مصنوعی بارش مسئلہ کا حل ہے ہی نہیں... پنکج چترویدی
جئے پور کے پاس جموا رام گڑھ جھیل کو دوبارہ بھرنے کے لیے ڈرون پر مبنی کلاؤڈ سیڈنگ مہم کو ناکام ہونا ہی ہے۔

جئے پور سے تقریباً 32 کلومیٹر دور جموا رام گڑھ کی جھیل ہے۔ یہ کبھی پورے جئے پور شہر کی پیاس بجھاتی تھی۔ 1999 سے یہ تقریباً خشک ہو گئی ہے۔ راجستھان حکومت نے نقلی یعنی مصنوعی بادل سے جھیل بھرنے کے لیے دو مرتبہ کوششیں کیں، لیکن ڈرون بغیر ایک بوند برسائے نیچے گر گئے۔
جموا رام گڑھ پشتہ میں ملک کی پہلی ڈرون پر مبنی کلاؤڈ سیڈنگ مہم سب سے پہلے 31 جولائی 2025 کو طے کی گئی، لیکن ان دنوں راجستھان کے کئی اضلاع میں سیلاب تھا اور بارش امید سے 130 فیصد زیادہ ہو چکی تھی، اس لیے اسے روک دیا گیا۔ پھر 12 اگست کو پوجا پاٹھ ہوا، خواتین نے گیت گائے، ریاستی وزراء سے لے کر اراکین اسمبلی تک جمع ہوئے اور ان سب کی وجہ سے ہزاروں لوگ جمع ہو گئے۔ اس تماشہ کو دیکھنے کے لیے اتنی بھیڑ جمع تھی کہ پولیس کو لاٹھی چارج کرنی پڑی۔ اس دن صبح 10 بجے سے 2 بجے کے درمیان 2 مرتبہ ناکام کوشش کے بعد ڈرون ہوا میں اڑا اور نیچے گر گیا۔ 17 اگست کو اسی طرح پھر بھیڑ جمع ہوئی۔ ڈرون اڑا، لیکن گوپال گنج گاؤں کے پاس کھیت میں اوندھے منھ گر گیا۔
تقریباً 15.5 اسکوائر کلومیٹر کی اس جھیل کے لیے 1876 میں سوائی رام سنگھ دوئم نے پشتہ بنایا تھا تاکہ جئے پور کی پیاس بجھ سکے۔ آزادی کے بعد جئے پور کا دائرہ تو بڑا ہو گیا، لیکن بدقسمتی سے رام گڑھ کا دائرہ گھٹتا گیا۔ تب بھی 1982 کے ایشیائی کھیلوں کے دوران رام گڑھ جھیل پر کشتی رانی مقابلے منعقد کیے گئے تھے۔ لیکن اس کے بعد سے ندی پر قبضہ اتنا بڑھا کہ نہر معدوم ہوتی گئی اور 1999 کے بعد تو اس سے پانی ہی روٹھ گیا۔
دراصل یہ جھیل بان گنگا ندی پر پشتہ بنا کر تیار کی گئی تھی۔ راجستھان کی کئی ندیاں اپنے وجود کی جنگ لڑ رہی ہیں اور ان میں بان گنگا ندی اہم ہے۔ اس کی کوئی معاون ندی نہیں ہے۔ بان گنگا ندی بیراٹھ کی پہاڑیوں سے نکلتی ہے۔ یہ ندی 380 کلومیٹر طویل ہے۔ ندی جئے پور، دوسا، بھرت پور سے ہو کر گزرتی ہے اور آخر میں اتر پردیش واقع فتح آبادہ آگرہ کے قریب جمنا ندی میں مل جاتی ہے۔ اسے کبھی کسانوں کے لیے ’کام دھینو‘ کہا جاتا تھا۔ 97-1996 تک اس میں اتنا پانی ہوتا تھا کہ میڈگاؤں میں بان گنگا ساحل پر ہر سال میلہ لگتا تھا۔ اس میں ہزاروں لوگ جمع ہوتے تھے۔ بان گنگا پر دوسا ضلع میں مادھو ساگر پشتہ پروجیکٹ ہے۔ اسی ندی کی تراوٹ سے بھرت پور میں نیشنل برڈ سینکچوئری میں نم زمین تیار ہوا۔ چنبل ندی کے بعد راجستھان کی بان گنگا دوسری ایسی ندی ہے جس کا اپنا پانی سیدھے جمنا ندی میں ملتا ہے۔ چونکہ جمنا میں اس کے ملنے کا مقام بہت کٹا پھٹا ہے، اس لیے اسے مقامی لوگ ’رُنڈت ندی‘ بھی کہتے ہیں۔
یہ ندی جئے پور سے آگے لہرا کر بہہ رہی ہے، لیکن رام گڑھ کے پاس جہاں جھیل ہے، وہاں یہ خشک ہو گئی ہے۔ رام گڑھ پشتہ میں بان گنگا (وراٹ نگر سے)، مادھوبینی ندی (منوہرپور سے)، گومتی کا نالہ سمیت دیگر ندیوں سے پانی آتا تھا۔ وراٹ نگر کے دولاج گاؤں کے پاس بان گنگا ندی نکلتی ہے اور یہ ندی رام گڑھ پشتہ میں پانی کی موجودگی کا اہم ذریعہ ہے۔
دراصل ندی اور پشتہ کے راستے میں نہ صرف عام لوگوں، بلکہ حکومت نے بھی طرح طرح کی تعمیرات کر لی ہیں۔ بان گنگا سے جھیل تک کے راستہ پر بے شمار تجاوزات ہوئے اور سرکاری محکمے نے آنکھیں موندیں رکھیں۔ کئی اینیکٹ، چیک ڈیم بھی بنے۔ ان سب سے پانی کا بہاؤ سکڑنے لگا۔ یہ سب کچھ ایک دن میں نہیں ہوا، لیکن جیسے ہی یہ بہاؤ والا علاقہ خشک ہوا، تو سینکڑوں ایکڑ میں لوگوں نے کھیتی شروع کر دی۔ وراٹ نگر کے دولاج اور گیان پورہ گاؤں کے پاس تجاوزات کرنے والوں نے ندی کے اہم بہاؤ والے علاقہ کو ہی بدل دیا۔ دولاج کی پہاڑیوں سے گیان پورہ ہوتے ہوئے کپاسن ماتا کے مندر تک 6 کلومیٹر کی دوری میں تقریباً 4.5 کلومیٹر تک ندی کا بہاؤ والا علاقہ غائب ہے۔ ٹھیک ایسے ہی قبضے مادھو بینی اور گومتی نالے سے پشتہ کے راستہ میں ہے۔ ہائی کورٹ کی مانیٹرنگ کمیٹی نے ندی اور نالوں کے بہاؤ والے علاقہ میں کسی طرح کا کام کرنے پر روک لگا رکھی ہے، لیکن انتظامیہ کی بے توجہی کے سبب ندی اور نالوں کے بہاؤ والے علاقہ میں مٹی کی غیر قانونی کانکنی زوروں پر ہے۔
آج مرکز سے لے کر ریاستوں تک کی حکومتیں مسائل کی زمینی سطح پر سائنسی و تجرباتی ترکیب والے حل کی جگہ ایسے قدم اٹھانے لگی ہیں جن کا اصل مقصد نمائشی مظاہرہ ہے۔ اس لیے راجستھان کے محکمہ زراعت نے مصنوعی بارش سے پشتہ بھرنے کا ٹھیکہ امریکہ اور بنگلورو کی ٹیکنالوجی کمپنی ’زین ایکس اے آئی‘ کو دے دیا۔ مصنوعی بارش کے لیے ہوائی جہاز سے سلور-آیوڈائیڈ اور کئی دیگر کیمیائی مواد کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے جس سے خشک برف کے ذرات تیار ہوتے ہیں۔ دراصل خشک برف سخت کاربن ڈائی آکسائیڈ ہی ہوتی ہے۔ دقت یہ ہے کہ اس کے پگھلے سے پانی نہیں بنتا اور یہ گیس کی شکل میں ہی غائب ہو جاتی ہے۔ اگر وہاں موجود بادلوں میں ذرا بھی نمی ہوتی ہے تو یہ خشک برف کے ذرات پر چپک جاتے ہیں اور اس طرح بادل کا وزن بڑھ جاتا ہے جس سے بارش ہو جاتی ہے۔ اس طرح کی بارش کے لیے ضروری ہے کہ فضا میں کم از کم 40 فیصد نمی ہو، پھر یہ تھوڑی سی دیر کی ہی بارش ہوتی ہے۔
یہ ڈرون پر مبنی کلاؤڈ سیڈنگ مہم ناکام رہی، تو اب بیرون ملکی کمپنی کہہ رہی ہے کہ مصنوعی بارش سے پشتہ کو بھرنے کے لیے ڈرون کو 10 ہزار فیٹ اوپر اڑانا ہوگا، جبکہ مرکزی حکومت ڈرون اڑانے کے لیے 400 فیٹ سے زیادہ کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر کسی طرح مان بھی لیں کہ غیر ملکی کمپنی کو پہلے سے اس اصول کے بارے میں جانکاری نہیں تھی، تب بھی راجستھان حکومت کے ذمہ داران کو تو یہ پتہ ہی رہا ہوگا۔ ویسے بھی 2 سال قبل چتوڑگڑھ کے بھیسوندا پشتہ پر 10 کروڑ روپے خرچ کر ایسی ہی مصنوعی بارش کی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ تب بہانہ بنایا گیا کہ نمی کی کمی تھی۔
دراصل محض ایسی نمائشی ترکیب ہم اور آپ کے ذریعہ پیدا کیے گئے ماحولیاتی بحران کا حل نہیں ہیں۔ رام گڑھ پشتہ کو پانی سے بھرپور بنانے کے لیے ضروری یہ ہے کہ تینوں آبی بہاؤ کو پشتہ تک بلا رخنہ آنے کا راستہ دینا ہوگا؛ اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب راستہ سے تجاوزات ہٹائے جائیں۔ یہ ایک دن میں ہونے والا کام نہیں ہے۔ اس کے لیے ماحولیاتی سوچ والے سیاسی عزائم چاہئیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔