باغی میرٹھ: پہلی جنگ آزادی کی 166ویں سالگرہ کے موقع پر... شاہد صدیقی علیگ

پہلی جنگ آزادی کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ قبل از وقت بھڑکی چنگاری ہے۔ اگر میرٹھ کے باغی سپاہی 31 / مئی تک اپنے جذبات پر قابو رکھتے تو یقیناً ہندوستان کی تاریخ دوسری ہوتی۔

<div class="paragraphs"><p>شاہ پیر صاحب کی درگاہ</p></div>

شاہ پیر صاحب کی درگاہ

user

شاہد صدیقی علیگ

جغرافیائی طور پر میرٹھ مغربی اترپردیش کا ایک اہم اور قدیمی شہر ہے جو دوآب کے بالائی زرخیر علاقہ میں واقع ہے۔ شہاب الدین غوری کے بعد اورنگ زیب عالمگیر کی وفات تک میرٹھ مسلمانوں کے زیر نگیں رہا۔ 1789ء میں میرٹھ پر مہاراجہ سندھیا کی حکومت قائم ہوئی اور 30/دسمبر1803ء کو دولت راؤ سندھیا نے ’سرجی ارجن صلح کے تحت میرٹھ کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے کر دیا۔ جس نے 1806ء میں ایک مضبوط چھاؤنی قائم کی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی سب سے بڑی چھاؤنی میں تبدیل ہوگئی۔ اس وجہ سے تمام قائدین کی میرٹھ پر خصوصی نظر تھی کہ اگر اس کی چھاؤنی پر انقلابیوں کا غلبہ ہوگیا تو دہلی سے بھی برطانوی عمل داری کا خاتمہ ہو جائے گا۔

باغی میرٹھ: پہلی جنگ آزادی کی 166ویں سالگرہ کے موقع پر... شاہد صدیقی علیگ

لہٰذا 1820ء کی دہائی میں سید احمد شہید نے میرٹھ آکر اہلیان عوام کو جھنجوڑا اور یہاں ایک وہابی مرکز قائم کیا جو خاموشی سے اپنے مقصد پر عمل پیرا ہوگیا۔ ان کے بعد مولوی احمداللہ نے 1856ء کے آخری ایام میں کچھ عرصہ ٹھہر کر کمپنی کے خلاف دیسی سپاہیوں کو برانگیختہ کیا۔ ان کے جانے کے بعد نانا صاحب اور ان کے مشیر عظیم اللہ مارچ یا اپریل1857ء میں میرٹھ آئے۔ مذکورہ رہنماؤں کی انقلابی تقاریر کا اثر دیسی سپاہیوں پر ایسا پڑا کہ میرٹھ چھاؤنی سے جو بھی سپاہی ملک کے کسی حصّہ کی جانب کوچ کرتا تھا وہ نعرہ لگاتا ہوا کہتا تھا کہ ”بھائیو! ہندو اور مسلمانو!! انگریزوں کو اپنے ملک سے باہر کرو۔“


حتیٰ کہ بابو کنور سنگھ بھی اپنے سب سے اہم رفیق شہید قاضی ذوالفقار علی خاں کو میرٹھ کا سفر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہماری فوج بھی تیار ہے، ہم یہاں سے شروع کریں گے اور تم میرٹھ سے۔ آخرکارمجاہدین کی انقلابی کاوشیں رنگ لانے لگیں۔ 23 /اپریل 1857ء کی رات کو چھاؤنی کی ملٹری میس میں ایک خفیہ میٹنگ ہوئی۔ جس میں دو مسلم سپاہی شیخ پیر علی (نائک) اور شیخ قدرت علی(نائک) نے ہندو سپاہیوں کو مقدس گنگا جل پر اور مسلم فوجیوں کو قرآن مجید پر حلف دلایا کہ وہ چربی لگے کارتوسوں کا استعمال نہیں کریں گے۔ جس کا ردعمل 24/فروری 1857ء کو اس وقت نظر آیا جب کارمائیکل اسمتھ کی موجودگی میں شیخ پیرعلی اور قدرت علی کے بعد یکے بعد دیگرے 85/سپاہیوں نے بھی کارتوس چھونے سے منع کر دیا۔ ان 85/ فوجیوں میں 49/مسلمان اور 36 /ہندو تھے۔

بہرکیف حالات نے ایسی کروٹ لی کہ طے شدہ مورخہ 31/مئی کے بجائے 10/مئی 1857ء کو میرٹھ کے باغی سپاہیوں نے کمپنی کا جوا اتار پھینکا۔ جس کا تذکرہ انگریزی خیرخواہ عبد الطیف اپنے روزنامچہ میں یوں کرتا ہے کہ ”یکایک میرٹھ کی زمین شور و شر سے ایک تیز آندھی چلی اور اس سے فتنہ و آشوب کا ایک غبار اٹھا اور چشمِ زدن میں دنیا اور دنیا والوں کو تہہ و بالا کر ڈالا۔ عجیب غبار تھا کہ سرکار انگریزی کی ہندوستانی فوج کا کوئی آدمی ایسا نہ تھا جس نے ہندوستان کی زمین تاریک پر بغاوت کا ارادہ نہ کیا ہو اور نئے انداز کی ایسی ہوا چلی کہ حکومتِ انگلشیہ کے لشکر کا کوئی تنفس زیرِ آسمان ایسا نہ تھا جو مخالفت پر آمادہ نہ ہو گیا ہو۔ اولاً اس کے سپاہی جو میرٹھ میں مقیم تھے، کیا ہندو اور کیا مسلمان، سب نے کارتوس کے بہانے سے اپنے.... ولی نعمت کے احسان کو فراموش کر دیا اور نمک حرامی پر کمر باندھی اور مصمم ارادہ کر کے طلسم و تعدی کا ہاتھ آستین سے نکالا اور قتل و غارت گری کے لیے تیار ہو گئے اور حکام فوج کو ہلاک کیا اور ان کے اہل و عیال کو بھی جہاں تک بس چلا زندہ نہ چھوڑا۔“


میرٹھ کا کمشنر ایف۔ولیمس اپنی رپو رٹ میں سرکشی کا موجد مسلمانوں کو ٹھہراتے ہوئے رقم کرتا ہے کہ: ”مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ بغاوت کی منصوبہ بندی مسلمانوں نے کی تھی، اگرچہ بغاوت کے جذبے نے آبائی فوج کو تیار کیا ہو، لیکن اصلی محرک مسلمان ہیں۔ یہاں تک کہ میرٹھ میں بھی پہلا قدم مسلمانوں ہی نے اٹھایا تھا۔“

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پہلی جنگ آزادی کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ قبل از وقت بھڑکی چنگاری ہے۔ اگر میرٹھ کے باغی سپاہی 31 / مئی تک اپنے جذبات پر قابو رکھتے تو یقیناً ہندوستان کی تاریخ دوسری ہوتی۔ بہرحال غیروں کی بہادری کے بجائے اپنوں کی کارستانیوں نے فرزندان ہند کی بے لوث قربانیوں کو خاک میں ملانے کا کام کیا اور برصغیر ایسٹ انڈیا کمپنی سے نکل ملکہ وکٹوریہ کے ہاتھوں میں پہنچ گیا۔ تاہم انقلاب میرٹھ جنگ آزادی میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔ جس نے کم و بیش ایک صدی تک چلنے والی تحریک آزادی کے شعلوں کو کبھی سرد نہیں پڑے دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔