بریلی اور مرادآباد کمشنری کے ڈگری کالجوں کا برا حال

روہیل کھنڈ یونیورسٹی سےالحاق شدہ 512 کالجوں میں سے480 کالجوں میں گریجویشن کے داخلے ہوتے ہیں جن میں دو لاکھ 25 ہزار سیٹیں ہیں جن میں صرف 148029طلبا و طالبات نے ہی رجسٹریشن کرایا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ڈاکٹر مہتاب امروہوی

امروہہ: ایم جے پی روہیل یونیورسٹی بریلی سےالحاق شدہ سبھی ڈگری کالجوں کی حالت بہت خستہ ہوگئی ہےجہاں ابھی تک داخلے برائے نام ہوئے ہیں۔ خاص طور پر امروہہ ضلع کے 65 ڈگری کالجوں میں چالیس ہزار بی اے ، بی کام ،بی ایس سی سال اول کی سیٹیں ہیں جن پرابھی تک آن لائن محض تین ہزار تین سو داخلے ہوئے ہیں۔ ان میں بھی سبھی داخلے کنفرم نہیں ہیں جس کی وجہ سے کالجوں کےسامنےبند ہونےکی نوبت آ گئی ہے۔ روہیل کھنڈ یونیورسٹی نےسال اول میں داخلےکےلیے رجسٹریشن کی تاریخ ختم کردی اورویب سائٹ لاک کردی تھی جس سےکا لجوں کےانتظامیہ گھبرا گئےکیوں کہ کچھ کالجوں میں دو یا تین داخلے ہی ہو پائے ہیں۔ اب روہیل کھنڈ یونیورسٹی نےسال اول میں داخلےکے لیے 9 جولائی سے 12 جولائی 2018 تک رجسٹریشن کےلیےویب سائٹ کھولنےکا اعلان کیا ہے کیوں کہ ضلع کے کل 320 انٹر کالجوں میں سےاس سال انٹر کے امتحان میں 24 ہزارطلبا بیٹھے تھےجن میں یو پی بورڈ ، سی بی ایس ای اور دیگربورڈ بھی شامل ہیں۔ اس سال نتیجہ بھی 80 فیصد رہا۔ اس طرح بیس ہزار طلبا پاس ہوئے جن میں سےابھی تک تین ہزارتین سوکاداخلہ لمحہ فکریہ ہے۔

ہماری معلومات کے مطابق ضلع کےتقریباً پچاس فیصد طلبا و طالبات پروفیشنل کورسز کی کوچنگ کے لیے ضلع سے باہر چلے جاتے ہیں۔ بیس سے پچیس فیصد بچےدوسرے شہروں سے بی اے، بی کام اور بی ایس سی کرنےچلےجاتےہیں۔ بقیہ طلبا پہلے سرکاری ڈگری کالجوں میں داخلے کی کوشش کرتے ہیں کیوں کہ وہاں فیس کم ہوتی ہے۔ اس کےبعد ہی سیلف فائنانس کالجوں کی طرف رخ کرتے ہیں۔ خاص طور پر طالبات کا ایک بڑا حصہ ترک تعلیم کردیتا ہے۔

ایسا نہیں کہ صرف امروہہ کےکالجوں کی یہ حالت ہے بلکہ روہیل کھنڈ یونیورسٹی سےالحاق شدہ 512 کالجوں میں سے480 کالجوں میں گریجویشن کے داخلے ہوتے ہیں جن میں دو لاکھ 25 ہزار سیٹیں ہیں جن میں صرف 148029طلبا و طالبات نے ہی رجسٹریشن کرایا ہے اور 143488 نے اپنا داخلہ کنفرم کرایا ہے، جس سےسبھی سرکاری اورسیلف فائنانس کالجوں کے سامنے مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔ سرکاری اور امداد یافتہ کالجوں کے بعد سیلف فائنانس کالجوں کی حالت بہت ہی خستہ ہے۔ دور دراز اور دیہات کے کالجوں میں ایک دو ہی رجسٹریشن ہوئے ہیں۔ حالانکہ کالجوں کی انتظامیہ طلبا کے داخلے کے لیے کوشاں ہیں۔ جگہ جگہ پوسٹر و بینرلگا کر اور شہر و دیہات میں لاؤڈ اسپیکر لگا کر اشتہار کیا جا رہا ہے لیکن طلبا و طالبات کسی بھی طرح متاثر نہیں ہو رہے ہیں۔ کچھ کالج داخلہ کرانے پرفیس میں کمی اورتحائف دے کر اپنی فراخ دلی کا ثبوت دے رہے ہیں توکچھ کالجوں کے لوگ گھر گھر انٹر پاس طلبا سے رابطہ کر رہے ہیں لیکن پھر بھی داخلوں میں اضافہ ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔

ادھر یونیورسٹی سےالحاق شدہ دیگراضلاع کےڈگری کالج میں صورت حال بہت خراب ہو رہی ہے۔ ان 480 کالجوں کےمنتظمین بھی فکرمند ہیں کہ ان کےکالج اس سال کیسےچلیں گے۔ یونیورسٹی کے حوالے سےیہ بھی پتا چلا ہےکہ کچھ کورسز کا نتیجہ بھی ظاہر نہیں ہوا ہے اس لیے ابھی کالج مایوس نہ ہوں۔ ادھرگریجویشن کر چکے طلبا و طالبات نے بھی پوسٹ گریجویشن میں داخلوں میں دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ امروہہ کے ایک نامی گرامی کالج میں ایم اے میں صرف دو داخلے ہیں جبکہ 240 سیٹ کی منظوری ہے۔ دیکھنا یہ ہےکہ 9 جولائی سے 12 جولائی 2018 تک کتنے رجسٹریشن ہوتے ہیں اور کتنے کالج بند ہونے سے بچتے ہیں، کیوں کہ کچھ ڈگری کالجوں کےمنتظمین نےاپنےکالجوں کی منظوری واپس کرنے کی درخواست کی ہے۔

امروہہ کے جے ایس ہندو پی جی کالج کے پرنسپل پروفیسر سدھانشو شرما اس سلسلے میں بتاتے ہیں کہ ’’یونیورسٹی کےذریعہ داخلوں کا کام بغیر تیاری کےشروع کر دیا گیا اور اس سے متعلق کوئی ہوم ورک نہیں کیا گیا جس کی وجہ سےطلبا کو بیحد پریشانی ہوئی ہے۔‘‘ آن لائن رجسٹریشن کا طریقہ کو بھی انھوں نے بہت ہی پیچیدہ قرار دیا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’یونیورسٹی آن لائن کا کام دباؤ میں کر رہی ہے۔ کبھی رجسٹریشن کھولتی ہے کبھی بند کرتی ہے، جس سے کنفوزن ہوتا ہے۔ بچوں کی تعلیم پر برا اثر پڑتا ہے۔‘‘ انہوں نے مطالبہ کیا کہ یونیورسٹی پہلے اس کی تیاری کرے پھر اس طریقےکوعمل میں لائے۔

نایاب عباسی پی جی کالج امروہہ کے سکریٹری ایم . اسلم فاروقی کا کہنا ہے کہ ’’یونیورسٹی نےجب سے آن لائن رجسٹریشن اور داخلے شروع کئے ہیں تب سے طلبا میں بے چینی ہےاور پیچیدگی کی وجہ سے بہت بچے داخلے سے محروم رہتے ہیں۔ بہت کم وقت کے لیے ویب سائٹ کھولی جاتی ہے جہاں سبھی بچوں کا رجسٹریشن یا داخلہ ممکن نہیں ہے۔‘‘ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’اس سسٹم کو نافذ کرنے سے پہلے یونیورسٹی کو چاہیے تھا کہ اس سے متعلق اسٹاف کو ٹریننگ دی جاتی اور اس کے بعد ہی عمل کیا جاتا۔ اور اس کے ساتھ آف لائن داخلے کا بھی سلسلہ جاری رہنا چاہیے تھا جس سے کہ سبھی بچوں کو تعلیم حاصل کرنے میں آسانی ہو۔ یونیورسٹی کو آن لائن سسٹم کو ابھی ملتوی رکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘

ہاشمی ایجوکیشنل گروپ کے چیرمین ڈاکٹر سراج الدین ہاشمی بھی داخلے میں کمی کے لیے آن لائن سسٹم کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یونیورسٹی کے روز بروز بدلتے قانون اور آن لائن سسٹم سے طلبا گھبرا رہے ہیں کیوں کہ یہ سسٹم ابھی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ بچے داخلہ لینا چاہتے ہیں لیکن نئے طریقہ کار سے وہ پریشان ہورہے ہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ’’اب یونیورسٹی نے 9 جولائی سے 12 جولائی تک ویب سائٹ کھولی ہے۔ اس سے داخلوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔‘‘ ڈاکٹر سراج الدین نے یہ بھی کہا کہ ’’آف لائن داخلے بھی کھلے رہنے چاہئیں تاکہ کوئی بھی تعلیم سے محروم نہ رہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔