ہندوستان کے سامنے عالمی رسوائی اور سفارتی بحران کے خطرے کا اندیشہ...سہیل انجم
ہندوستان میں عیسائی عبادت گاہوں اور کرسمس تقریبات پر حملوں نے عالمی تشویش بڑھا دی ہے۔ عالمی میڈیا، انسانی حقوق تنظیمیں اور عیسائی ادارے ردعمل ظاہر کر رہے ہیں اور مذہبی رواداری کو خطرے میں نظر آ رہی ہے

چند سال قبل جب بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما نے پیغمبر اسلام کے بارے میں قابل اعتراض اور اہانت آمیز بیان دیا تھا تو عالم اسلام کی جانب سے شدید ردعمل ظاہر کیا گیا تھا۔ بعض مسلم ملکوں نے ہندوستان سے معافی تک کا مطالبہ کر دیا تھا۔ اس وقت ہندوستان کے سامنے ایک سفارتی بحران پیدا ہو گیا تھا جسے مذکورہ ترجمان کو پارٹی سے معطل کر کے ٹالا گیا۔ اب ایک بار پھر ہندوستان کے سامنے سفارتی خطرے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔ تادم تحریر اسے عالمی میڈیا میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور عیسائی رہنماؤں نے اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ لیکن اگر عیسائی عبادت گاہوں اور ان کی تقریبات پر حملوں کا سلسلہ جاری رہا تو عالمی سطح پر ردعمل ہو سکتا ہے۔ 25 دسمبر کے موقع پر عیسائی تقریبات، گرجا گھروں اور عیسائی برادری سے وابستہ افراد کو جس طرح مختلف شہروں میں تشدد اور توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا اس کی گونج عالمی میڈیا میں سنائی دے رہی ہے۔
اسی دوران وزیر اعظم نریندر مودی 25 دسمبر کو دہلی کے کیتھیڈرل چرچ گئے اور انھوں نے عیسائی برادری کو مبارکباد پیش کی۔ انھوں نے اس کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں اور لکھا کہ کرسمس کا جذبہ ہندوستانی عوام میں پیار محبت کو فروغ دے گا۔ ان کے اس قدم کی ستائش ہو رہی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ کیونکہ جب کوئی سربراہ ملک یا کوئی بڑا وزیر اس قسم کا کوئی قدم اٹھاتا ہے تو بہرحال اس کا اثر پڑتا ہے۔ لیکن بعض تجزیہ کار سوال کرتے ہیں کہ وزیر اعظم کے اس قدم کا اثر کیوں نہیں پڑ رہا اور شرپسند عناصر کی جانب سے عیسائی تقریبات پر حملے کا سلسلہ کیوں جاری رہا۔ ان کے مطابق وزیر اعظم نے اگر گرجاگھر میں حاضری دینے اور مسیحی برادری کو مبارکباد پیش کرنے کے ساتھ ساتھ حملہ آوروں کو کوئی تنبیہ کی ہوتی اور تشدد کی مذمت کی ہوتی تو شاید ایسے عناصر کو لگام لگانے میں کامیابی حاصل ہو جاتی۔ لیکن وزیر اعظم نے اس سلسلے میں کوئی بیان نہیں دیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان واقعات کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسیحی برادری کو تحفظ فراہم کرے۔
عالمی اخبارات جیسے کہ کویت کے ”عرب ٹائمز“، برطانیہ کے ”دی انڈیپنڈنٹ“ اور ترکی کے ”ٹی آر ٹی ورلڈ“ نے حملوں کے واقعات کی وسیع پیمانے پر کوریج کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ان حملوں کے لیے دائیں بازو کے عناصر کو ذمہ دار مانا جا رہا ہے۔ ان اخباروں نے ایسے واقعات کی سخت مذمت کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں۔ تجزیہ کاروں نے عیسائی تقریبات کو درہم برہم کرنے کے واقعات کو فرقہ وارانہ یکجہتی کے خلاف قرار دیا اور کہا کہ چونکہ کرسمس کی تقریبات عیسائیوں کی مرکزی تقریبات ہیں لہٰذا ان کو نشانہ بنانا غلط ہے۔قومی و عالمی میڈیا نے اس بات کو ہائی لائٹ کیا ہے کہ ان واقعات نے مذہبی رواداری کو لاحق خطرات کی بحث کو تیز کر دیا ہے۔ انھوں نے ان واقعات کی تصاویر اور ویڈیوز بڑے پیمانے پر شیئر کی ہیں۔
میڈیا کے مطابق یونائٹڈ کرشچین فورم اور ایوینجیلیکل فریڈم آف انڈیا نے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ تبدیلی مذہب کے بنیاد الزامات پر عیسائیوں کی گرفتاری بھی ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت بارہ ریاستوں میں تبدیلی مذہب مخالف قانون ہے۔ 2014 میں ایسے 147 واقعات ہوئے تھے۔ یہ واقعات ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتے گئے اور 2024 میں 840 واقعات ہوئے جبکہ 2025 میں نومبر تک 702واقعات ہو چکے تھے۔ ”نیو انڈین“ اخبار کے مطابق کیتھولک بشپ کانفرنس آف انڈیا نے بتایا ہے کہ 2024-25 میں عیسائی مخالف 1500 واقعات رونما ہوئے ہیں۔
جہاں تک امسال حملوں کے اعداد و شمار کی بات ہے تو عیسائیت سے متعلق ایک ویب سائٹ ”کیتھولک کنکٹ ڈاٹ ان“ نے 12 واقعات کی تفصیلات پیش کی ہیں ۔ جن مقامات پر تشدد کے واقعات ہوئے ہیں وہ ہیں: ڈوگرپور راجستھان، پلکڈ کیرالہ، ہری دوار اتراکھنڈ، دہلی، بھونیشور اڑیسہ، غازی آباد اترپردیش، لکھنو اترپردیش، رائے پور چھتیس گڑھ، جبلپور مدھیہ پردیش، جھبوا مدھیہ پردیش، کولکاتہ مغربی بنگال اور تری ویندرم کیرالہ۔ ایک عیسائی مذہبی رہنما فادر سریش میتھو نے مذکورہ ویب سائٹ کے لیے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ جو چیز ان حملوں کو خاص طور پر تشویش ناک بناتی ہے وہ بڑا سیاسی اور نظریاتی پس منظر ہے جس کے خلاف یہ سب ہو رہا ہے۔ ہندوستان کو ہندو راشٹر قرار دینے کے مطالبات اب سرگوشیوں میں نہیں ہیں۔ وہ حکمران طبقے سے وابستہ بااثر شخصیات کے ذریعہ کھلے عام، بار بار اور غیر معذرت خواہانہ طور پر کیے جا رہے ہیں۔ اس ماحول میں آئین و سیکولرازم کو جو کہ جمہوریت کے بنیادی ستونوں میں سے ہیں، مسلسل کھوکھلا کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ خاموشی کے ذریعے ان حملوں کو ہونے دینا بھی خاصا پریشان کن ہے۔ یہاں تک کہ عیسائی لوگ ہندوتو کارکنوں کے سامنے بے بس ہیں۔ یہ ایک خوفناک صورت حال ہے۔ اس کی ایک وجہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے حسی بھی ہے۔ جب دائیں بازو کے ہجوم قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں اور عیسائیوں کو نشانہ بناتے ہیں تو پولیس اہلکار ان سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ مجرموں کو گرفتار کرنے اور سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کے بجائے وہ عیسائیوں سے کہتے ہیں کہ وہ دعائیہ تقریبات کے لیے جمع ہونے سے گریز کریں۔ حالانکہ وہی قانون نافذ کرنے والے ادارے اس وقت حرکت میں آجاتے ہیں جب اقلیتوں کے خلاف الزامات لگائے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق عیسائی برادری یہ سمجھنے لگی ہے کہ ان کے ہاتھوں سے ریت پھسل رہی ہے اور ان کے قدموں کے نیچے سے قالین کھینچا جا رہا ہے۔
عیسائی اداروں کی جانب سے ان واقعات کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ کیتھولک بشپ کانفرنس آف انڈیا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مختلف ریاستوں میں عیسائیوں پر ہونے والے حملے خطرے کی گھنٹی ہے۔ پرامن افراد پر حملے کرنا آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کے حق کو کمزور کرتے ہیں۔ انھوں نے وزیر داخلہ امت شاہ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پر امن عیسائی برادری کو تحفظ فراہم کریں۔ تاکہ کرسمس کی تقریبات پر امن، محفوظ اور ملک سے محبت کے ماحول میں منائی جائیں۔ تمل ناڈو بشپ کونسل نے بھی ایک بیان جاری کرکے ان واقعات کی مذمت کی ہے۔ عیسائیوں کے دیگر ادارے بھی مذمتی بیانات جاری کر رہے ہیں۔
بہرحال ملک کے لیے یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ یہاں کے پرامن ماحول کو بگاڑا جا رہا ہے۔ اقلیتوں کو نشانہ بنانا اب عام بات ہو گئی ہے۔ کبھی کسی کو ہدف بنایا جاتا ہے اور کبھی کسی کو۔ مسلم اقلیت کے ساتھ تو ایک عرصے سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اور حکومت کے ذمہ داران کانوں میں تیل ڈالے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ابھی تک شرپسند تنظیموں کی جانب سے بیس فیصد مسلمانوں کا ڈر 80 فیصد غیر مسلموں کو دکھایا جاتا رہا اور ان کو ہجومی تشدد میں مارا جاتا رہا۔ لیکن اب دو فیصد عیسائی برادری کا خوف بھی دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ 80 فیصد غیر مسلم اتنی کم تعداد والی اقلیتوں سے خوف زدہ ہیں۔
دراصل ان واقعات کی مدد سے ہندوستانی آئین کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کانگریس ایسے واقعات کی سختی سے مخالفت کرتی رہی ہے۔ سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی آئین کو بچانے کی جد و جہد میں مصروف ہیں۔ کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے اور دیگر سینئر رہنما آئین کے تئیں فکرمند ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اگر حکمرا ںجماعت کو چار سو نشستیں مل گئیں تو آئین کو بدل دیا جائے گا۔ ہندوستانی عوام نے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ لیکن اب اقلیتوں پر حملوں کے ذریعے یہ کوشش ایک بار پھر تیز کر دی گئی ہے۔
بہرحال اگر اقلیتوں پر حملوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ایک تو دیگر ملکوں کے حکومتی کارندے اس کے خلاف ایک جٹ ہو جائیں گے اور دوسری طرف غیر ممالک میں آباد ہندوستانیوں کے لیے بہت بڑا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ اگر خدا نخواستہ دیگر ملکوں کی حکومتیں ہندوستانی تارکین وطن کو واپس بھیجنے لگیں تو جہاں ان ملکوں سے ہندوستان کے روابط خراب ہو جائیں گے وہیں زرمبادلہ کی شکل میں جو کروڑوں ڈالر سالانہ ہندوستان آتا ہے وہ بند ہو جائے گا۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ شرپسند عناصر کے خلاف کارروائی کرے تاکہ اس ممکنہ صورت حال سے بچا جا سکے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔