بہادر شاہ ظفر: نرم دل، غریب پرور، شاعرانہ اور صوفیانہ مزاج کا پیکر شہنشاہ

بہادر شاہ ظفر ایک نرم دل، غریب پرور، شاعرانہ اور صوفیانہ مزاج کے پیکر تھے، جنہوں نے مروجہ علوم کے علاوہ فنون حرب گھوڑ سواری، تلوار بازی، تیر اندازی اور آتشیں اسلحہ پر مکمل دسترس حاصل کی

<div class="paragraphs"><p>بہادر شاہ ظفر / Getty Images</p></div>

بہادر شاہ ظفر / Getty Images

user

شاہد صدیقی علیگ

ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ غازی ؔ (ثانی) ہندوستان کے بیسویں اور آخری مغل شہنشاہ تھے، جو 24 اکتوبر 1775 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام اکبر شاہ ثانی اور والدہ کا نام لعل بائی تھا جوا ایک راجپوت گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ بہادر شاہ ظفر 1837 میں 62 سال کی عمر میں مغلیہ مسند پر متمکن ہوئے لیکن بارہ لاکھ روپے سالانہ وظیفہ خور بادشاہ کو وراثت میں ایسی نام نہاد حکومت ملی جس کی طاقت اور دائرہ اختیار کمپنی کے کوتوال سے بھی کم تھا۔

بہادر شاہ ظفر ایک نرم دل، غریب پرور، شاعرانہ اور صوفیانہ مزاج کے پیکر تھے، جنہوں نے مروجہ علوم کے علاوہ فنون حرب گھوڑ سواری، تلوار بازی، تیر اندازی اور آتشیں اسلحہ پر مکمل دسترس حاصل کی، خصوصاً وہ ایک بہترین نشانہ باز اور اعلیٰ گھوڑ سوار تھے، جن کا شمار اس عہد میں ہندوستان کے ڈھائی گھوڑ سواروں میں ہوتا تھا، ان کے بعد دوسرا نمبر مرزا جہانگیر بخت (بھائی) جبکہ نصف نمبر پر مہاراشٹر کا مرہٹہ گھوڑ سوار تھا۔

ہر عروجے را زوال است کے مماثل برصغیر میں صدیوں مغلیہ سلطنت کا سورج چمکنے کے بعد اس کی تمازت ماند پڑ چکی تھی۔ اسی اثنا میں 10 مئی 1857 کو میرٹھ کے دیسی سپاہیوں نے پہلی ملک گیر جنگ آزادی کا ناقوس پھونکا اور دلّی کا رخ کیا، جب ان باغی سپاہ نے 11 مئی کی صبح دہلی کی دہلیز پر قدم رکھا، تب بہاد رشاہ ظفر اس جھروکے میں تشریف فرما تھے۔ اچانک ان کی نظر آسمان میں اٹھتے گرد وغبار کی طرف اٹھی تو انہوں نے رسالہ دار کو سوار بھیج کر ماجرہ جاننے کی سعی کی، تو معلوم ہوا کہ میرٹھ کے باغی سپاہیوں کا لاؤ ولشکر ہے جو کمپنی بہادر سے بغاوت کر کے عالم پناہ کے حضور میں پیش ہونے کے لیے متمنی ہے۔ بہرکیف انہوں نے حضورِ معلی کو تمام واقعات سے آشنا کراتے ہوئے انقلابی تحریک کی عنان سنبھالنے کی اپیل کی۔

82 سالہ ضعیف العمر تاجدار ہند نے سپاہیوں اور کمپنی کے مابین گلے شکوے دور کرنے کے لیے ثالثی کردار ادا کر نے کی پیش کش کی مگر انقلابی سپاہی بضد تھے، چناں چہ کچھ لیت ولعل کے بعد بادشاہ سلامت رضامند ہو گئے اور آخر تک اسی مستقل مزاجی کے ساتھ کاربند رہے۔ ان کی حکمت عملیوں نے باغی فوجیوں کے حوصلوں میں ایک نئی جان پھونک دی۔ دلّی میں جوق درجوق انقلابیوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔


اسی بیچ 2 جولائی 1857 کو بریلی سے ایک تجربہ کار افسر بخت خاں مع لاؤ ولشکر وارد دہلی ہوئے جن کی آمد انگریزی اعلیٰ حکام کے منصوبوں پر بجلی بن کر گری جو انگریزی فتح میں آہنی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ بخت خاں نے محصور دلّی کو پٹری پر لانے کی پوری تگ ودو کی جس میں کافی حد تک وہ کامیاب بھی رہے۔ بخت خاں کی کمان میں انقلابیوں نے فرنگیوں کو دلیری اور پامردی سے دن میں تارے دکھا دیے تھے، لیکن حریت پسندوں کو ایک ساتھ متعدد محاذ پر لڑنا پڑ رہا تھا۔ بہادر شاہ ظفر نے ہندوستان کے اوپر منڈلاتے ہوئے خطرے کو بھانپ کر راجپوتانہ سمیت تمام ریاستوں کو تعاون کے لیے خطوط روانہ کیے۔

”میری خواہش ہے کہ فرنگی جس طرح بھی ہوہندوستان سے نکال دیے جائیں اور ملک آزاد ہو لیکن آزادی کی جنگ اس وقت کام یاب ہو سکتی ہے جب ایک قابل شخص جو تحریک کا تمام بار اپنے کاندھوں پہ لے کرمنتشر قوتوں کو منظم کر سکے اور اس بغاوت کی رہ نمائی کے لیے آگے بڑھے میں ذاتی طور پر حکومت کی کوئی خواہش نہیں رکھتا اگر تم دیسی راجگان اپنی تلوار دشمن کے خلاف بے نیام کرنے کو تیار ہوتو میں ان کے حق میں شہنشاہی سے مستعفی ہو جاؤں گا۔“

اس طرح انہوں نے کشادہ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تخت وتاج سے دستبرداری کی منشا بھی ظاہر کر دی تھی مگر ان کے خون اتنے سپید ہو چکے تھے کہ انہوں نے ان کا جواب دینا بھی گوارا نہ کیا۔

معاملہ شناس بادشاہ سلامت نے اقتصادی بحران سے نکلنے کے لیے بھی عاجلانہ انداز میں انتھک کوشش کی۔ انہوں نے دلّی کے بینکوں سے شاہی خزانے کو بھرنے کی اپیل کی، تاہم سپاہیوں کو تنخواہ ادا کرنے کے لیے ایک لاکھ روپے سے زیادہ کی رقم جمع نہ ہو سکی، یہاں تک کہ ان کے حکم سے ایک ٹکسال بھی قائم کی گئی لیکن وہ بھی لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کرنے میں کامیاب نہ رہی۔

مغلیہ سلطنت میں ہند ومسلمان گاڑی کے دو پہیوں کے مترادف تھے جس کی وجہ سے انقلاب کا بگل بجتے ہی دونوں شانہ بہ شانہ انگریزی فوج سے معرکہ آرائی کر نے لگے،جو کمپنی کے وجود کے لیے خطرے کی گھنٹی تھا۔ چناں چہ بخت خاں نے عالم پناہ کے حکم سے 9 جولائی کو ڈھنڈورا پٹوایا کہ جوگائے ذبح کرے گا وہ توپ کے منھ سے اڑایا جائے گا، اس منادی سے انگریزوں کے خواب چکنا چور ہو گئے۔


حضور والا نے ہاتھی پر بیٹھ کر شہریان اور انقلابیوں سے پوری جو ش ولولے کے ساتھ انگریزوں کا مقابلے کرنے کی اپیل کی، وہ بہ ذ ات خود مورچے اور آلات ِ حرب کے تئیں پورے فکر مند تھے بعض موقعوں پر انہوں نے محاذ پر جاکر ہتھیار و توپوں کا جائزہ لیا۔19 جولائی 1857 کو بخت خاں اور ان کے فوجیوں نے انگریزوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا، ان کی مغربی چوکیوں پر قبضہ کر لیا، مگر انگریز ہار کہاں ماننے والے تھے،انہوں نے نمک خواروں کو انقلابیوں کے اسلحہ خانہ اڑانے کا حکم دیا،جنہوں نے اسے 7 اگست کو اڑا دیا، جس میں کافی جانی نقصان ہوا۔

الغرض دلّی میں شریک غیر منظم انقلابیوں اور انگریزی فوجوں کے مابین11 مئی تا 20 ستمبر 1857 مقابلہ جاری رہا۔عالم انتخاب شہر کا ہر کوچہ وبازار میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا۔ کمپنی نے ہندوستانی حلیفوں کی بدولت دلّی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔

دل برداشتہ بہادر شاہ ظفر نے 19 ستمبر کو اپنے پورے خاندان اور عملے کے ساتھ محل چھوڑ کر اجمیری گیٹ کے راستے ہمایوں کے مقبرے میں جانے کا فیصلہ کیا۔ بخت خاں اپنے مورچے پے ڈٹے ہوئے تھے جیسے ہی انہوں نے سنا وہ ویسے ہی بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، جہاں پناہ کو زمینی حقائق سے روبرو کراکر اپنے ساتھ چلنے کی گزارش کی تو بادشاہ سلامت نے جواب دیا کہ ہم ہمایوں کے مقبر ے جاتے ہیں، تم کل صبح وہاں آؤ۔ اگلے روز 21 ستمبر 1857 کو وعدے کے مطابق جنرل بخت خاں، ڈاکٹر وزیر خاں اور مولانا فیض احمد بدایونی بہادر شاہ ظفر سے ملے مگر بادشاہ سلامت اپنے فریبی سمدھی مرزا الٰہی بخش کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن چکے تھے، دلّی کو چھوڑنے کوراضی نہ ہوئے، مایوس بخت خاں بادشاہ کوان کے حال پہ چھوڑ کر اپنی فوج کے ساتھ مشرقی دروازے سے دریا کی طرف اتر گئے۔ بہرحال مرزا الٰہی بخش اپنے ناپاک مقصد میں کامیاب ہو گیا، اس نے فوراً اس کی خبر برٹش خیمہ کو پہنچائی تو ہڈسن آخری تاجدار ہند کو گرفتار کرنے کے لیے پہنچ گیا۔ الغرض مؤرخہ 21 ستمبر 1857 مغلیہ تاریخ کاوہ سیاہ دن ہے جب بہادر شاہ ظفر، ز ینت محل اورشہزادے جواں بخت نے جا ن بخشی کے وعدے پر خود کو ہڈسن کے حوالے کیا۔

بہادر شاہ ظفرحراست کے دوران ہر لمحہ ذلت کے گھونٹ پینے کے علاوہ مختلف روحا نی اور جسمانی اذ یتں جھیلنی پڑیں، بے رحم ہڈسن نے مرزا مغل، مرزا خضر سلطان اور مرزا ابو بکر کو گولی مار کر ان کا سرتن سے جدا کر کے بادشاہ کو بطور نذر انہ پیش کیا، جسے دیکھ کر ان کی زبان سے برجستہ نکلاکہ’تیموری نسل کے غیور شہزادے اپنے بڑوں کے سامنے اسی طرح سرخرو ہوتے ہیں۔


27 جنوری 1858 کو صج11 بجے بہادر شاہ ظفر کے نمائشی مقدمہ کی سماعت ایک خود ساختہ ملٹری کمیشن نے شروع کی۔ جس کی کارروائی لال قلعے کے دیوان خاص میں 21 روز چلی۔ مقدمہ میں حکیم احسن اللہ خاں، مکند لعل اور جاٹ مل وغیرہ کی گواہیوں نے اہم کردار ادا کیا۔ پنجاب کمشنر لارنس کی ایما پر تشکیل شدہ عدالت نے 9 مارچ 1858 کو کمپنی کے حق میں فیصلہ سنایا کہ معزول مغل بادشاہ کو مسلمانوں سے علیحدہ رکھنے کے لیے اسے سمندر یا کسی جزیرے میں بھیج دیا جائے لہٰذا 7 اکتوبر کو صبح چار بجے لیفٹیننٹ اومینی کی زیر کمان نویں لانسرس کی حفاظت میں جہاں پناہ، اہلیہ زینت محل، دو بیٹے مرزا جواں بخت اور مرزا شاہ عباس سمیت 35 شاہی افراد کو بذریعہ بیل گاڑیوں کے دلّی سے روانہ کیا۔ 83 سالہ ناتواں بادشاہ سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرتے ہوئے مؤرخہ 19 نومبر مرزا پور پہنچے۔ الحاصل ان کا جہاز 9 دسمبر 1858 کو رنگون بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا، جب سیاسی قیدی رنگون پہنچے تو ان کی رہائش کا کوئی معقول انتظام نہیں تھا چناں چہ انہیں مختلف خیموں نیز ایک گیراج میں بھی رکھا گیا کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا منتظم تھا،اس نے شاہی افراد کو بتاریخ یکم اپریل 1859 لیفٹیننٹ اومینی سے اپنی تحویل میں لے لیا۔ جنہیں 29 اپریل 1859 کی ایک نئی تعمیر شدہ عمارت میں منتقل کر دیا۔

بہا در شاہ ظفر کی صحت قید وبند کی زندگی سے مزید خراب ہو گئی۔ جہاں پناہ کو 6 نومبر 1862 کو فالج کا تیسرا دورہ پڑا اور 7 نومبر کی صبح 5 بجے 87 سال کی عمرمیں انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔

بہادر شاہ ظفر نے جلاوطنی میں جو غزلیں لکھیں۔ ان میں استعاراتی اندازاور کنایوں کی شکل میں اپنی دلی کیفیتوں کا عکس صاف جھلکتا ہے۔ مندر جہ ذیل شعر ان کے ذہنی کرب احساس اور بے بسی کا شاہد ہے۔

کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے

دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یا ر میں

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔