اربعین: عجیب بات ہے اک بے وطن کے چہلم میں...نواب علی اختر

اربعین کے لیے زائرین کی آمد کا سلسلہ تب بھی جاری رہا جب عراق کا بڑا حصہ داعش کے زیر اثر تھا اور بہت سے ممالک اپنے شہریوں کو عراق کا سفر نہ کرنے کا مشورہ دے رہے تھے

کربلا / تصویر نواب علی اختر
کربلا / تصویر نواب علی اختر
user

نواب علی اختر

ان دنوں اگر خلوص، عشق و محبت، خدمت، خاکساری، ایثار اور انسانیت کو یکجا دیکھنا ہوتو عراق میں جاری و ساری اربعین ملین مارچ کے دوران باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ زائرین ہوں یا ان کے خدمت گزار عراقی و غیر عراقی، سبھی جذبہ ایثار، خلوص اور انسانیت سے لبریز ہو کر حضرت امام حسین علیہ السلام سے اپنی والہانہ عشق محبت کا ثبوت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دین محمدی کی خوبصورت جھلکیاں پیش کر رہے ہیں

پچھلے قریب ایک ہفتے سے ہندوستان کے مختلف شہروں بالخصوص نئی دہلی، ممبئی، حیدرآباد اور لکھنؤ ہوائی اڈوں سے ہر روز ہزاروں زائرین کربلا نجف اشرف کے لیے روانہ ہورہے ہیں۔ اس موقع پر ایئر پورٹ پر نم آنکھوں کے ساتھ فلک شگاف نعروں کے درمیان روح پرور مناظردیکھنے کو مل رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بہت سارے ویڈیوز وائرل ہورہے ہیں جس میں ایک ویڈیو ہندوستان کی راجدھانی دہلی کے ایئر پورٹ کا بھی ہے جس میں زائرین حسین کا جم غفیر نظر آرہا ہے اور پورا ایئرپورٹ صدائے’لبیک یا حسین‘ اور’نعرۂ حیدری‘ سے گونج رہا ہے۔

اربعین عربی میں 40 کو کہتے ہیں اور اصطلاحاً کسی شخص کی موت کے 39 دن بعد اس کی یاد میں منائے جانے والے دن کو کہا جاتا ہے۔ عراق میں اربعین سنہ 61 ہجری میں 10 محرم کو پیش آنے والے کربلا کے واقعے کے 40 دن کی تکمیل پر 20 صفر کو منایا جاتا ہے۔ تاریخ میں اربعین حسینی کے حوالے سے بڑی اہمیت اورفضیلت بیان کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای بیان کرتے ہیں کہ اربعین حسین ایک ایسی جنگ ہے جو بغیر گولی چلائے دشمن کو اندر سے توڑ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہدائے کربلا کے چہلم (اربعین) کے موقع پردنیا کے کونے کونے لاکھوں زائرین کربلا پہنچتے ہیں۔

زائرین کربلا کا پہلا پڑاؤ نجف اشرف ہوتا ہے جہاں وہ شاہ نجف حضرت علی کے روضے کی زیارت کرتے ہیں اور پھر وہیں سے پاپیادہ آپ کے فرزند کے روضے (کربلا) کے لیے روانہ ہوجاتے ہیں۔ اربعین کے لیے آنے والے زیادہ تر افراد ’این نجف‘ نامی سڑک پر مشی (پیادہ روی ) کرکے کربلا پہنچتے ہیں۔ نجف سے کربلا کی دوری تقریباً 80 کلو میٹر ہے۔ عموماً نجف سے کربلا مشی کرنے والے افراد تین سے چار دن میں یہ سفر طے کر لیتے ہیں۔ یہ ایک عام سڑک ہے جو کسی بھی ملک میں دو شہروں کو ملانے کے لیے تیارکی جاتی ہے لیکن مقدس عراقی شہروں نجف اور کربلا کو ملانے والی اس سڑک پر منظر کچھ خاص ہی ہوتا ہے۔یہاں جا بجا دورانِ سفر کسی بھی مسافر کو پیش آنے والی ہر ضرورت کا مفت انتظام ہوتا ہے۔


اس شاہراہ پر کوئی زبردستی آپ کو جوس پلانا چاہتا ہے تو کوئی کجھوریں ،فروٹ یا دیگر اشیائے خوردو نوش پیش کرتا ہوا بڑے عاجزانہ اندازمیں اسے قبول کرنے کی درخواست کرتا ہے۔ کچھ خدمت گار درخواست کرتے نظر آتے ہیں کہ ان سے اپنے جوتے پالش کروا لیں تو کوئی چاہتا تھا کہ آپ انھیں اپنی ٹانگیں دبانے کی سعادت دے دیں۔ سڑک کنارے ایک طرف صوفے لگے ہوتے ہیں تاکہ تھکے ہوئے زائران پر بیٹھ کر آرام کر لیں تو دوسری جانب کسی نے اپنے گھر کے بہترین گدے بچھا رکھے ہوتے ہیں۔ یہ انسانیت کے پجاری اس شاہراہ پر ساری چیزیں مفت بانٹتے ہیں اور اپنے گھروں کا بہترین سامان سڑک پر لے آتے ہیں؟عراقیوں کے خاندان در خاندان اس خدمت کوعبادت سمجھتے ہیں۔ یہ منظرعراق میں ہر برس ماہ صفر میں ہونے والی اربعین ملین واک کا ہوتا ہے۔

بحران کے شکار ملک کے لوگ جو خود بمشکل گزارہ کرتے ہیں ،وہ سال بھر پیسے بچاتے ہیں تاکہ اربعین واک میں دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے زائرین کی خدمت میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ ’مشی‘ کے نام سے معروف یہ عمل ہر برس لاکھوں افراد نواسہ رسول کے چہلم کے موقع پر نجف سے کربلا کا پاپیادہ سفر کر کے سر انجام دیتے ہیں اور اس موقع پرغریب اور امیر کی تفریق سے بالاتر ہو کر مقامی عراقی زائرین کی خدمت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔’ این نجف ‘پر زائرین کے لیے ہر قسم کے انتظامات ہوتے ہیں۔ جگہ جگہ عراقیوں نے اپنے اپنے خاندانی ناموں کے ساتھ خیمے لگا رکھے ہیں جس میں چارجنگ ، وائی فائی، گرم کھانے، مساج اور پیر دبوانے سے لے کر کپڑے دھلوانے تک کی سہولت میسر ہے۔

چھوٹے چھوٹے بچے اپنے سروں پر بڑے بڑے تھال میں کھانے کی اشیا رکھے نظر آتے ہیں۔ اِن سب کا اصرار ہوتا ہے کہ آپ ان کا کھانا ضرور کھا کر جائیں۔ کئی مقامات پر طویل دسترخوان بچھے نظر آتے ہیں، اس سڑک کو دنیا کا سب سے بڑا دستر خوان کہنا غلط نہ ہوگا۔ عراقی نہ صرف اربعین کو بلکہ اس کے لیے آنے والوں کی خدمت کو بھی ایک عبادت سمجھتے ہیں اور اسی لیے وہ زائرین کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور پورے پورے عراقی خاندان اس خدمت میں بخوشی مگن دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ نجف سے کربلا تک سڑک پر کیے گئے 99 فیصد انتظامات مقامی عراقی ہی کرتے ہیں لیکن یہاں تقریباً ہر ملک کا کوئی نہ کوئی اسٹال نظر آتا ہے جس پر اس کا قومی پرچم لگا ہوتا ہے۔


اربعین واک میں شیعہ ، سنی، کرد، یزیدی، عیسائی غرض ہر مذہب اور فرقے کے لوگ باہمی ہم آہنگی سے رواں دواں نظر آتے ہیں۔ کربلا شاید دنیا کا وہ واحد شہر ہے جہاں کوئی تفریح کی غرض سے نہیں جاتا۔ یہاں آنے والے تقریباً سبھی افراد نواسہ رسول اور ان کے اہل خانہ کی عظیم قربانی کی یاد منانے آتے ہیں۔ 14 صدی قبل دین اسلام کے لیے جان دینے والے افراد کی قربانی کی یاد تازہ کرنے اور ان کا غم منانے کے لیے آج بھی دنیا کے کونے کونے سے کروڑوں افراد کربلا کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر شخص کا امام حسین سے ایک انفرادی تعلق ہے جسے کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا اور یہی وہ جذبہ ہے جو دنیا کے ہر مذہب کے لوگوں کو کربلا لے آتا ہے۔

ہر برس چہلم امام حسین کے موقع پر نجف سے کربلا کا رخ کرنے والوں کی درست تعداد کے بارے میں مختلف اندازے لگائے جاتے ہیں لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق اربعین کے موقع پر اس علاقے میں دو کروڑ سے زیادہ افراد کا اجتماع ہوتا ہے۔ یہ چھوٹا سا شہر کروڑوں افراد کو کیسے سمو لیتا ہے ،محققین کے لیے یہ آج تک ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ اربعین واک کا آغاز کب ہوا اس بارے میں مصدقہ طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم حرم کے زیرانتظام چلنے والے عتبہ عباسیہ کی طالبہ زوقیہ بانو کہتی ہیں کہ اربعین واک کی بہت فضیلت ہے اورعلماء کرام نے بھی اس عمل کو انجام دینے کی بڑی تاکید کی ہے۔ تاریخی روایات کے مطابق صحابی رسول جابر بن عبد اللہ الانصاری وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے امام حسین کی قبر کی زیارت کی۔ اس سلسلے میں کسی شاعرنے کہا ہے:

عجیب بات ہے اک بے وطن کے چہلم میں

کروڑوں لوگوں نے اپنے وطن کو چھوڑ دیا

عراق کے سابق صدر صدام حسین کے دورِ حکومت میں اربعین واک پر سخت پابندیاں تھیں اور حکام ہر برس عراقی عوام کو اربعین کے موقع پر روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے تاہم اس کے باوجود اس سفر کا سلسلہ جاری رہا۔ سنہ 2003 میں صدام حسین کے دورِ اقتدار کے خاتمے کے بعد سے اربعین واک کا سلسلہ ایک نئے جذبے سے شروع ہوا اور تب سے ہر سال اس سفر کے لیے کربلا پہنچنے والے افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اربعین کے لیے زائرین کی آمد کا سلسلہ تب بھی جاری رہا جب عراق کا ایک بڑا حصہ دہشت گرد گروہ داعش کے زیر اثر تھا اور بہت سے ممالک اپنے شہریوں کو عراق کا سفر نہ کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔