گم نام مرد مجاہد مولانا علاؤ الدین حیدر...یوم پیدائش پر خصوصی پیش کش

جب انقلاب میرٹھ کی خبریں حیدر آباد پہنچی تو اہلیان حیدر آباد بھی کمپنی عمل دار ی کے خلاف برسرپیکار ہونے پر آمادہ نظر آئے مگر وہ اپنے فرماں روا نظام اور ان کے وزیر آعظم سالار جنگ اول کے آگے مجبور تھے

<div class="paragraphs"><p>تصویر شاہد صدیقی علیگ</p></div>

تصویر شاہد صدیقی علیگ

user

شاہد صدیقی علیگ

برطانوی سامراج کے خلاف جس عملی جدوجہد کا بگل سید احمد شہید نے پھونکا تھا۔ اسی روایت کو حیدر آباد کی تاریخی مکّہ مسجد کے پیش امام مولانا علاؤ الدین حیدر نے آگے بڑھاتے ہوئے کمپنی ریذیڈنٹ اور ان کے خیرخواہ نظام افضل الدولہ آصف جاہ کے ہوش فاختہ کردیے تھے۔مولونا علاؤ الدین بیک وقت مبلغ اسلام، شعلہ بیاں مقرر اور جنگ آزادی کے سرخیل تھے،جو حفیظ اللہ کے گھر یکم جنوری 1824ء کو پیدا ہوئے۔ مولانا کو اردو، فارسی اور تیلگو تینوں زبانوں پر کما ل حاصل تھا۔

جب انقلاب میرٹھ کی خبریں حیدر آباد پہنچی تو اہلیان حیدر آباد بھی کمپنی عمل دار ی کے خلاف برسرپیکار ہونے پر آمادہ نظر آئے مگر وہ اپنے فرماں روا نظام اور ان کے وزیر آعظم سالار جنگ اول کے آگے مجبور تھے۔ اسی اثنا میں 13/جون کو حیدر آباد کے علماء کی طرف سے ایک اعلانیہ مکّہ مسجد کی دیوار پر چسپاں نظر آیا۔جس کے مطابق:

خدا وند تعالیٰ اور رسول اللہ صلعم کی مدد افضل الدولہ بہادر کے ساتھ ہے اس لیے انہیں ڈرنا یا خائف ہونا نہیں چاہییئ اگر انہیں ڈرنا ہے تو پھر انہیں چوڑیاں پہن کر گھر میں بیٹھ جانا چاہیئے لیکن نظام افضل الدولہ آصف جاہ پر اس پوسٹر کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اسی بیچ اور نگ آباد کے گرد وپیش میں طبل انقلاب بجاکر صوبے دار چید ا خاں کی رہنمائی میں باغی سپاہیوں کا ایک لشکر حیدر آباد پہنچا،جنہیں نظام کی فوج نے گرفتار کرکے ریذیڈنٹ کرنل کتھبرٹ ڈیوڈسن (Cuthbert Davidson’s) کو سونپ دیا۔ جس کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی،جس کے احتجاج میں 17 جولائی 1857 بروز جمعہ ایک زبردست احتجاجی جلسہ مکہ مسجد میں منعقد ہوا۔


جس میں مولوی علاؤ الدین نے جوش وولولہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”وہ چیدا خاں اور اس کے ساتھیوں کی رہائی کی حمایت میں آگے بڑھیں اور اپنی جانوں کی پرواہ نہ کریں اور خود بھی شہادت کے لیے تیار بیٹھے۔“

جس میں شہر کی نامور شخصیات شامل ہوئیں۔ جلسے میں طے پایا کہ مذکورہ چار اصحاب کا ایک وفد نظام سے مل کر چیدا خاں اور ان کے ساتھیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کرے گا، اگر کوئی نتیجہ نہ نکلے تو ریزیڈنسی پر حملہ کردیا جائے۔سالار جنگ کو جیسے ہی اطلاع ملی تو اس نے بغاوت پر اتارو انقلابیوں سے ریزیڈنسی پر دھاوا نہ بولنے کی تلقین کی،ساتھ ہی مکہ مسجد میں جمع مجمع کو منتشر کرنے کے واسطہ ایک عربی دستہ روانہ کرنے کے علاوہ ریزنڈنٹ کو بھی مطلع کر دیا لیکن نماز عصر کے بعد مولانا علاؤ الدین کی رہنما ئی ایک جم غفیر سڑکوں پر اتر آیا اور 500 مجاہدین کے قافلے نے ریز یڈنسی کی جانب پیش قدمی کی۔ جس میں اثنائے راہ انقلابی جہا نگیر خاں، طرہیٔ باز خاں،عربی اور روہیلے کفن بردوش جگر گوشے بھی شریک ہوگئے۔

ان کا سامنا کرنے کے لیے ریزنڈنٹ نے فوراً میجر ایس سی بریگز کی کمان میں انگریز سپاہیوں کاایک دستہ بھیجا۔انقلابیوں نے ریزنڈنسی کی مغربی دیوار کی جانب عبن صاحب اور جے گوپال داس کے گھر وں پر مورچے جما لیے اور شدید گولہ باری کا آغاز کردیا،اسی بیچ بعض انقلابی عظیم علی خاں کے گھر کی دیوار کو منہدم کرکے ریزیڈنسی میں داخل ہوگئے،لیکن آزمودہ کار انگریز سپاہیوں کے جدید اسلحہ کے سامنے ان کا ٹکنا مشکل ہو گیا۔اس کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری، پوری رات ریز یڈنسی پر مجاہدین گولہ باری کرتے رہے، مولانا علاؤ الدین نے بھی دو بدو لڑائی میں حصہ لیا۔ ان کے جسم اور چہرے پر متعدد زخم آئے لیکن وہ ترکی بہ ترکی جواب دیتے رہے جسے دیکھ کر ایک انگریز سپاہی نے انہیں اپنی بندوق کا نشانہ بنایا جس کی گولی سے ان کا داہنہ ہاتھ مفلو ج ہوگیا۔بہرکیف انگریز فوج کے ہاتھوں انقلابیوں کو کو صبح چار بجے شکست اٹھانی پڑی۔تقربیاً 30 مجاہدین نے جام شہادت نوش کیا اور متعدد زخمی ہوئے۔ بیشتر انقلابی برطانوی نرغے کو توڑ کرمفرور ہوگئے۔


حملے کی پسپائی کے باوجود جذبہ ایمانی اور جذبہ حریت سے سرشار مولانا علاؤ الدین قدم پیچھے کھینچنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انہوں نے طرہ ئ باز خاں سے کہا کہ وہ شہید ہونا پسند کریں گے مگر راہ فراری اختیار نہیں کریں گے۔یہ سن کر طرہ باز خاں نے کہا کہ یہ کوئی دانشمندی نہیں ہے کہ ہم ایسی جگہ مریں جہاں با عزت جنازہ بھی نہ اٹھے، الحاصل طرہ باز خاں مولانا کو رزم گاہ سے ہٹنے کے لیے ترغیب دینے میں کامیاب ہوگئے۔جس کے بعد مولانا چھپتے چھپاتے بنگلور کے ایک دیہات منگاپلی پہنچے جہاں پندر ہ سولہ مہینے پیر محمد کے گھر میں گمنامی کی زندگی بسر کرتے رہے، لیکن اتفاقاً ایک مریض کو بیماری سے شفا یابی کا ایک تعویذ دینے کے سبب ان کی پہچان جگ ظاہر ہوگئی جس کے بعد مولانا گرفتار کرلیے گئے۔جنہیں عدالتی چارہ جوئی کے بعد حبس دوام بعبور دریائے شورکی سزا سنا دی گئی۔

مولانا کو 28 جون 1859 کو انڈمان روانہ کیا گیا جو 22 جنوری1860 پہنچے اور 3708 قید ی نمبر بنے۔ چونکہ وہاں فارسی سے واقفیت رکھنے والوں کی کمی تھی اس لیے انہوں نے تین مختلف ڈیویژ نوں میں محررکی خدمات انجام دیں۔مولانا علاؤ الدین کے چال چلن اور برتاؤ کو پورٹ بلیر انتظامہ نے 1885 میں جامع مسجد ابر ڈین کالائسنس چار متولیوں کے نام جاری کیا تھا۔ان میں سے ایک آپ بھی تھے۔ مولانا نے خراب صحت کی بنا پر متعدد مرتبہ انگریز حکام سے اپنی رہائی کی عرضی لگائی،لیکن نظام حیدر آباد نے ہر اپیل کو سرد خانہ کو ڈال دیا۔آخری ایا م میں مولانا گھٹیا کے مریض ہوگئے تھے اور بصارت بھی کمزور ہوگئی تھی۔ مولانا علاؤ الدین زند گی کے تیس سال پورٹ بلیر کی مرطوب آب و ہوااور بے سروسامانی کی حالت میں گزارنے کے بعد 1889ء میں راہی ملک بقا ہوئے۔

مشہورمصنف خوشونت سنگھ نے مولانا علاؤ الدین جیسے مرد مجاہدین کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”ہندوستانی آزادی مسلمانوں کے خون سے لکھی گئی ہے۔کیونکہ ان کی آبادی کے تناسب سے جدوجہد آزادی میں ان کی شرکت کہیں زیادہ تھی۔“

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔