ٹرمپ کی ’ٹیرف پالیسی‘ کے خلاف تمام ممالک آواز بلند کر رہے، لیکن ہندوستان نے ’اسٹریٹجک بزدلی‘ اختیار کر لی... آشیش رے

ٹرمپ نے بنگلہ دیش اور سری لنکا سمیت کئی ممالک کو زیادہ ٹیرف والے خط بھیج کر تول مول کے لیے کچھ مزید وقت کی گنجائش دے دی ہے۔ ظاہری طور پر یہ قدم دباؤ بنانے والا ہے، لیکن وہ اپنی ہی عزت بچا رہے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>نریندر مودی / ڈونالڈ ٹرمپ (فائل)</p></div>

نریندر مودی / ڈونالڈ ٹرمپ (فائل)

user

آشیش رے

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی 9 جولائی کی ڈیڈلائن بغیر کسی دھوم دھڑاکا کے گزر گئی۔ ممکن ہے ٹرمپ ’امریکہ مخالف‘ برکس کو دھمکی دینے میں مشغول ہو گئے ہوں۔ ہندوستان بھی برکس کا رکن ہے۔ بہر حال، اس مضمون کو لکھنے تک ہندوستان اور امریکہ میں سے کسی نے بھی ’ٹریڈ ڈیل‘ کے موجودہ حال پر زبان نہیں کھولے تھے۔ 9 جولائی کی ڈیڈلائن کے بعد ہندوستان پر مزید سخت ٹیرف (امریکی برآمدگی پر 26 فیصد) لگنے تھے، لیکن امریکی انتظامیہ کی طرف سے اس کا کوئی اعلان نہیں ہوا۔ وہائٹ ہاؤس، محکمہ کامرس و محکمہ تجارت کو بھیجے ای میل کا بھی کوئی جواب نہیں ملا۔ ایسے میں تو یہی لگتا ہے کہ بات چیت کا راستہ اب بھی کھلا ہے۔

7 جولائی کو وہائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کی میزبانی کرتے ہوئے ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ امریکہ اور ہندوستان سمجھوتہ کے قریب ہیں۔ ایک دن قبل اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر ایک پوسٹ میں ٹرمپ نے تنبیہ دی: ’برکس کی امریکہ مکالف پالیسیوں سے جڑنے والے کسی بھی ملک پر 10 فیصد کا اضافی ٹیرف لگایا جائے گا۔ اس معاملے میں کوئی مستثنیٰ نہیں ہوگا۔‘ اس پر برازیل کے صدر لوئز ایناسیو لولا دا سلوا نے یہ کہہ کر جوابی حملہ کیا کہ ’دنیا ایسا بادشاہ نہیں چاہتی جو انٹرنیٹ پر بھڑاس نکالے۔‘ جنوبی افریقہ کے صدر ماٹامیلا سیریل رامفوسا رد عمل ظاہر کرنے میں زیادہ صابر رہے، انھوں نے کہا کہ ’طاقتور لوگوں کو دنیا میں بھلائی کا کام کرنے والوں سے بدلہ نہیں لینا چاہیے۔‘ لیکن ہندوستان نے دُم دبا کر خاموش رہنے کا متبادل منتخب کیا۔


ٹرمپ کو لگتا ہے کہ دو فریقی کاروبار میں برکس ڈالر کو کنارے لگانے کی تیاری کر رہا ہے۔ جب ٹرمپ نے پہلی بار یہ ایشو اٹھایا تو ہندوستان نے فوراً صفائی دی کہ وہ ’ڈی-ڈالرائزیشن‘ کی حمایت نہیں کرتا، حالانکہ کچھ معاملوں میں اس کے پاس مقامی کرنسی سسٹم ہے۔ ’بلومبرگ‘ نے 9 جولائی کو رپورٹ دی کہ ٹرمپ کے اس قدم نے مہینوں سے چل رہی بات چیت میں ایک نیا موڑ لا دیا ہے۔ ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ ٹرمپ ہندوستان کے علاوہ کئی دوسرے ممالک کے ساتھ بھی سخت مول بھاؤ کر رہے ہوں۔ ’سی این این‘ نے اسی دن رپورٹ کیا ’طویل وقت سے ہندوستان کو امریکہ کا ایک اہم شراکت دار تصور کیا جاتا رہا ہے جس کے ٹریڈ ڈیل پر سب سے پہلے سمجھوتہ کرنے کا امکان تھا، لیکن امریکی افسران کے مطابق حال کے دنوں میں ہندوستانی تجارتی مذاکرین نے اپنا رخ سخت کر لیا ہے۔‘

صدر کے طور پر اپنی دوسری مدت کار کے 100 دن مکمل ہونے کے فوراً بعد ٹرمپ نے غلط دعویٰ کیا کہ انھوں نے 200 ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدے پورے کر لیے ہیں۔ تقریباً ڈھائی ماہ بعد انھوں نے صرف 3 کا انکشاف کیا ہے– برطانیہ، چین اور ویتنام کے ساتھ۔ شاید یہ سمجھتے ہوئے کہ سبھی تجارتی شراکت دار ان کے جارحانہ رخ سے نہیں ڈریں گے، انھوں نے بنگلہ دیش اور سری لنکا سمیت کئی ممالک کو زیادہ ٹیرف والے خط بھیج کر غالباً تول مول کے لیے کچھ اور وقت کی گنجائش دے دی ہے۔۔ اوپری طور پر یہ قدم دباؤ بنانے والا ہے، لیکن اصل میں ایسا کر کے وہ اپنی ہی عزت بچا رہے ہیں۔ ایسے ممالک میں سے زیادہ نے اعتراف کیا ہے کہ ٹرمپ گرجتے زیادہ اور برستے کم ہیں اور اسی لیے ان کے نرم پڑنے کا انتظار کر رہے ہیں۔


نریندر مودی حکومت ان گنتی کی حکومتوں میں ہے جن میں ٹرمپ کے جھانسے کو ظاہر کرنے کی ہمت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کو امریکہ دھونس پٹی نہیں دکھا رہا، لیکن اگر مودی حکومت امریکی زراعت اور ڈیری مصنوعات کو ہندوستانی بازار میں بے روک ٹوک رسائی دے دیتی ہے تو یہ ہندوستان کی کھیتی کسانی پر منحصر آبادی کے لیے موت کی گھنٹی ہی ہوگی۔ اگر ٹرمپ اس معاملے میں نرمی نہیں برتتے ہیں تو صاف ہو جائے گا کہ مودی حکومت کی سالوں سے کی جا رہی للو-چپو کے بعد بھی ٹرمپ حقیقت میں ہندوستان کو کس خانہ میں رکھتے ہیں۔ الٹے، اس کا اثر کواڈ پر پڑے گا جو چین کو قابو کرنے کے لیے امریکہ-ہندوستان-جاپان-آسٹریلیا کے درمیان کی شراکت داری ہے۔

ٹرمپ-مسک کا ڈرامہ

ٹرمپ نے حال ہی میں کہا کہ انھیں الیکٹرک کاریں (جنھیں ایلن ماسک کی ٹیسلا بناتی ہے) پسند نہیں اور ان کے مقابلے میں تیل پینے والی روایتی کاریں زیادہ پسند ہیں۔ ایک دن پہلے تک ایک دوسرے کی دوستی کی قسمیں کھانے والے ان دونوں کے درمیان اب ’36 کا آنکڑا‘ ہے۔ ٹرمپ کے بیان میں موجود معنی کو سمجھنے کی کوشش کرنے سے ایسا لگتا ہے کہ امریکی حکومت کے ’خاص ملازمین‘ اور صدر کے قریبی مشیر مسک ’الیکٹرک گاڑیوں کو لازمی بنانے‘ کی وکالت کر رہے تھے۔ مسک کو اس سے بہت مایوسی ہوئی کہ ٹرمپ کا ’بِگ، بیوٹی فل بل‘ اب قانون بن چکا ہے اور اس نے الیکٹرک گاڑیوں کے لیے ٹیکس چھوٹ کو ختم کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ ’لوگ اب جو چاہیں خریدیں، پٹرول سے چلنے والی ہائبرڈ کاریں یا نئی تکنیک والی کوئی اور، اب الیکٹرک گاڑی ہی خریدنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘


مسک نے اس قانون کی کھل کر مخالفت کی۔ ان کی دلیل تھی کہ اس سے ٹرمپ کی 4 سالہ مدت کار کے دوران امریکہ کے قومی قرض میں کھربوں ڈالر کا اضافہ ہو جائے گا۔ اب انھوں نے ٹرمپ کی مخالفت کے لیے ایک نئی سیاسی پارٹی قائم کی ہے۔ مسک کے ذریعہ ’امریکہ پارٹی‘ کے اعلان پر ٹرمپ نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے تیسری پارٹی شروع کرنا مضحکہ خیز ہے... مجھے ایلن مسک کو اس طرح پٹری سے اترتے دیکھ بے حد افسوس ہو رہا ہے۔‘ انھوں نے مسک کے کاروبار کو تباہ کر کے انھیں جنوبی افریقہ بھیجنے کی بھی بات کی۔ دنیا کے سب سے امیر شخص مسک کے پاس اپنی پارٹی کو فنڈنگ کرنے کے وسائل ہیں۔ 7 جولائی کو اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر انھوں نے کہا کہ ’صدر عہدہ کے لیے کسی امیدوار کو حمایت کرنا ناممکن نہیں ہے، لیکن اگلے 12 مہینے ان کی توجہ ایوان نمائندگان اور سینیٹ پر ہے۔‘ مسک ایکس کے مالک ہیں، جس کے 60 کروڑ فعال صارفین ہیں، جن میں سے 5 کروڑ سے زیادہ تنہا امریکہ میں ہیں۔ انھوں نے بل کی حمایت میں ووٹ کرنے والے برسراقتدار ریپبلکن اراکین پارلیمنٹ کو بھی متنبہ کیا کہ اگلے سال انھیں پرائمری (نامزدگی سے قبل) مقابلے میں شکست دینے میں وہ کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ امریکہ پارٹی 2028 کے لیے صدارتی عہدہ کا امیدوار منتخب کر سکتی ہے، لیکن مسک انتخاب نہیں لڑ سکتے، کیونکہ ان کی پیدائش پریٹوریا میں ہوئی تھی اور اس وجہ سے وہ انتخاب لڑنے کے لیے اہل نہیں۔

برطانیہ-فرانس معاہدہ

27 ممالک کا یوروپی یونین، جس کی جی ڈی پی برطانیہ کے یونین سے باہر نکلنے کے بعد بھی امریکہ کے بعد دوسرے مقام پر ہے۔ ٹرمپ یوروپی یونین کو ’کئی معنوں میں چین سے بھی بدتر‘ مانتے ہیں۔ 2016 میں بریگزٹ ریفرینڈم کے بعد یوروپی یونین اور برطانیہ کے درمیان تلخی نے یوروپ میں پھوٹ ڈال دی۔ برطانیہ میں لیبر گورنمنٹ کی واپسی نے بہتر ماحول بنایا ہے اور رشتوں میں نئی شروعات ہوئی ہے، جس سے بہتر کاروبار کی امید پیدا ہوئی ہے۔ یوکرین پر روسی حملے نے یوروپ کو متحد کیا اور برطانیہ نے خواہشمند ممالک کا فوجی اتحاد بنانے میں قیادت کی۔ 10-8 جولائی کو برطانیہ نے فرانس کے صدر امینوئل میکروں کی میزبانی کی۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں میکروں نے کہا کہ ’ہم یہ اصول کبھی قبول نہیں کریں گے کہ جس کی لاٹھی، اس کی بھینس۔... یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم (کیر اسٹارمر) نے گزشتہ فروری میں یہ اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا۔‘


انھوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ برطانیہ اور فرانس یوروپ کی صرف 2 جوہری طاقتیں ہیں اور یہ ’براعظم کی پہلی صف کی مسلح افواج ہیں‘ جو یوروپ کی حفاظت کے لیے خرچ کا 40 فیصد برداشت کرتی ہیں۔ میکروں نے زور دیا کہ یوروپی ممالک کو ’امریکہ اور چین دونوں پر اپنا زیادہ انحصار‘ ختم کرنا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔