اور شمالی کرناٹک کے اضلاع بلاری اور رائچور کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے بھارت جوڑو یاترا تعلقات کو مضبوط بنانے کے اپنے نظریہ میں اس قسم سے پروان چڑھی۔

...ناہید عطاء اللہ، میسور (کرناٹک) میں 6 اکتوبر 2022 کو

لوگ اچھی طرح دیکھ اور محسوس کر رہے ہیں ’بھارت جوڑو یاترا‘ کا جادو

...

بھارت جوڑو یاترا
بھارت جوڑو یاترا

بھارت جوڑو یاترا 60ویں دن 7 نومبر کو مہاراشٹر میں تقریباً تین گھنٹے تاخیر سے پہنچی۔ لیکن دیگلور میں لوگوں کے جوش میں کسی طرح کی کمی دکھائی نہیں دی۔ کئی ہزار لوگ بھارت یاتریوں کا انتظار پورے جوش کے ساتھ کر رہے تھے۔ رات تقریباً 9.45 بجے جب ان لوگوں نے ریاست میں انٹری لی تو ان کا زبردست استقبال ہوا۔

دیگلور تلنگانہ سرحد سے جڑا ہوا ہے۔ اس کی آبادی 60 ہزار کے آس پاس ہے۔ دیگلور ناندیڑ ضلع کی تحصیل ہے۔ کبھی یہ حیدر آباد کے نظام کا حصہ تھا۔ لیکن صرف یہیں کے لوگ یہاں نہیں تھے۔ نہ صرف ریاست کے دور دراز علاقوں بلکہ ملک کے مختلف علاقوں سے لوگ یہاں پہنچے ہوئے تھے۔

ثقافتی اور علامتی نظریہ سے مہاراشٹر میں بھارت جوڑو یاترا کی شروعات کے لیے یہ جگہ بالکل معقول تھی۔ جغرافیائی، لسانی، مذہبی اور سماجی تنوع ظاہر کرنے والی یہ بالکل درست جگہ ہے۔ اس شہر کی ایک جانب تلنگانہ ہے۔ پہلے یہ جگہ آندھرا پردیش میں تھی۔ دوسری جانب کرناٹک ہے۔ ریاستوں کے لسانی بنیاد پر تشکیل نو کے وقت مراٹھی زیادہ بولنے والوں کی وجہ سے 1960 میں اسے مہاراشٹر میں شامل کر دیا گیا، لیکن یہاں کے لوگ تیلگو، کنڑ، اردو اور مراٹھی بولتے ہیں اور پوری اپنائیت و میل ملاپ کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہاں بہت کم آمدنی والے لوگ بھی رہتے ہیں، لیکن یہاں اس قسم کی غریبی نظر نہیں آتی جس طرح دیگر مقامات پر دکھائی دیتی ہے۔ یہاں مڈل کلاس طبقہ ہے لیکن یہ مبینہ طور پر غیر مدلل اور خواب دیرینہ والا طبقہ نہیں ہے۔ یہ کاروباری مرکز ہے لیکن ان کی اس قسم کی کاروباری ذہنیت نہیں ہے جیسی احمد آباد میں نظر آتی ہے۔ یہاں کی کثیر ثقافتی اور مذہبی برداشت کا بہت حد تک سہرا ’حیدر آباد تحریک آزادی‘ اور رامانند تیرتھ جیسے سَنت رویہ والے مظاہرین کو جاتا ہے۔

شنکر راؤ چوہان کی نسل نے یہاں سیاسی قیادت اور وراثت کو سنبھال رکھا ہے۔ گزشتہ سال ناندیڑ نے شنکر راؤ کی جنم صدی منائی اور ان کے صاحبزادے اشوک علاقہ میں بھارت جوڑو یاترا کے ’کپتان‘ ہیں۔ ان کی مضبوط منصوبہ بندی اور نہ صرف کانگریس بلکہ مختلف سول سوسائٹی گروپس کے لوگوں کو یاترا سے جوڑنے کی ان کی کوششوں نے اسے صحیح طریقے سےنمائندگی والا بنا دیا۔

راہل گاندھی بھی دیگلور کے کثیر مذہبی اور کثیر لسانی رنگ سے یکبارگی ہی جڑ گئے۔ بڑے اور عالیشان استقبال کے بعد انھوں نے چھترپتی شیواجی مہاراج کی مورتی پر مالا پہنائی۔ شیواجی مہاراج نے ہی 17ویں صدی میں ہندوستانی برصغیر میں پہلی بار ’سوراج‘ کا قیام کیا تھا۔ مختصر خطاب میں راہل گاندھی نے لوگوں سے شیواجی مہاراج کو عزت دینے اور ان کے اقدار پر چلنے کی گزارش کی۔ پھر وہ 10 کلومیٹر دور گرودوارہ گئے۔ تقریباً تین ہزار لوگوں کے ساتھ مشعل یاترا میں بھی وہ شامل ہوئے۔ ان سب کے دوران تھکن کا کوئی نشان کہیں نہیں تھا۔ راہل کا دن تقریباً وسط شب کو ختم ہوا، اس کا مطلب علی الصبح تلنگانہ سے لے کر دیر شب تک مہاراشٹر میں وہ چلتے ہی رہے۔ کنارے کھڑے لوگ اور سماجی کارکنان اتنی رات گئے بھی اس طرح تر و تازہ نظر آنے اور مسکراتے رہنے کی راہل کی مضبوطی، صبر اور صلاحیت کا تذکرہ کرتے رہے۔

سب کی گزارش قبول کرنا تو ممکن نہیں تھا، لیکن جو بھی ان سے ملا اس کی باتیں انھوں نے سنیں اور وہ بھی ’گرو‘ یا ’سبھی چیزوں کی جانکاری والے راہنما‘ کا دِکھاوا کیے بغیر ہی۔ وہ ان لوگوں کی ’من کی بات‘ پر رد عمل ظاہر کر رہے تھے۔ ان کا خود پر فوکس کم ہی تھا، اور نہ ہی وہ کیمروں کے اپنے پاس آ جانے کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ وہ راہل گاندھی نہیں تھے جیسا کہ کئی لوگ امید کر رہے تھے۔ بی جے پی کی ٹرولنگ آرمی اور مین اسٹریم میڈیا نے تنظیمی طور پر ان کی جو مبینہ ’پپو‘ والی شبیہ بنا رکھی ہے، وہ ہوا میں اڑ گئی۔ اس کی جگہ ہزاروں لوگ انھیں فکرمند، ہمدرد اور بغیر تھکے سننے والے و کمیونکیٹر کے طور پر دیکھ رہے تھے۔

(کمار کیتکر سابق مدیر اور کانگریس سے راجیہ سبھا رکن ہیں)


آمروں کو لطیفوں سے نفرت کیوں ہے؟

...

بھارت جوڑو یاترا میں شرکت کرتے کامیڈین کنال کامرا / ٹوئٹر
بھارت جوڑو یاترا میں شرکت کرتے کامیڈین کنال کامرا / ٹوئٹر

اسٹینڈ اپ کامیڈین کنال کامرا نے یوگیندر یادو کے اس سوال کا بے باکی سے جواب دیا کہ وہ ’بھارت جوڑو یاترا‘ میں کیوں شامل ہوئے۔ دونوں کے درمیان ہونے والی ویڈیو گفتگو سوشل میڈیا پر مقبول ہو رہی ہے۔ یوگیندر یادو نے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ ٹی وی اینکر ان سے یہ ضرور پوچھیں گے کہ وہ یاترا میں کیا کر رہے ہیں اور آیا وہ سیاست میں اترنے یا کانگریس میں شامل ہونے کا منصوبہ بنا رہے ہیں؟ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ کنال کامرا کے پاس کوئی کام نہیں ہے اور فی الحال بے روزگار ہے؟

اس کے جواب میں اسٹینڈ اپ کامیڈین نے اعتراف کیا کہ ان کے لیے ہندوستان میں پرفارم کرنا مشکل ہو گیا ہے حالانکہ وہ ریاستہائے متحدہ کی ہر دوسری ریاست میں پرفارم کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک کام کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن دہلی، نوئیڈا اور گروگرام میں پولیس کی طرف سے درخواست مسترد کر دی جاتی ہے۔ وہ اب بھی مہاراشٹرا میں پرفارم کر سکتے ہیں، جہاں کی اخلاقیات علیحدہ ہیں اور ہر نظریے کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ کیرالہ کی تو بات ہی مت کیجئے کیونکہ وہاں لوگ آپ کی بات سننے کے لیے نہیں بلکہ آپ کو اپنی بات سنانے کے لیے آتے ہیں! کامرا نے مذاق کے لہجہ میں کہا کہ اگر کہیں مائیکروفون موجود ہے تو کامریڈ تو ضرور بولے گا!

کامرا نے مزید سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا کہ وہ 8 دسمبر سے ایک ہفتہ تک ’بھارت جوڑو یاترا‘ کا مشاہدہ کر رہے تھے، یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ اس یاترا میں کیوں شامل ہو رہے ہیں۔ ایک ہفتے سے زیادہ لوگوں کی باتیں سننے کے بعد وہ راہل گاندھی کے ساتھ چلنے پر راضی ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا ’’میں نے محسوس کیا کہ خوف سے باہر آئے بغیر کام نہیں چلے گا اور غیر جانبداری کی آڑ لینا مناسب نہیں۔‘‘

کامرا نے یادو کو یاد دلایا کہ وہ راہل گاندھی اور کانگریس پر بھی لطیفے سنا چکے ہیں۔ دراصل، بی جے پی نے کانگریس اور راہل گاندھی کا تمسخر اڑانے کے لئے لطیفوں کا زبردست استعمال کیا تھا لیکن اسی بی جے پی کے پاس وہ قوت نہیں ہے کہ وہ اپنے اوپر کہے جانے والے لطیفوں کو برداشت کر سکے۔

اسٹینڈ اپ کامیڈین، کارٹونسٹ اور طنز نگار حکومت اور پولیس کی گرفت میں کیوں ہیں؟ اس پر کامرا نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے کامیڈی کو کانگریس اور راہل گاندھی کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن آج کی کوئی بھی کامیڈی موجودہ نظام پر ہی کہی جانی چاہئے اور موجودہ نظام کتنا روادار ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

یوگیندر یادو نے اتفاق کیا اور کہا کہ انہیں اکثر ایسے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان پر ’غلط طرف‘ ہونے کا الزام لگاتے ہیں اور جو ان سے متفق نہیں ہیں، لیکن وہ ان کے خیالات کو خوش اسلوبی سے قبول کرتے ہیں لیکن کچھ لوگ مذاق اور مزاح پر زیادہ پرتشدد ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔

(کنال کامرا اور یوگیندر یادو کے ساتھ بات چیت میں)

یہ ایک چھوٹا قدم ہے، ہمیں اٹھانے ہیں اور بڑے قدم

...

<div class="paragraphs"><p>بھارت جوڑو یاترا / ٹوئٹر / @INCIndia</p></div>

بھارت جوڑو یاترا / ٹوئٹر / @INCIndia

جب یاترا دہلی میں داخل ہوئی تو میں تھوڑی دور کے لیے اس میں شامل ہوا۔ میں نے راہل جی سے کہا ’’راہل جی! اس بڑے قدم کے لیے مبارکباد۔‘‘ کانگریس لیڈر نے فوراً کہا ’’نہیں نہیں، یہ ایک چھوٹا قدم ہے، ہمیں اس سے کہیں بڑے قدم اٹھانے ہوں گے۔‘‘

راہل گاندھی نے بارہا واضح الفاظ میں کہا ہے کہ یہ یاترا سیاسی نظریات سے متاثر نہیں ہے، اس کا مقصد 'محبت پھیلانا' ہے۔ وہ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب سیاسی قوتیں اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے میڈیا کے بڑے حصے کی مدد سے نفرت اور ہزیمت کا ماحول بنا رہی ہیں، 'محبت پھیلانا' بہت اہم اخلاقی فریضہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگرچہ یہ ایک اخلاقی فعل ہے، تاہم کیا اس کا کوئی سیاسی پہلو نہیں ہو سکتا؟

گجرات جیسی صورتحال میں، جب سزا یافتہ عصمت دری کرنے والوں کا خیرمقدم کرنے والی قوت کو زبردست اکثریت کے ساتھ اقتدار میں لایا جاتا ہے، تو کوئی محبت کیسے پھیلا سکتا ہے؟ لوگوں کو اس کے مضر اثرات سے آگاہ کیے بغیر مین اسٹریم میڈیا کے ذریعے پیدا کیے گئے زہریلے ماحول کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ خود راہل گاندھی میڈیا کے افسوسناک کردار کے بارے میں بہت آواز اٹھاتے رہے ہیں اور یہ صحیح بھی ہے لیکن وہ ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی مجموعی سیاسی اہمیت کے بارے میں متضاد اشارے کیوں دیتے ہیں؟ یہ درست ہے کہ اس یاترا کو کسی تنگ نظری سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ ویسے بھی جو چیز سیاسی ہے، وہ تنگ ہونی چاہیے، ایسا ضروری تو نہیں۔

کچھ سیاسی پنڈتوں نے اس یاترا کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ یہ ایسی یاترا ہے جس کی کوئی 'منزل' نہیں۔ یہ غلط ہے۔ اس یاترا کی 'منزل' ایک جامع، جمہوری ہندوستانی سیاست اور ایک ہم آہنگ معاشرے کے خیال کا قیام ہے۔ راہل گاندھی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ بی جے پی کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھنے والا کوئی بھی بامعنی اپوزیشن اتحاد ایک سیاسی وژن کے ارد گرد ہی بنایا جا سکتا ہے، کسی لیڈر کی چمک کے ارد گرد نہیں۔

میڈیا کی مدد سے وزیر اعظم مودی کی چمک پیدا کرنے کے علاوہ، بی جے پی نے کامیابی سے خود کو ایک مضبوط اور قابل فخر ہندوستان کے لیے پرعزم پارٹی کے طور پر پیش کیا ہے۔ مودی کو اس خوابیدہ مقصد کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا اور کانگریس کو اس سے لاتعلق پارٹی کے طور پر پیش کیا گیا۔ اسے مرکز میں رکھتے ہوئے ہی بی جے پی نے 'کانگریس مکت' ہندوستان کا تصور پیش کیا۔

بدقسمتی سے گزشتہ ایک دہائی کے دوران کانگریس قیادت نے پارٹی میں 'سیاست' کے تئیں ایک طرح کی بے حسی کا پیغام دیا ہے۔ اس نے 'گڈ گورننس' کے مبہم خیال پر بہت زیادہ زور دیا اور 'جامع قوم پرستی' کو ہاتھ سے پھسلنے دیا جو اس کی سیاسی میراث میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں نفرت کے پھیلاؤ کو روکنا اور قرون وسطیٰ کی سوچ اور تعصب کی طرف جانے والے عمل کے پہیے کو واپس موڑنا صرف ایک جامع ہندوستانی قوم پرستی کے سیاسی ڈھانچے میں ہی کیا جا سکتا ہے جس کا مقصد محروموں اور غریبوں کو بااختیار بنانا ہے۔ بھارت جوڑو یاترا اس سمت میں ایک بہت ضروری قدم ہے۔ آخرکار، 'قوم' کا مطلب ہے اس کے لوگ، نہ کہ خالی بیان بازی اور لوگوں کو خیالی 'اندرونی دشمنوں' کے خلاف اکسانا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت جوڑو یاترا کا اخلاقی پیغام اہم ہے لیکن اس کے سیاسی نتائج بھی کم اہم نہیں ہیں۔ یاترا کے سیاسی امکانات کا اندازہ نہ صرف بی جے پی کی ’ٹرول آرمی‘ بلکہ اس کے سینئر لیڈروں کے شدید ردعمل سے لگایا جا سکتا ہے۔ جس آسانی کے ساتھ راہل گاندھی اور ان کی یاترا میڈیا کے ایک حصے اور بی جے پی سمیت دیگر سیاسی حریفوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کر رہی ہے، وہ کانگریس میں نئی ​​زندگی کی علامت ہے۔۔

...پرشوتم اگروال


اب عوام کا امتحان

...

بھارت جوڑو یاترا / ٹوئٹر
بھارت جوڑو یاترا / ٹوئٹر

ایک سیاسی پارٹی کے طور پر بی جے پی تمام برائیوں کا جماؤڑا ہو سکتی ہے، لیکن وہ بے وقوف تو قطعی نہیں ہے۔ اور فی الحال اسے اندازہ ہو گیا ہے کہ 2024 کے لوک سبھا یا پھر حالیہ اسمبلی انتخابات کے لیے راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کوئی اچھی خبر نہیں۔ بی جے پی نے جس طرح سے پدیاترا کو ٹی-شرٹ اور جوتے تک محدود کرنے کی کوشش کی، جس طرح سے اس نے اس کا ’بھارت توڑو یاترا‘ اور ’کانگریس جوڑو یاترا‘ کہہ کر مذاق بنایا، اس سے بھگوا خیمہ کی گھبراہٹ ہی دکھائی دیتی ہے۔ پھر بھی، یہ ہتھکنڈے کام کرتے نہیں دکھائی دے رہے۔ اسی وجہ سے بی جے پی پریشانی اور مایوسی میں ہے۔

گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران بی جے پی نے راہل گاندھی کی شبیہ ناسمجھ اور سیاست کے لیے ’مسفٹ‘، پارٹ ٹائم لیڈر کی بنانے کی کوششوں میں کافی وقت اور سینکڑوں کروڑ روپے خرچ کیے۔ جھوٹ کی اس زراعت سے بی جے پی ووٹ کی فصل کاٹتی رہی۔ لیکن راہل گاندھی کے پاس اس حملہ کا مقابلہ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا، کیونکہ بی جے پی نے پریکٹیکل پورے پرنٹ اور ٹیلی ویژن میڈیا کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ راہل گاندھی کے پاس لوگوں تک اپنی بات پہنچانے کا کوئی مضبوط ذریعہ نہیں بچا تھا۔ وہ نہ تو لوگوں کو اپنی پالیسیوں کے بارے میں بتا سکتے تھے اور نہ ہی یہ ظاہر کر سکتے تھے کہ بھگوا پارٹی نے انھیں جس طرح ظاہر کیا ہے، وہ اس سے بالکل الگ انسان ہیں۔ راہل میں کچھ خاص نہیں ہوتا تو انھوں نے بھی مایاوتی، نوین پٹنایک، جگن ریڈی اور چندربابو نائیڈو کی طرح ہار مان لی ہوتی۔ لیکن وہ اس کا حل تلاش کرنے کے لیے ماضی میں گئے۔ انھوں نے ہندوستان کی جدوجہد کے سب سے طاقتور اسلحوں میں سے ایک پد یاترا پر جانے کا فیصلہ کیا۔

کچھ لوگ مذاقیہ انداز میں پوچھتے ہیں کہ اس یاترا کا مقصد کیا ہے؟ اس کا سب سے اچھا جواب خود راہل گاندھی نے دیا جب ایک صحافی سے انھوں نے کہا کہ ’’بھارت جوڑو یاترا کا پیغام لوگوں کے لیے منکسر المزاجی، ہمدردی اور احترام ہے۔ ہم کسی کو گالی نہیں دے رہے، کسی کو دھمکی نہیں دے رہے۔ ہم نرمی کے ساتھ چل رہے ہیں۔‘‘

اس بات سے انکار نہیں کہ راہل گاندھی آج وہ کر رہے ہیں جس کی ملک کے کسی بھی اور لیڈر میں ہمت نہیں ہے۔ بالکل لوگوں کے درمیان چلے جائیں، بغیر کسی تام جھام کے اور ان کے ساتھ پانچ ماہ تک رہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ پانچ ماہ بعد ہندوستان کو خود کو ثابت کرنا ہوگا اور بتانا ہوگا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔

...ابھے شکلا

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔