ارونا آصف علی: آزادی کی علمبردار کی بے مثال جرأت اور قربانی کی داستان
ارونا آصف علی نے 1942 میں گاندھی جی کی گرفتاری کے بعد 'بھارت چھوڑو' تحریک کی قیادت سنبھالی، گوالیا ٹینک میدان میں ترنگا لہرایا اور عمر بھر آزادی کی جدوجہد میں سرگرم رہیں

ارونا آصف علی / سوشل میڈیا
کرشن پرتاپ سنگھ
جب بھی ہندوستان کی تحریکِ آزادی کا ذکر ہوتا ہے تو 1942 کی مشہور تحریک ’انگریزو! بھارت چھوڑو‘ کو ضرور یاد کیا جاتا ہے۔ اس تاریخی تحریک میں ایک ایسی خاتون ارونا آصف علی کا نام نمایاں طور پر ذہن میں ابھرتا ہے، جنہیں ’گرینڈ اولڈ لیڈی‘ کہا جاتا ہے۔ اگر ارونا آصف علی کی غیر معمولی جرأت نہ ہوتی، تو یہ تحریک ویسی نہ ہوتی جیسی تاریخ میں درج ہے۔
8 اگست 1942 کو بمبئی (اب ممبئی) کے تاریخی گوالیا ٹینک (جسے آج ’اگست کرانتی میدان‘ کہتے ہیں) میں کانگریس نے اپنا اجلاس منعقد کیا، جس میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں انگریزوں کے فوراً ہندوستان چھوڑنے کی قرارداد منظور کی گئی۔ اس تحریک کو ’انگریزو! بھارت چھوڑو‘ کا نام یوسف مہیر علی نے دیا۔
تحریک کا اعلان ہوتے ہی برطانوی حکومت بوکھلا گئی اور فوراً گاندھی جی سمیت تمام بڑے کانگریسی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔ شہروں میں کرفیو لگا دیا گیا، پرامن احتجاج، ہڑتالیں اور پریس تک پر پابندیاں لگا دی گئیں لیکن گاندھی جی کا نعرہ ’کرو یا مرو‘ عوام کے دلوں میں اتر چکا تھا۔
چنانچہ 9 اگست کی صبح نے ایک غیر معمولی منظر دیکھا کہ تحریک کے حامی نوجوانوں نے تمام سرکاری رکاوٹوں کو روندتے ہوئے تحریک کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ ارونا آصف علی نے اس دن جو جرأت دکھائی، وہ ہندوستانی تاریخ میں ایک منفرد مثال بن گئی۔ گوالیا ٹینک میدان میں ارونا نے نہ صرف تحریک کی قیادت کی بلکہ پولیس کو چکمہ دیتے ہوئے ترنگا بھی لہرایا۔
انگریزوں کا گمان تھا کہ کانگریسی قیادت کی گرفتاری کے بعد کوئی میدان میں ترنگا نہیں لہرا سکے گا لیکن ارونا نے ان کے اندازے کو غلط ثابت کیا۔ انہوں نے نہ صرف اجلاس کے باقی نکات مکمل کروائے بلکہ اس دن قوم کے حوصلے کو نئی زندگی دی۔
یہ واقعہ ارونا کے سفر کا آغاز تھا۔ بعد کے برسوں میں وہ تحریکِ آزادی کی خفیہ سرگرمیوں میں سرگرم رہیں۔ ان کی جائیداد ضبط کر لی گئی لیکن انہوں نے گرفتاری دینے سے انکار کیا اور زیر زمین رہ کر جدوجہد جاری رکھی۔ ان کی خراب صحت اور گاندھی جی کے اصرار کے باوجود انہوں نے خودسپردگی نہ کی۔ گاندھی جی نے ایک ذاتی نوٹ میں ان کی بہادری کی تعریف کی اور لکھا کہ ’’میں آپ کی ہمت اور بہادری سے بے حد متاثر ہوا ہوں۔‘‘
ارونا آصف علی 16 جولائی 1909 کو اُس وقت کے پنجاب (اب ہریانہ) کے شہر کالکا میں ایک بنگالی برہمن خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد اپیندر ناتھ گنگولی، بنگال کے باریسال سے آ کر متحدہ صوبے (یوپی) میں آباد ہوئے تھے اور ایک ریسٹورینٹ چلاتے تھے۔ ان کے والدین برہم سماج کے حامی تھے اور خیالات میں خاصے جدید اور لبرل تھے۔
انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم لاہور کے سیکرڈ ہارٹ کانوینٹ اسکول سے حاصل کی اور پھر نینی تال کے آل سینٹس کالج سے تعلیم مکمل کی۔ بعد ازاں وہ کلکتہ گئیں اور گوکھلے میموریل کالج میں معلمہ بن گئیں۔ یہاں انہیں احساس ہوا کہ خطرہ مول لیے بغیر زندگی میں کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
اسی دوران ان کی ملاقات کانگریس سے وابستہ مشہور وکیل آصف علی سے ہوئی، جو ان سے 23 سال بڑے تھے۔ گھر والوں کے شدید اعتراض کے باوجود ارونا نے 1928 میں ان سے شادی کی اور ارونا گنگولی سے ارونا آصف علی بن گئیں۔ ان کی شادی میں گاندھی، نہرو، مولانا آزاد، سی راج گوپالاچاری، سروجنی نائیڈو جیسے بڑے رہنما شامل ہوئے۔ آصف علی نے تاریخی لاہور سازش کیس میں بھگت سنگھ اور بٹکیشور دت کا وکالت کے ذریعے دفاع کیا تھا۔
شادی کے صرف دو سال بعد ارونا کو نمک ستیہ گرہ میں حصہ لینے پر گرفتار کر لیا گیا۔ گورے حکام نے انہیں ضمانت دینے سے انکار کر دیا۔ 1931 کے گاندھی-ارون معاہدے کے تحت باقی سیاسی قیدیوں کو تو رہا کر دیا گیا لیکن ارونا جیل میں ہی رہیں۔ ان کی رہائی کے لیے دیگر خاتون قیدیوں نے احتجاج کیا اور خود بھی رہا ہونے سے انکار کر دیا۔ گاندھی جی نے بھی ذاتی طور پر ان کے کیس میں مداخلت کی۔
رہائی کے ایک سال بعد ہی انہیں دوبارہ گرفتار کر کے تہاڑ جیل میں ڈال دیا گیا، جہاں انہوں نے سیاسی قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے خلاف بھوک ہڑتال کی۔ حکومت نے انہیں اکیلا رکھنے کے لیے امبالہ جیل منتقل کیا لیکن انہیں آخرکار رہا کرنا پڑا۔
ارونا آصف علی نے 1930، 1932 اور 1941 کے دوران ستیہ گرہ میں حصہ لیا اور جیل گئیں۔ وہ رام منوہر لوہیا کے ساتھ کانگریس کی ماہانہ میگزین ’انقلاب‘ کی مدیر بھی رہیں اور اوشا مہتا کے ساتھ خفیہ ریڈیو اسٹیشن سے بھی تحریک کی خبریں نشر کیں۔ آزادی کے بعد 1958 میں وہ دہلی کی پہلی منتخب میئر بنیں اور کئی اصلاحات کیں، تاہم جلد ہی استعفیٰ دے دیا۔
29 جولائی 1996 کو 87 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں بین الاقوامی لینن انعام، آرڈر آف لینن، جواہر لال نہرو ایوارڈ، پدم وبھوشن جیسے اعزازات ملے۔ 1997 میں انہیں بعد از مرگ ہندوستان کا سب سے بڑا شہری اعزاز ’بھارت رتن‘ دیا گیا۔
ارونا آصف علی ایک ایسی عظیم خاتون تھیں جنہوں نے اپنی ہمت، بہادری اور ثابت قدمی سے نہ صرف ہندوستان کی تحریکِ آزادی کو نئی توانائی دی بلکہ خواتین کے کردار کو بھی نئی پہچان عطا کی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔