جنون اور حوصلہ کا دوسرا نام تھے ظفر آغا

’’قومی آواز میں رہتے ہوئے ظفر آغا نے مجھے یہ ہنر سکھایا کہ ’بریکنگ نیوز‘ پر کس طرح کام کرتے ہیں اور ’لفاظی‘ کیے بغیر خبروں کو کس طرح تیار کیا جاتا ہے۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>ظفر آغا</p></div>

ظفر آغا

user

تنویر احمد

آج (24 مارچ) اتوار ہے۔ ہر ہفتہ اسی دن ’قومی آواز‘ نیوز پورٹل پر ظفر آغا کا کالم شائع ہوتا تھا۔ لیکن اب یہ سلسلہ رک گیا۔ ’ظفر آغا‘ اس دنیا میں نہیں رہے۔ ’کُل نفسٍ ذائقۃ الموت‘ کی مثال بنتے ہوئے انھوں نے بھی داعیٔ اجل کو لبیک کہہ دیا۔ جو اس دنیا میں آیا ہے، اسے جانا ہی ہے، لیکن ظفر آغا ایسی شخصیت تھے جن کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ ’موت اس کی ہے جس کا کرے زمانہ افسوس‘۔ صحافتی طبقہ غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ 22 مارچ 2024 کی صبح ملی ظفر صاحب کے انتقال کی خبر نے مجھے بھی کچھ دیر کے لیے جیسے ایک خلاء میں دھکیل دیا تھا۔ جب اس خلاء سے باہر نکلا تو پھر ان کے ساتھ گزرے ہر لمحات اور واقعات ذہن میں تازہ ہوتے چلے گئے۔

’قومی آواز‘ (ڈیجیٹل) کے لیے انٹرویو دیتے وقت میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی، اور ’قومی آواز‘ جوائن کرنے کے بعد تو روزانہ ملاقات کا سلسلہ رہا۔ پھر ان کی شخصیت اور قابلیت کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا بھرپور موقع ملا، بلکہ یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ مجھے اپنی قابلیت کو نکھارنے کا موقع ملا۔ روزنامہ ’سنگم‘ (پٹنہ)، روزنامہ ’پندار‘ (پٹنہ)، ہفتہ وار ’دی سنڈے انڈین‘ (دہلی) نے مجھے صحافت کی سیڑھیاں چڑھائیں اور وہاں صحافت کے اصول و ضوابط کو سمجھنے کا بھرپور موقع ملا، لیکن ’قومی آواز‘ میں رہتے ہوئے ظفر آغا نے مجھے یہ ہنر سکھایا کہ ’بریکنگ نیوز‘ پر کس طرح کام کرتے ہیں اور ’لفاظی‘ کیے بغیر خبروں کو کس طرح تیار کیا جاتا ہے۔ انھیں ڈانٹ کر بھی سمجھانا آتا تھا اور پیار سے بھی، بالکل ایک سرپرست کی طرح۔ اب اس اپنائیت بھرے ڈانٹ سے ہم محروم ہو گئے، اور مخلصانہ سرپرستی سے بھی۔


ظفر صاحب کی صحافتی قابلیت اور دور اندیشی کا تو ہر کوئی قائل نظر آتا ہے، لیکن میرے لیے وہ جنون اور حوصلہ کی بہترین مثال تھے۔ انھیں قریب سے جاننے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں، کیونکہ خرابیٔ صحت کے دوران بھی ان کی زندہ دلی دیکھنے لائق تھی۔ میری ان سے آخری ملاقات ’قومی آواز‘ کے دہلی واقع دفتر میں تقریباً ایک ماہ قبل ہوئی تھی۔ اپنے کیبن میں وہ گر گئے تھے اور آواز سن کر میں کیبن کی طرف بھاگا تھا۔ ساتھ میں سنیل کمار اور اعظم شہاب (دفتر کے ساتھی) بھی دوڑے۔ ہم نے انھیں پکڑ کر زمین پر بٹھایا اور جب اٹھانا چاہا تو انھوں نے کہا ’’کچھ دیر بیٹھے رہنے دو، جب میں کہوں گا تب اٹھانا‘‘۔ یعنی اس وقت بھی وہ گھبرائے ہوئے نہیں تھے، بلکہ انتہائی ہوشمندی کا مظاہرہ کیا۔ جلدبازی میں اٹھانے سے انھیں نقصان پہنچ سکتا تھا۔ پھر جب انھوں نے کہا تو ہم نے انھیں اٹھا کر کرسی پر بٹھایا، اور پھر وہ اس طرح ہم سے بات کرنے لگے جیسے انھیں کچھ ہوا ہی نہیں۔ یہ ان کا ہی حوصلہ تھا کہ جلد ہی ہم سب دوبارہ اپنے اپنے کام کی طرف لوٹ گئے۔

یہ میری خوش نصیبی ہے کہ گزشتہ سات سالوں سے ان کے مضامین میں ہی ٹائپ کیا کرتا تھا۔ وہ اکثر 5-4 صفحات کا مضمون لکھتے تھے جو ٹائپ کرنے کے بعد 1200-1000 الفاظ ہوتے تھے۔ لیکن پچھلے تقریباً دو ماہ سے وہ اپنا مضمون 30-25 صفحات پر لکھ کر مجھے واٹس ایپ یا ای-میل کر رہے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ قلم پکڑنے میں ان کی انگلیاں بہت تھرتھراتی تھیں اور بینائی کمزور ہونے کے سبب باریک الفاظ لکھنے میں انھیں دقت بھی ہوتی تھی۔ ایک صفحہ پر بمشکل 50 الفاظ لکھتے تھے اور وہ بھی کچھ اس طرح کہ پڑھنا محال۔ گزشتہ ہفتہ انھوں نے ’سیفی جیسی لاکھوں مسلم لڑکیاں ترقی کی نئی منزلیں چھونے کو تیار‘ عنوان سے مضمون لکھا تھا جو 26 صفحات پر مشتمل تھا۔ ظفر صاحب نے مجھے یہ صفحات ای-میل کر فون کیا اور کہا کہ طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے، کسی طرح مضمون لکھا ہے ٹائپ کر کے بھیج دینا۔ جب میں نے دیکھا تو بیشتر صفحات میں الفاظ انتہائی دھندلے تھے اور 2 صفحات تو ایسے تھے جس میں ایک بھی لفظ پڑھا نہیں جا رہا تھا۔ میں نے ظفر صاحب کو فون کیا تو ان کے بیٹے مونس نے اٹھایا اور کہا کہ وہ سو رہے ہیں۔ مونس کو صفحہ نمبر بتا کر دوبارہ صاف تصویر کھینچ کر بھیجنے کی گزارش کی۔ اس نے جب وہ دونوں صفحات دیکھے تو سب کچھ دھندلا ہی تھا، یعنی ان کی انگلیوں میں لکھنے کی اب وہ طاقت نہیں تھی۔ لیکن ان کا جنون اور حوصلہ ہی تھا کہ وہ ہار نہیں مانتے تھے اور مستقل ان کا لکھنا جاری تھا۔ چند ایک دفع میں نے ان سے کہا کہ آپ زبانی بول دیا کریں، میں ٹائپ کر دوں گا۔ لیکن وہ کہتے ’تقریر اور تحریر کا انداز الگ ہوتا ہے۔ میں بڑا بڑا اور صاف صاف لکھنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ تمھیں پڑھنے میں پریشانی نہ ہو۔‘ اسے اپنے کام کے تئیں جنون نہیں کہا جائے گا تو اور کیا کہیں گے! آخر وقت میں انھیں چلنے میں کسی کے سہارے کی ضرورت پڑتی تھی، پھر بھی دفتر آتے تھے۔ قلم پکڑتے ہوئے انگلیاں تھرتھراتی تھیں، لیکن اپنی پوری طاقت سمیٹ کر لکھتے تھے۔ ان کے حوصلے اور ان کے جنون کو ہزار بار سلام!

’خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں‘

(مضمون نگار ’قومی آواز‘ [ڈیجیٹل] میں نیوز ایڈیٹر ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔