اپنے ہی عطیات کی زنجیروں میں جکڑی امریکی یونیورسٹیاں...جگدیش رتنانی

امریکی یونیورسٹیاں، خصوصاً ہارورڈ و ایم آئی ٹی مالی انحصار اور حکومتی دباؤ کے باعث آزادی کھو رہی ہیں، عطیات کی خاطر تعلیمی اقدار پسِ پشت چلی گئی ہیں اور طلبہ مزاحمت کر رہے ہیں

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / اے آئی</p></div>
i
user

جگدیش رتنانی

امریکہ کی آئی وی لیگ یونیورسٹیاں دنیا کے امیر ترین اداروں میں شامل ہیں۔ بھاری عطیات سے مالامال یہ ادارے وظائف، اثر و رسوخ اور عالمی نیٹ ورکس کے مرکز ہیں۔ یہاں تک کہ چین کے صدر شی جن پنگ کی بیٹی نے بھی ہارورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ ہارورڈ بزنس اسکول کو سب سے بڑا بین الاقوامی عطیہ، تقریباً 400 کروڑ روپے، ٹاٹا گروپ کی جانب سے ملا۔ اگرچہ ان اداروں پر اکثر مراعات یافتہ طبقے کے نمائندوں کے طور پر تنقید ہوتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ امریکہ کی عالمی قیادت کی بنیاد میں یہی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔

’اسٹیٹسٹا‘ کے مطابق، امریکی جامعات میں غیر ملکی طلبہ کے لحاظ سے سب سے زیادہ تعداد 2023-24 میں ہندوستانی طلبہ کی رہی، جو کہ 3,31,602 تھی۔ اس کے بعد چینی طلبہ کا نمبر آتا ہے جن کی تعداد 2,27,398 ہے۔

یہ شہرت اور دولت عام حالات میں ان اداروں کو پریشانیوں سے محفوظ رکھتی ہے لیکن آج امریکہ کا رویہ دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ ان کا مالی استحکام اور سماجی مرتبہ اب انہیں ٹرمپ انتظامیہ کے نشانے پر لے آیا ہے۔ اگرچہ یہ ادارے عطیات بڑھانے میں ماہر ہیں لیکن یہ کہنا مشکل نہیں کہ وہ سب کو تعلیم فراہم کرنے کے نظریے کے مقابلے میں اپنی تجوریاں بھرنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔

آج کی صورتِ حال 1830 کی دہائی میں ہارورڈ سے نکالے گئے امریکی فلسفی رالف والڈو ایمرسن کے بیان کی یاد دلاتی ہے، جنہوں نے کہا تھا، ’’زین کس دی گئی ہے اور وہ انسانیت کی سواری کر رہے ہیں۔‘‘ یعنی مادی دنیا پر ہمارا اختیار ہونا چاہیے تھا مگر ہم خود اس کے غلام بن چکے ہیں۔ کیا واقعی امریکی یونیورسٹیاں اپنے ہی عطیات کی قیدی بن چکی ہیں؟


کولمبیا یونیورسٹی کے مشہور فلسطینی-نژاد امریکی مورخ پروفیسر رشید خالدی نے مہینوں پہلے کہا تھا، ’’اعلیٰ تعلیم ایک نقدی مشین بن چکی ہے، جو صرف پیسہ بنانے اور ایم بی اے وکلا کے ذریعے ہج فنڈ اور رئیل اسٹیٹ آپریشنز کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ تعلیم کا مقام صرف حاشیے پر رہ گیا ہے۔‘‘

ٹرمپ اور ان کے ہمنوا امریکی تعلیمی نظام پر حملہ آور ہیں۔ ‘میک امریکہ گریٹ اگین’ کے نعرے کے تحت چلنے والی سیاست میں سازشی نظریات، عالمگیریت مخالف اور انتہائی دائیں بازو کے رجعت پسند شامل ہیں، جو اب چاہتے ہیں کہ یونیورسٹیاں وفاقی احکامات کی پیروی کریں۔

ہارورڈ جیسے ادارے ان کا مقابلہ کر رہے ہیں، جب کہ کولمبیا جیسے کچھ دیگر ادارے جھک چکے ہیں۔ ہارورڈ بھی اپریل کے پہلے ہفتوں تک خاموش رہا، حالانکہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے مطالبات کی فہرست موصول ہو چکی تھی۔ خاموشی اس وقت ٹوٹی جب مزید مطالبات شامل کیے گئے، تب ہارورڈ کے صدر ایلن ایم گاربر کو بولنے پر مجبور ہونا پڑا۔

یونیورسٹیاں آج دوہری تلوار کی زد میں ہیں۔ وہ حکومت سے براہ راست محاذ آرائی سے گریز کر رہی ہیں لیکن جب مطالبات ناقابلِ برداشت ہو جاتے ہیں، تو مجبوراً ڈٹ جاتی ہیں۔ ایسے میں بعض تعلیمی ادارے کمزور نظر آ رہے ہیں۔ ایک معروف رسالے نے یونیورسٹی سربراہان کو ’کمزور اور بے حس‘ قرار دیا۔ کئی ادارے ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبات کے سامنے سر جھکا چکے ہیں اور ایک متحدہ محاذ بنانے میں ناکام رہے ہیں۔


یہاں ایم آئی ٹی (میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی) کی مثال دیکھیے، جو دنیا کا ایک ممتاز ادارہ ہے اور ’دی مورل مشین‘ نامی ایک پراجیکٹ کے ذریعے خودکار گاڑیوں کے اخلاقی فیصلوں پر تحقیق کرتا ہے۔ اس پروجیکٹ نے دنیا بھر کے 233 ممالک سے تقریباً 4 کروڑ صورت حال پر ڈیٹا اکٹھا کیا ہے۔

لیکن اسی ایم آئی ٹی کو آئینہ دکھانے کے لیے ایک طالبہ اور صرف چار منٹ کا خطاب کافی رہا۔ 2025 کی کلاس کی نمائندہ اور ہند نژاد امریکی طالبہ میگھا وی موری نے گریجویشن سے پہلے دیے گئے خطاب میں کہا، ’’صرف اسرائیلی فوج کے ساتھ ایم آئی ٹی کے تحقیقاتی تعلقات ہیں۔ مطلب یہ کہ فلسطینیوں پر ہونے والے حملوں میں ہمارے اسکول بھی برابر کے شریک ہیں۔ اسرائیل فلسطین کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش کر رہا ہے اور یہ باعثِ شرم ہے کہ ایم آئی ٹی اس جرم میں شریک ہے۔ ہم ایم آئی ٹی کا نام اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں، ایک ایسا نام جو فلسطینی نسل کشی سے منسلک ہو چکا ہے۔‘‘

ایم آئی ٹی امریکہ کے ان کئی جامعات میں شامل ہے جن کے اسرائیلی فوج کے ساتھ تحقیقی روابط اور معاہدے ہیں اور جہاں سے انہیں مالی امداد بھی حاصل ہوتی ہے۔ بلاشبہ یہ جامعات فلسطین میں جاری نسل کشی کی مہم میں بالواسطہ شریک ہیں۔ 'ایم آئی ٹی فیکلٹی نیوز لیٹر' کے مئی/جون 2024 کے شمارے کے مطابق، ایم آئی ٹی کو اسرائیلی وزارتِ دفاع سے تحقیقی منصوبوں کے لیے 1.1 کروڑ ڈالر کی رقم موصول ہوئی ہے۔

ویموری کی جرأت مندانہ مزاحمت امریکی جامعات کے ان امتیازات کو اجاگر کرتی ہے جہاں طلبہ نہ صرف بے خوف ہو کر بلکہ جوش و جذبے کے ساتھ کلاس روم سے باہر کے معاملات پر بھی بات کرنے کے طریقے تلاش کرتے ہیں لیکن اس کے بعد جو کچھ پیش آیا، وہ آزادی اظہار کے معاملے میں ایم آئی ٹی کی ساکھ کو بری طرح مجروح کرنے والا تھا۔ میگھا ویموری کو 6 جون کو اپنی ہی گریجویشن کی تقریب میں شریک ہونے سے روک دیا گیا۔

'موریل مشینز' کے ذریعے کی جانے والی تمام اخلاقی تحقیق بھی اس بلند اخلاقی مقام کو دوبارہ حاصل نہیں کر سکتی، جس پر ویموری اور ان کے ساتھی طالب علم فائز ہوئے۔ ویموری نے ایک ایسا سبق پیش کیا جس سے امریکہ ہی نہیں، دنیا بھی بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔

(مضمون نگار جگدیش رتنانی صحافی اور ایس پی جے آئی ایم آر میں فیکلٹی ممبر ہیں، بشکریہ دی بلین پریس)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔