ترن تارن ضمنی انتخاب: اکالی سے اکالی، عآپ سے عآپ کی لڑائی، پنجاب کی سیاست کا امتحان

پنجاب کی ترن تارن اسمبلی سیٹ کے ضمنی انتخاب نے ریاستی سیاست میں نیا موڑ پیدا کیا ہے۔ اکالی اور عام آدمی پارٹی کے اندرونی اختلافات، کانگریس کی یکجہتی اور کسانوں کے بڑھتے غصے نے مقابلہ سخت کر دیا ہے

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر</p></div>
i
user

ہرجندر

پنجاب کی ترن تارن اسمبلی سیٹ پر 11 نومبر کو ہونے والا ضمنی انتخاب بظاہر ایک حلقے تک محدود دکھائی دیتا ہے مگر درحقیقت یہ پورے پنجاب کی سیاسی فضا کا عکاس ہے۔ 2027 کے عام انتخابات سے پہلے یہ ریاست کی آخری بڑی آزمائش مانی جا رہی ہے، اسی لیے سبھی سیاسی جماعتوں نے اپنی پوری توانائی جھونک دی ہے۔

یہ نشست عام آدمی پارٹی کے رکن اسمبلی کشمیر سنگھ سوہل کے انتقال کے باعث خالی ہوئی تھی۔ سرحدی ضلع ترن تارن نشہ خوری، اسمگلنگ اور حالیہ برسوں میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ کبھی یہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر علاقہ سمجھا جاتا تھا، جبکہ آج بھی یہاں سرحد پار سے غیر قانونی سرگرمیاں جاری ہیں۔

کئی مبصرین اسے سکھ مت کے اثر والا علاقہ قرار دیتے ہیں مگر یہاں کی سیاسی تاریخ اس نظریے کو مکمل طور پر درست ثابت نہیں کرتی۔ 2017 میں اسی سیٹ سے کانگریس کے دھرمیندر اگنی ہوتری نے اکالی امیدوار کو شکست دی تھی، جب اکالی دل اور بی جے پی اتحاد میں تھے۔

پچھلے لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے اس علاقے کے بدلتے رجحان کو اور واضح کر دیا۔ ترن تارن، کھڈور صاحب پارلیمانی حلقے کے تحت آتا ہے، جہاں ’وارث پنجاب دے‘ تنظیم کے رہنما امرت پال سنگھ نے جیل سے انتخاب لڑ کر کامیابی حاصل کی تھی۔ اس وقت کی سیاسی خلاء نے انہیں فائدہ پہنچایا مگر پنجاب کانگریس کے صدر امریندر سنگھ راجہ وڑنگ کا ماننا ہے کہ اب حالات ویسے نہیں ہیں۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار وارث پنجاب دے نے بھی اپنے امیدوار مندیپ سنگھ سنی کو آزاد حیثیت میں میدان میں اتارا ہے، جنہیں اکالی دل کے علیحدہ ہوئے دھڑے کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری طرف سردار سکھبیر سنگھ بادل کی قیادت والا اکالی دل، سابق پرنسپل سکھوندر کور رندھاوا کو امیدوار بنا چکا ہے، جن کے مرحوم شوہر دھرمی فوجی کا شمار کبھی گینگسٹرز میں ہوتا تھا۔

دوسری جانب عام آدمی پارٹی نے سابق اکالی ایم ایل اے ہرمیت سنگھ سندھو کو ٹکٹ دیا ہے۔ پچھلا انتخاب عام آدمی پارٹی نے جیتا تھا مگر اس بار ترن تارن کے ضمنی انتخاب میں میدان میں اتری یہی پارٹی خود ایک نئی صورت میں نظر آ رہی ہے۔ 2022 کے انتخابات میں جن وعدوں اور نعروں نے پارٹی کو عوام کے قریب کیا تھا، آج ان کا ذکر بھی نہیں کیا جا رہا۔

چند روز پہلے ڈی آئی جی ہرچرن سنگھ بھلڑ کے خلاف بدعنوانی کے جو الزامات سامنے آئے اور ان کے گھر سے جو بھاری رقم برآمد ہوئی، اس نے پارٹی کی ’بدعنوانی کے خلاف جنگ‘ کے نعرے کی ہوا نکال دی۔ اسی دوران چنڈی گڑھ میں وزیرِاعلیٰ اور پارٹی سپریمو اروند کیجریوال کے مبینہ ’شیش محل‘ کی تعمیر پر اٹھا تنازع بھی پارٹی کو دفاعی پوزیشن میں لے آیا۔

پچھلے انتخابات میں پارٹی نے ریاست کی ہر خاتون کو ایک ہزار روپے ماہانہ دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ وعدہ ابھی تک زمین پر نہیں اترا۔ گزشتہ چار برس کے اقتدار میں ناقص انتظام، خاص طور پر حالیہ سیلاب کے دوران بدانتظامی نے حکومت کے کردار پر کئی سوال کھڑے کر دیے ہیں جن کے تسلی بخش جواب پارٹی نہیں دے پا رہی۔


مشکلات یہیں ختم نہیں ہوتیں۔ عام آدمی پارٹی سے الگ ہو چکا ایک دھڑا، جو خود کو ’اصلی عآپ‘ کہتا ہے، اس نے بھی پچھلے رکن اسمبلی کشمیر سنگھ سوہل کے بھتیجے کو میدان میں اتار دیا ہے۔ نتیجتاً پارٹی کے ووٹ بینک میں تقسیم صاف دیکھی جا رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف پرتاپ سنگھ باجوہ کا کہنا ہے، ’’اکالی دل تین حصوں میں بٹ چکا ہے، عام آدمی پارٹی کے بھی دو دھڑے بن گئے ہیں، ایسے میں صرف کانگریس ہی متحد ہو کر انتخاب لڑ رہی ہے۔‘‘

لیکن کانگریس کے لیے بھی راستہ آسان نہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں اس پورے علاقے میں مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر فضا خراب کرنے کی کوششوں نے سیکولر سیاست کے لیے سنگین چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔

پنجاب میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ ضمنی انتخاب ہمیشہ وہی جماعت جیتتی ہے جو اقتدار میں ہوتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ترن تارن اس روایت کو بدل پاتا ہے یا نہیں۔

دہلی کا دھواں اور پنجاب کی آگ

پنجاب میں کسان تنظیموں نے ایک بار پھر محاذ کھول دیا ہے۔ ان کا غصہ ان ایف آئی آرز اور جرمانوں پر ہے جو پرالی جلانے والے کسانوں کے خلاف درج کیے گئے ہیں۔ ’سنیوکت کسان مورچہ‘ نے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو یادداشتیں دے کر ان مقدمات اور جرمانوں کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس سال اب تک پنجاب میں تین ہزار سے زیادہ پرالی جلانے کے معاملے درج ہو چکے ہیں۔ قومی میڈیا میں سیٹلائٹ تصاویر کے ذریعے پنجاب کے کھیتوں میں بھڑکتی ہوئی آگ کو دہلی کے آلودہ ماحول کا اصل مجرم قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ کسان اب سیٹلائٹ کی نگرانی سے بچنے کے طریقے اپنا رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ’ایکووا سیٹلائٹ‘ اور ’ویژبل اِنفراریڈ امیجنگ ریڈیومیٹر سوٹ‘ صرف دوپہر اور رات کے اوقات میں تصویریں لیتے ہیں، لہٰذا کسان دوپہر کے بعد پرالی جلا کر نگرانی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔


مانسا کے کسان رہنما جسبیر سنگھ نے گفتگو میں کہا، ’’دھان کی کٹائی کے فوراً بعد اگر گیہوں کی بوائی نہ کی جائے تو پیداوار کم ہو جاتی ہے، اسی لیے کسان مجبوری میں پرالی جلاتے ہیں۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پرالی کے استعمال کے نئے طریقے آہستہ آہستہ سامنے آ رہے ہیں ممکن ہے تین چار سال میں اسے جلانے کی ضرورت ہی ختم ہو جائے، مگر فی الحال کسان کے پاس کوئی دوسرا مؤثر متبادل نہیں ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ایف آئی آر، جرمانوں اور شور شرابے کے باوجود پرالی جلانے کا سلسلہ نہیں رک رہا۔ دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ دہلی کی آلودگی کے مسئلے میں پنجاب کے کسانوں کا بیانیہ مسلسل منفی انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اکثر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر پنجاب میں پرالی جلانے سے دہلی میں آلودگی پھیلتی ہے تو پنجاب میں کیوں نہیں؟ یا دہلی کے راستے میں آنے والے دوسرے علاقوں میں کیوں نہیں؟

یہ سوالات بالکل بےبنیاد بھی نہیں۔ اس مسئلے پر قانونی لڑائی لڑنے والے وکیل چرن پال سنگھ کے مطابق، ’’نومبر 2019 میں سپریم کورٹ کو دی گئی رپورٹ کے مطابق دہلی کے آلودگی میں پرالی کا حصہ صرف 5 فیصد تھا، اس کے باوجود پنجاب کے کسانوں کو سب سے بڑا مجرم ٹھہرایا جاتا ہے۔‘‘

مسئلہ شاید یہ ہے کہ پرالی جلانے کو ہمیشہ دہلی کی آلودگی کے تناظر میں پیش کیا جاتا ہے، جبکہ پنجاب کے ماحول، زمین اور کسان پر پڑنے والے اثرات پر کبھی سنجیدگی سے بات نہیں کی جاتی۔ اگر اس زاویے سے بحث کی جائے تو شاید مسئلہ سمجھنا بھی آسان ہو جائے اور اس کا حل بھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔