اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی!
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کو بھی ان امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اپنے دیرینہ دوست ملک ہندوستان کے ساتھ مل کر آگے بڑھنا چاہئے

ہندوستان کے دیرینہ دوست بنگلہ دیش کے حوالے سے آج کل میڈیا کے ایک گروپ میں ماتم اور بڑا واویلا ہو رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش میں اقلیتوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کے مذہبی مقامات کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ہندوستان کے متعدد علماء کرام اور مسلم تنظیموں کے رہنماؤں نے بھی اپنے اپنے بیان جاری کر کے بنگلہ دیش میں ہونے والے مبینہ تشدد کی مذمت کی ہے اور مقامی شہریوں سے امن اور ہم آہنگی کا دامن مضبوطی سے تھام کر قومی مفاد میں کام کرنے کی اپیل کر چکے ہیں۔ تاہم بنگلہ دیش کی عبوری حکومت اقلیتوں کے ساتھ کسی طرح کے امتیازی سلوک سے انکار کرتے ہوئے میڈیا پر افواہیں پھیلانے کا الزام لگا رہی ہے۔
روزگار اور معیشت سمیت مختلف محاذ پر بحران کے شکار بنگلہ دیش میں آخر یہ حالات کیوں پیدا ہوئے اور روزی روٹی کی فکر چھوڑ کر نوجوانوں نے تشدد کا راستہ کیوں اپنایا؟ اس طرح کے کئی اہم سوال ہیں جن پر انتظامیہ کو سنجیدگی سے غور کرنے اور ان کا تصفیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہیں ایک اور بات جو سب سے زیادہ غور کرنے کے قابل ہے وہ یہ کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ دنیا کے مختلف حصوں میں ان کے برادران ایمانی پر ڈھائے جا رہے مظالم اور میڈیا کے دوہرے کردار سے عاجز آ کر بنگلہ دیشی مسلمان اپنا غصہ ظاہر کر رہے ہیں؟ کیونکہ غزہ، لبنان، عراق، شام سمیت کئی ممالک میں تشدد برپا ہے اور سبھی جانتے ہیں کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون ہے مگر میڈیا ظالم کو مظلوم ثابت کرنے میں مصروف ہے۔
تشدد کہیں بھی ہو غیر جانبدار ہو کر اس کی مخالفت اور مذمت کی جانا چاہئے، مظلوم کو اس کے مذہب کی بنیاد پر ظالم بتانے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے۔ ظلم کرنے والا کوئی بھی ہو اسے ہر سطح پر ظالم ہی کہنا ہوگا تبھی انسانیت کا سربلند رہ سکے گا اور مظلوم کو انصاف مل سکے گا۔ اس سلسلے میں میڈیا کا کردار اور بھی زیادہ اہم ہو جاتا ہے اس لئے صرف بنگلہ دیش ہی نہیں جہاں جہاں بھی اقلیتوں کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے، ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس کی مخالفت کر کے مظلوموں کے درد پر مرہم لگانے کا کام کرنا ہوگا۔ ’اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی‘ والا رویہ ترک کر کے اب انسان کو انسان ہی سمجھنے کی ضرورت ہے، انسانیت کا معیار مذہب کی بنیاد پر طے کرنا غلط ہے۔
بنگلہ دیش ہو، ہندوستان ہو یا کوئی اور ملک ہو، ہر جگہ بسنے والے شہری انسان ہیں ،ان کے ساتھ انسانوں والا سلوک کیا جانا چاہئے۔ مندر۔ مسجد اور مذہب کے نام پر انسانوں کو تقسیم کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے۔ ہمارے اپنے ملک میں اس وقت جو حالات پیدا کئے جا رہے ہیں اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کی اقلیتیں انسان نہیں ہیں۔ انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں، ان کے کھانے کا معیار طئے کیا جا رہا ہے، ان کے حقوق بتائے جا رہے ہیں حالانکہ ہمارے آئین میں تمام شہریوں کے حقوق واضح ہیں باوجود اس کے فرقہ پرست عناصر اپنی منافرت کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لئے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو ان کی حیثیت بتانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں میڈیا کو اپنی ذمہ داری نبھانی چاہئے، اسے ہزاروں کلو میٹر دور نظر رکھنے سے پہلے اپنے اطراف میں دیکھنا چاہئے جہاں شرپسند عناصر ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو پارہ پارہ کرنے پر آمادہ ہیں۔ آج کل ہمارے یہاں ’مسجد کے نیچے مندر‘ بتانے کا ایک نیا ٹریند چل پڑا ہے جس کی وجہ سے تشدد، جانوں کا ضیاع، املاک کو نقصان ہو رہا ہے۔ اور یہ سب مذہبی مقامات کا تحفظ قانون 1991 کی موجودگی میں ہو رہا ہے۔ اس قانون کا نفاذ فرقہ وارانہ کشیدگی کو روکنے اور تمام مذہبی مقامات کو ان کی 15 اگست 1947 والی حیثیت پر برقرار رکھنے کی ضمانت کے طور پر ہوا تھا تاکہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھا جا سکے اور عبادت گاہوں سے متعلق تنازعات کو روکا جا سکے۔
اس کے باوجود فرقہ پرست عناصر مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے بارے میں جھوٹے دعووں کی تشہیر کر کے سماج کو مذہبی تقسیم، فرقہ وارانہ انتشار اور معاشرتی منافرت و تنازعات میں الجھائے رکھنے کی منصوبہ بند کوششیں کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں انتظامیہ، پولیس اور ریاستی اداروں کو غیر جانبداری سے کام کرنا چاہئے اور آئینی اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے سیاسی ایجنڈوں کا آلہ کار بننے سے گریز کیا جائے۔ تحقیق اور سروے کے نام پر مذہبی مقامات تحفظ قانون سے کھلواڑ بند کیا جائے ۔ انسانی حقوق کے محافظوں، صحافیوں اور سماجی کارکنوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جانا چاہئے۔ اس قسم کی بے بنیاد عرضداشتیں داخل کرنے والوں کو قانون کے مطابق سزا دینا چاہئے۔
جو واقعات بنگلہ دیش میں پیش آ رہے ہیں اور جس پر ہندوستان اور یہاں کے عوام کو تشویش ہے ان پر بنگلہ دیش کو توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ صورتحال کو بہتر بنایا جا سکے۔ نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ ہر ملک میں اکثریت اور اقلیت سب کے ساتھ مساوی سلوک ہونا چاہئے اور کسی کے حقوق کی پامالی نہیں کی جانی چاہئے، عبادت گاہوں کا تحفظ کیا جانا چاہئے۔ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کو بھی ان امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اپنے دیرینہ دوست ملک ہندوستان کے ساتھ مل کر آگے بڑھنا چاہئے۔ چند روز قبل تریپورہ میں بنگلہ دیش ہائی کمیشن کے دفتر کے روبرو ہوئے احتجاج کو بنیاد بنا کر بنگلہ دیش نے ہندوستانی ہائی کمشنر کو طلب کیا تھا حالانکہ ہندوستان نے اس طرح کے احتجاج کو قابل افسوس قرار دیا ہے۔
ہندوستان اور بنگلہ دیش قریبی پڑوسی ممالک ہیں اور کئی برسوں سے دونوں ملکوں کے مابین گہرے اور دوستانہ تعلقات رہے ہیں اور دونوں ملکوں کے مابین اعتماد کی فضا بھی پائی جاتی تھی۔ شیخ حسینہ حکومت کے بعد جو واقعات رونما ہوئے ہیں ان کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہونے لگی ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں حکومتیں اس کشیدگی کو ختم کرتے ہوئے سابقہ خوشگوار تعلقات کو بحال کرنے کی سمت پہل کریں۔ جو واقعات بنگلہ دیش میں پیش آ رہے ہیں ان کی وجہ سے دو ملکوں کے تعلقات کو متاثر ہونے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے۔ اس سے دونوں ملکوں کے مفادات پر بھی منفی اثر پڑنے کے اندیشے ہو سکتے ہیں۔ جس کا براہ راست نقصان ان ملکوں کے شہریوں کو ہو سکتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔